کراچی پریس کلب میں صحافی مشاعرہ

463

ڈاکٹر نثار احمد نثار
کراچی پریس کلب ادبی سرگرمیوں کا بھی اہم مرکز و محور ہے اسی تسلسل میں یومِ پاکستان پر صحافی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت انور شعور نے کی۔ پروفیسر عنایت علی خان مہمان خصوصی تھے۔ کفیل الدین فیضان نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی‘ علاء الدین خانزادہ نے نعت رسول مقبولؐ پیش کی۔ انہوں نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے صحافی مشاعرے کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی۔ اس مشاعرے کے پہلے دور کی نطامت عبدالرحمن مومن نے کی جب کہ راشد نور نے دوسرے دور کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ کراچی پریس کلب کے سیکرٹری مقصود احمد یوسفی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشاعرہ ہماری روایات کا آئینہ دار ہے یہ وہ ادارہ ہے جس کی ضرورت ہر دور میں ہوتی ہے۔ وقت و حالات کے سبب مشاعروں کے انعقاد میں اتار چڑھائو اتار رہتا ہے۔ انہوں نے سینئر شعرا پروفیسر عنایت علی خان اور انور شعور کا شکریہ ادا کرنے علاوہ تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا انہوں نے سامعین سے درخواست کی کہ وہ اشعار کا مطلب سمجھیں گے تو بہت لطف آئے گا۔ کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک نے کہا کہ پریس کلب کی ادبی کمیٹی تواتر کے ساتھ کئی برسوں سے مشاعرے ترتیب دے رہی ہے تاہم وہ گزشتہ دو سال سے صحافی مشاعرہ سن رہے ہیں۔ مشاعروں کی محفلیں اس حوالے سے بھی بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کہ ہم ان کے ذریعے معاشرے میں سیاسی‘ سماجی‘ ثقافتی‘ علمی و ادبی شعور اجاگر کر سکتے ہیں۔ آج کی محفل میں صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد موجود ہیں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کراچی والے علم دوست اور شعر فہم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاء الدین خان زادہ اور ان کی ٹیم نے مشاعرے کے انعقاد میں خصوصی دل چسپی لی جس کے باعث ہم آج ایک کامیاب مشاعرہ منعقد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظمین مشاعرے کے علاوہ جن شعرا و شاعرات نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا ان میں سرور جاوید‘ عقیل عباس جعفری‘ خالد معین‘ اجمل سراج‘ اقبال خاور‘ فاضل جمیلی‘ نسیم سید‘ قیصروجدی‘ نثار احمد نثار‘ حنیف عابد‘ عنبرین حسیب عنبر‘ مرزا تنویر بیگ‘ نعمان جعفری‘ علاء الدین خان زادہ‘ عمران شمشاد‘ سیمان نوید‘ وجیہ ثانی‘ فیض عالم بابر‘ انجم شکیل لاشاری‘ بشیر نازش‘ ہدایت سائر‘ سحر حسن‘ عثمان جامعی‘ افشاں سحر‘ زاہد عباس اور عباس ممتاز شامل تھے۔ یہ مشاعرہ باذوق سامعین پر مشتمل تھا‘ ادبی کمیٹی کے انتظامات بہت اچھے تھے اس قسم کی تقریبات سے زبان و ادب کی ترویج و ترقی مشروط ہے۔

اکادمی ادبیات کراچی کی میٹ اے رائٹر نشست

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیراہتمام پروفیسر نوشابہ صدیقی کے لیے میٹ اے رائٹر پروگرام تربیت دیا گیا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی‘ سعید الظفر صدیقی مہمان خصوصی تھے‘ صبیحہ خاں‘ منیف اشعر اور ماجد حسین مہمانان اعزازی تھے اس موقع پر عرفان علی عابدی نے کہا کہ پروفیسر نوشابہ صدیقی ایک مستند افسانہ نگار ہیں ان کے افسانے ہماری زندگی کے گرد گھومتے ہیں انہوں نے ہمیشہ معاشرتی ناانصافیوں پر قلم اٹھایا ہے۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ نوشابہ صدیقی کے ناول نہ صرف یہ کہ اردو و ادب میں ایک منفرد تحریر ہیں بلکہ اس لیے بھی ان کے ناولوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ انہوں نے اچھوتے موضوعات کا انتخاب کیا ہے انہوں نے ماحول سازی کے ساتھ تمام جزوی مناظر بھی اس طرح لکھے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں پر گہرے اثرات مرتب کر تے ہیں یہ ایک نرم دل رکھنے والی خاتون ہیں ان کے یہاں زبان و بیان کی جاذبیت پوری طرح نمایاں ہے۔ نوشابہ صدیقی نے کہا کہ وہ قادر بخش سومرو کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں کہ وہ اپنے ادارے کے تحت ایک مہینے میں چار پروگرام منعقد کر رہے ہیں یہ ان کی ادب نوازی کا ثبوت ہے انہوں نے اردو کے ساتھ دوسری زبان کے ادب کو بھی نظر انداز نہیں کیا انہوں نے مختلف لسانی اکائیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے یہ بھی ایک اہم کام ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ نوشابہ صدیقی ایک کہنہ مشق ادیبہ ہیں ایک وسیع القلب انسان ہیں انہوں نے ادب اور زندگی کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور جو کچھ حقیقت تھی وہ انہوں نے لکھا ہے تاکہ فردوسماج میں توازن برقرار ہو سکے۔اس دور کے بعد مشاعرے کا آغاز ہوا جس میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ قادر بخش سومرو کے علاوہ ظفر محمد خان‘ ماجد حسین‘ محمد یامین عراقی‘ منیف اشعر‘ شہناز رضوی‘ نجیب عمر‘ تاج علی رانا‘ عرفان علی عابدی‘ پروین حیدر‘ شاہدہ عروج‘ صبیحہ خان‘ نشاط ٰغوری‘ فہمیدہ مقبول‘ محمد رفیق مغل‘ فرح دیبا‘ یوسف اسماعیل‘ اقبال افسر غوری‘ محمد علی زیدی‘ کاشف علی کاشف‘ طاہرہ سلیم سوز‘ نثار اختر‘ صغیر احمد جعفری‘ صبیحہ صبا‘ عارف شیخ‘ عظمیٰ جون اور دیگر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

تحریک پاکستان میں قلم کاروں کی خدمات گراں قدر ہے‘ پیرزادہ قاسم

پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا ہے کہ تحریکِ پاکستان میں قلم کاروں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اس طبقے سے اپنے اشعار کے ذریعے قومی جذبات اجاگر کیے‘ آزادی کی اہمیت بیان کی اور قیام پاکستان کی ضرورت سے آگاہی دی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے C/5 گرائونڈ گلبرگ میں بلدیہ وسطی اور دی ہیلپرز کے اشتراک سے منعقدہ یومِ پاکستان مشاعرہ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا جس کی نظامت عنبرین حسین عنبر نے کی۔ محمد احمد خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور بلدیہ وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے کلمات تشکر ادا کیے۔ اس پروگرام میں شامل تمام شعرا کی خدمت میں یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں۔ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ پروفیسر منظر ایوبی‘ پروفیسر عنایت علی خان‘ انور شعور‘ رفیع الدین راز‘ طارق سبزواری‘ شاہدہ حسن‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ سعیدالظفر صدیقی‘ لیاقت علی عاصم‘ عارف شفیق‘ احمد نوید‘ عقیل عباس جعفری‘ ریحانی روحی‘ راشد نور‘ اختر سعیدی‘ اجمل سراج‘ ذکیہ غزل‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ ثبین سیف‘ مظہرہانی‘ فرزانہ خان نینا‘ عبدالرحمن مومن اور سید نصرت علی نی اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔

لنگڑیال انٹرنیشنل فورم کا مشاعرہ

زبان و ادب کی ترقی میں مشاعرے کا اہم کردار ہے‘ ارباب سخن اپنے زمانے کے نباض ہوتے ہیں وہ معاشرتی خرابیوں اور خوبیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں جو معاشرہ شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کرتا ہے وہ ترقی نہیں کر پاتا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر منظر ایوبی نے لنگڑیال انٹرنیشنل فورم کے تحت امریکا سے آئی ہوئی شاعرہ فرزانہ خان نیناکے اعزاز میں منعقدہ مشاعرے میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرزانہ کے اشعار میں وطن پرستی جھلکتی ہے اگرچہ یہ دیارِ غیر میں مقیم ہیں ان کی شاعری میں شعری محاسن کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل بھی نظر آتے ہیں۔ پروفیسر منظر ایوبی نے میزبانِ محفل فاروق بٹ کے لیے کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں‘ میں انہیں سلامِ عقیدت یش کرتا ہوں نیز آج کی محفل میں بہت اچھی شاعری پیش کی گئی کہیں بھی مشاعرے کا گراف نہیں گرا۔ نوجوان شعرا نے بھی اچھا کلام سنایا۔ اس مشاعری کے مہمان خصوصی اکرم کنجاہی نے کہا کہ اساتذہ کے اردو غزل کے جو میٹرز ہمیں دیے تھے اب غزل ان روایات و مضامین سے کافی آگے نکل چکی ہے اب اس صنفِ سخن میں جدید لفظیات‘ جدید استعارے شامل ہو گئے ہیں اس لیے غزل ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرزانہ خان نینا کی شاعری میں امیجری پائی جاتی ہے ان کا گہرا مشاہدہ ان کے اشعار میں بولتا ہے میرے نزدیک ان کی نظمیں ان کی غزلوں سے زیادہ توانا ہیں۔ مشاعرے کی مہمان اعزازی فرزانہ خان نینا نے کہا کہ وہ جب بھی کراچی آتی ہیں ان کے اعزاز میں محفلیں آراستہ ہوتی ہیں یہ سب کراچی والوں کی محبتوں کا ثبوت ہے انہوں نے تمام پاکستانیوں کو یومِ پاکستان کی مباک باد پیش کی انہوں نے مزید کہا کہ وہ 40 برسوں سے برطانیہ میں ہیں اور وہ الیکٹرانک میڈیا پر اردو کی ترویج میں مصروف ہیں۔ انہیں شاعری ورثے میں نہیں ملی ہے انہوں نے بڑی محنت سے اپنا مقام بنایا ہے۔ انہوں نے شوکت واسطی کی بزم علم و فن میںکام کیا ہے اسے آگے بڑھایا ہے انہیں نورجہاں ایوارڈ بھی ملا ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کراچی میں نئے انداز میں شاعری ہو رہی ہے اب گل و بلبل کے افسانے قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔ میزبان تقریب فاروق بٹ نے کہا کہ فرزانہ خان نینا کے مجموعہ غزل کا نام ’’درد کی نیلی رگیں‘‘ ہے۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل ان کی شناخت ٹھہری ان کی شاعری میں غم ہجرت‘ غم جاناں اور معاشرتی ناہمواریوں کا تذکرہ تواتر کے ساتھ ملتا ہے ان کی نظموں کی بُنت بہت شان دار ہے اس مشاعرے کی نظامت رشید خان رشید نے کی۔ منظر ایوبی‘ اکرم کنجاہی‘ فرزانہ خان نینا‘ رفیع الدین راز‘ فیروز ناطق خسرو‘ افضال بیلا‘ انور انصاری‘ اختر سعیدی‘ حجاب عباسی‘ محمد علی گوہر‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ کشور عدیل جعفری‘ شاہد اقبال شاہد‘ گل انور‘ تنویر سخن‘ حمیدہ گل تشنہ‘ عاشق شوکی‘ فاروق بٹ‘ علی کوثر مہر جمالی نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔

شکیل عادل زادہ کے اعزاز میں مشاعرہ

شکیل عادل زادہ اردو ادب کا ایک اہم نام ہے‘ آپ ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو پرائیڈ آف پرفارمنس ملا ہے اس سلسلے میں آپ کے اعزاز مین ثبین سیف نے ’’بارگاہِ ادب‘‘ کے زیر اہتمام اپنی رہائش میں محفل شعر و سخن منعقد کی‘ جس کی صدارت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی۔ امریکا سے آئے ہوئے مجید اختر‘ برطانیہ سے فرزانہ خان نینا اور کینڈا سے آئے ہوئے شاعر منیف اشعر‘ مہمانان اعزازی تے اس پروگرام کی میزبان ثبین سیف نے کہا کہ شکیل عادل زادہ وہ روشن چراغ ہیں کہ جس کی روشنی سے طالبانِ علم و فن استفادہ کر رہے ہیں ان کے نقشِ قدم ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ریحانہ روحی نے کہا کہ شکیل بھائی نے اپنی ساری زندگی علم و ادب کی ترویج و ترقی میں صرف کی ہے اور آج بھی یہ اردو کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سیما غزل نے کہا کہ شکیل عادل زادہ ایک متاثر کن ادبی شخصیت ہیں ان کی تحریریں اردو ادب کا سرمایۂ حیات ہین ان کے ہاں ہمارے ادبی و ثقافتی نظریات اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ فرزانہ خان نینا نے کہا کہ یہ میری خوش نصیبی ہی کہ میں آج شکیل بھائی جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے ساتھ بیٹھی ہوں اگرچہ میں پاکستان سے باہر مقیم ہوں لیکن میرا دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے میں کراچی میں ادبی سرگرمیوں میں شریک ہو کر بہت خوشی محسوس کرتی ہوں‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا نے کہا کہ بارگاہ ادب کی محفلیں بہت اچھی ہوتی ہیں یہاں زبان و ثقافت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ قابل ستائش ہیں ثبین سیف جن کی بدولت بارگاہ ادب ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے انہوں نے مجید اختر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں شمالی امریکا کے بہترین شعرا میں شمار کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شکیل عادل زادہ کی ادبی و سماجی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس موقع پر بارگاہ ادب کی جانب سے شکیل عادل زادہ کی خدمت میں شیلڈ پیش کی گئی۔ سامعین میں شریک محمود احمد خان نے بھی شکیل عادل زادہ کے فن و شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی۔ صاحب اعزاز شکیل عادل زادہ نے کہا کہ وہ بارگاہِ ادب کے ممنون و شکر گزار کہ اس ادبی تنظیم نے اتنی شان دار محفل سجائی اس شعری نشست میں بہت اہم لوگ شریک ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمانِ اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ریحانہ روحی‘ نسیم علوی‘ ثبین سیف‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی‘ نسیم شیخ‘ سیما غزل‘ ناصرہ زبیری اور دیگر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

خواتین نے ادب میں اعلیٰ تخلیقات کی ہیں‘ انوار احمد زئی

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام خواتین کے قومی دن کے حوالے سے پاکستانی ادب میں خواتین کا کردار کے موضوع پرمذکراہ و مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر انوار احمد زئی نے کی جب کہ کھتری عصمت علی پٹیل‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ طاہرہ سلیم سوز مہمانان خاص تھے اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ عورت کی اپنی ایک دنیا بھی ہے معاشرے کی سطح پر خاتون قلم کاروں کی تخلیقی اہمیت کا پیمانہ اس میں جاری و ساری ایک مشترکہ احساساتی تجربہ جو تمام نسائی دنیا کو ہمدم بناتا ہے اور ناقابل شکست رشتے میں پروتا ہے یوں ادب ہے ہی یگانگت کا فورم اس میں تذکیر وتانیث کی تقسیم محض ایک مفروضہ ہے دیکھا جائے تو مرد بھی وہی اعلیٰ ادب تخلیق کرتا ہے جو خواتین کرتی ہیں جن میں کچھ نسائی حسن ظاہر کرتی ہے جو اپنے (اینی ما) کو قبول کرتے ہیں مثلاً تحریر کی قدروقیمت کا ہے اور یہ کہانیاں مضامین اور شاعری آگاہی متحرک ذہن اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیت کا مظہر ہیں۔ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ عورت کے خون کا رنگ مرد سے مختلف نہیں‘ نہ ہی اس کی ایک پسلی کم مگر اس کا زندگی کے بارے میں ویژن ضرور الگ ہے اور ممتاز ہے اس ویژن کو کس طرح فنی تقاضے نبھاتے ہوئے اظہار کا رویہ دیتی ہے اس سلسلے میں سے رعایتی نمبر دینے کی بھی ضرورت نہیں پس اتنا دیکھیے کہ اگر عورت کا لکھا نکال دیا جائے تو دنیائے ادب کتنی مفلس اور قلاش رہ جاتی ہے۔ اس موقع پر جن شعرا نے کلام سنایا ان میں محمد اقبال‘ ڈاکٹر عبدالجبار‘ خالد نور‘ اقبال رضوی‘ اقبال افسر غوری‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محمد یامین عراقی‘ غلام مصطفی‘ سید صغیر احمد جعفری‘ صبیحہ صبا‘ فرح دیبا‘ عشرت حبیب‘ زارا صنم‘ زیب النساء زیبی‘ قمر جہان قمر‘ عرفان عابدی‘ دلشاد احمد دہلوی‘ محمد علی زیدی‘ تاج علی رعنا‘ سیدہ شاکرہ شاہ‘ سیدہ تاج علی ترمذی‘ سلیم حامد خان‘ طاہر سلیم سوز‘ تنویر سخن‘ سید علی اوسط جعفری‘ حنا علی‘ گل افشاں‘ نثار قریشی‘ عظیم حیدر سید‘ سلمیٰ خانم‘ زاہد حسین‘ سید گلزار حسین رضوی‘ سہیل احمد صدیقی شامل تھے۔

حصہ