محبتوں کا سفر…. ایک تعارف

680

سیمان کی ڈائری
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کی قوتیں بخشی ہیں ۔ ان میں سے دو قوتیں ’’ادراک اور احساس‘‘ تمام اعمال اورخواہشات کا سرچشمہ ہیں۔ ادراک کا کام اشیاء کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور ثبوت کے ذریعہ نتیجہ نکالنا ہے۔ ہر قسم کی ایجادات، تحقیقات وانکشافات اور تمام علوم وفنون اسی کے نتائج عمل ہیں۔اسی طرح احساس کا کام اثر پیدا کرنا ہے اور انسانی محسوسات واقعے کی نوعیت کے مطابق اس میں اثر پیدا کرتے ہیں ۔ یعنی غم کی صورت میں صدمے سے دو چار ہوتا ہے اور اگر خوشی ہے تو اس میں سرشاری اور سرور حاصل کرتا ہے۔اچھا اب اگر بات کی جائے شاعری کی تو اس میں یہی دو قوتیں الفاظ کے چناؤ،خیال سے انسان میں تحریک کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔چاہے وہ انسان کی آزادی کی بات ہو، انسانوں پر ہونے والے مظالم کی بات ہو،زندگی کی بات ہو، پیڑپرندکی بات ہو یا پھر محبوب کی بات ہو۔شاعری بلاشبہ ادب کی دیگر اصناف میں اہم اور اول اسی لیے ہے کہ اس کا دائرہ دیکھنے میں بہت چھوٹا ہے لیکن اس میں وسعت اتنی کہ کائنات ہی سما جائے ۔ چند لفظوں میں ایسی بات کہنا کہ جسے اگر نثر میں لکھا جائے تو اس کے لیے کئی صفحات لگ جائیں ۔معنی کی تہہ داریاں اتنی کہ کھولیں تو اس کی مختلف پرتیں کھلتی چلی جائیں ۔ ایسی شاعری کی جب ہم بات کریں گے تو اس میں ظاہر ہے کہ شاعر کا مشاہدہ،مطالعہ اور ادراک(علم) اتنا ہی وسیع بھی ہو۔محض ایسی شاعری نہیں کہ صرف محبوب کے گرد گھومتی نظر آئے ۔ محبوب کی تعریف بھی کوئی بری چیز نہیںلیکن جو چیز حالات کے پیش نظروقت کی ضرورت نہ بنے تو پھر ہجر و وصال کی باتیں کہاں ٹھہرسکتی ہیں۔شاعری وہی زندہ رہ سکتی ہے جو اپنے عہد کی بات کرے۔
’’محبتوں کا سفر‘‘حال ہی میں شائع ہونے والا ایسا ہی شعری مجموعہ ہے ۔جس کے خالق نے اپنے عہد میں ہونے والے والی معاشرتی نا ہمواریوں،ظلم وجبر،انسانی رویے ،قتل و غارت جیسے تلخ واقعات کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اس شعری مجموعے میں مٹی کی فریاد ہے جو اپنے بھٹکے ہوئے انسان کو راہ راست پر دیکھنا چاہتی ہے۔ایک دعا ہے کہ جو اس دھرتی پر امن و آشتی چاہتی ہے۔نفی ہے اس نظام کی جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا۔دکھ ہے اس ماں کا جس کا جواں سال بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے ماردیا گیا ۔صدا ہے اس فقیر کی جس نے محسوس کر لیا ہے کہ اس کے گھر پرکوئی افتاد پڑنے والی ہے اور اس کے اپنے لوگ بے حسی کی چادر اوڑھے اپنی اپنی دنیاؤں میں عیش و عشرت کی مستی میں مست ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کو جگا رہا ہے،یکجا کررہا ہے اور بتا رہا ہے کہ بھائی یہ گھر آپ کا ہے اور اس پر کوئی اور حکومت کررہا ہے ۔ایسے درویش ،فقیر منش انسان کو علاء الدین ہمدم ؔ کہتے ہیں۔
علاء الدین خانزادہ جنھیں دنیا اے ایچ خانزادہ کے نام سے جانتی ہے۔ یقینا یہ نام سماعت ہوتے ہی پوری شخصیت آپ کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ اے ایچ خانزادہ صحافتی حلقوں میں ایک معتبر حوالہ ہیں۔خانزادہ ہونے کے ناتے اصلاًنسلاً راجپوت ہیں ۔ان کے والدین ریاست الور سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور سندھ میں ضلع نواب شاہ کے علاقے سکرنڈ میں سکونت اختیار کی۔اے ایچ خانزادہ کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم سکرنڈ میں ہوئی۔زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام سے تشخیصِ امراض نباتات میں بی ایس سی آنرزکیا۔زراعت کے شعبے میں سرکاری ملازمت کے دروازے نہ کھلے تو صحافت کا پیشہ اپنا لیا۔سندھی،اردو اور انگریزی صحافت میں انھوں نے اپنا وقار قائم کیا اور اس کے بعد صحافتی تنظیموں سے منسلک ہو گئے۔کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب میں مختلف عہدوں پر فائز رہے اور فعال کردار ادا کیا۔ ایک آمر کے آگے نہ جھکے اور اس کے خلاف نعرۂ حق بلند کرنے میں پیش پیش رہے۔کراچی جیسے شہر میں جہاں ایک زمانے میں اٹھنے والی ہر آواز کو بوری میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا جاتا تھا۔جہاں معاشرے کے جرائم پیشہ لوگوں کے شارپ شوٹر (کارندے) اشارے کے منتظر رہتے۔ شہر بند، ہڑتال، دھماکوں اور گولیوں کی گھن گرج میں کتنی ماؤں کی گودیں اجڑتی ہوئی دیکھیں۔ایسے حالات میں کرائم رپورٹنگ کرنا اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آواز اٹھانا انھی کا خاصہ تھا۔اے ایچ خانزادہ کے بارے میں مجھ سے زیادہ ان کے صحافتی حلقوں کے ساتھی جانتے ہیں کہ وہ کتنے نڈر اور بے باک صحافی ہیں۔کسی کے آگے جھکے نہیں اور کسی سے دبے نہیں۔ہمت اور استقامت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے دکھائی دیے۔ ایک طرف ان کا قلم معاشرے کے مکروہ چہروں کو اخبار اور میڈیا کے ذریعے بے نقاب کرتا ہے تو دوسری جانب ان کے سینے میں اک شاعر کا زخمی دل بھی تو ہے جو اپنے لوگوں کی حالت زار پر خون کے آنسوروتاہے۔
ان کی شاعری میں یکسانیت کا کوئی شائبہ نہیں۔کہیںان کا انداز رندانہ ہے تو کہیں صوفیانہ بھی ہے۔عشق کی انتہا اور خاندانی(راجپوتانہ جاہ و جلال)کے تیور بھی دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان کے سیاسی، سماجی، معاشی، انتشار زدہ اور افراتفری سے بھرپور حالات، واقعات،کا ذکر ہے۔ اے ایچ خانزادہ اپنی شاعری میں ماحول اور معاشرے کی تبدیلیوں کو اپنے کلام کے ذریعہ مؤثر اور دلکش بنانے کے لئے تشبیہ و استعاروں کا بڑے سلیقے سے استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔اگر میں اے ایچ خانزادہ کے بارے میں یہ کہوں کہ وہ دردمند شاعر ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
اے ایچ خانزادہ سے میری جب پہلی ملاقات ہوئی تو میں حیران ہوا کہ وہ کرائم رپورٹربھی ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ چونکہ تھوڑا بہت میرا بھی صحافت سے تعلق ہے تو میں نے اب تک جتنے بھی کرائم کی بیٹ اپناتے صحافیوں کو دیکھا ہے تو ان کا طرز زندگی دوسروں سے کچھ الگ ہی تھا لیکن اے ایچ خانزادہ اس طرح کے صحافیوں سے الگ ہی دکھائی دیے۔میں نے انھیںاسٹڈی کیا تو میرے سوالوں کے جواب مجھے ان کی شخصیت میں ہی مل گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ پہلے شاعر ہیں اور بعد میں صحافی ہیں۔صحافت میں انھوں نے کرائم کی رپورٹنگ کوشاید جان بوجھ کر قبول کیا اوریقینا اس کے پیچھے ان کی فکر،شاعر کی سوچ کارفرما ہوگی۔ایسا میرا خیال ہے۔
علاء الدین خانزادہ ہمدمؔ ایک مہذب،شائستہ اور کھرے انسان ہیں۔عاجزی اور انکساری ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو ہیں۔’’محبتوں کا سفر‘‘ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ادبی حلقوں میں اپنی شناخت اپنا وقار بنا چکا ہے ۔اپنی زندگی بھر کے تجربات و تاثرات کو پوری صداقت اور دیانت داری سے اپنی شاعری میں برتا ہے ۔اس خوبصورت کتاب میں ایک نعت شامل ہے اور70 کے قریب غزلیں موجود ہیںجو کسی بھی آئیڈیل مجموعۂ کلام کے اعتبار سے کم نہیں۔’’محبتوں کا یہ سفر‘‘ابھی جاری و ساری ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کا یہ سفر اپنے اگلے پڑاؤ تک اردوادب میں خوشگوار اضافہ ثابت ہوگا۔آخر میں میَں اپنی بات معروف استاد شاعرپروفیسرجناب سحر انصاری صاحب کے مضمون کی چندسطروں پر ختم کرتا ہوں جو اس کتاب میں بھی شامل ہے ۔سحر انصاری صاحب کے بہ قول’’ خانزادہ ہمدمؔ ہمارے عہد کے کئی موزوں طبع شعرا کی طرح ایک خاص لگن کے ساتھ شعر لکھ رہے ہیں۔انھیں اس کی چنداں پروا نہیں کہ دررجہ بندی میں ان کا مرتبہ کس سے پہلے اور کس کے بعد ہے۔جس شعری مجموعے میں تخلیق کا یہ رخ نظر آتا ہواسے یقینا توجہ سے پڑھنا چاہیے ۔ان کی شاعری میں زندگی کے تجربے ہیں اور زندگی کے تجربے دوسرے افراد کے لیے بھی مشعل راہ ہو سکتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ خانزادہ ہمدمؔ کی شاعری کا یہی ایک جوازکافی ہے۔

اے ایچ خانزادہ کی شاعری

یقین آتا نہیں ہے گمان ہوتا ہے
محبتوں کا سفر بے تکان ہوتا ہے
نہ ان پہ طنز کرو اور نہ ان سے اکتائو
بزرگ گھر میں گھنا سائبان ہوتا ہے
یہ میرا شہر مری نسل لوٹنے والو
پتا ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے
تمہارے دل میں کبھی یہ خلش نہیں دیکھی
بنا مکین بھی کوئی مکان ہوتا ہے
سنائوں کیسے محبت کی داستانِ اَلم
یہی تو سب سے کڑا امتحان ہوتا ہے
رہِ وفا میں کبھی معجزے نہیں ہوتے
رہِ وفا میں ارادہ چٹان ہوتا ہے
یہ خود کلامی کا منصب یہ رتجگوں کا ہنر
اسی کا حق ہے کہ جو نیم جان ہوتا ہے
ہوں پُر فریب نظارے وہ دل فریب ادا
فقیہ شہر تبھی بے ایمان ہوتا ہے
تمام عمر گزاری نہ ان کو اپنا کہا
اب اس طرح بھی کوئی بے زبان ہوتا ہے
بہت ہی سوچ کے بولو کہ تیر باتوں کا
بہت ہی کاری مگر بے کمان ہوتا ہے
اس آئنے کو نفاست سے توڑیے ہمدمؔ
یہ دل کا شیشہ بہت بے نشان ہوتا ہے
٭
میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ گہر نہیں ملتا
بہت ملے ہیں کوئی معتبر نہیں ملتا
میں دل ہی دل میں تری عظمتوں کا قائل ہوں
جبیں جھکائوں کہاں تیرا در نہیں ملتا
سلگ رہی ہے جو سینے میں اس کو بھڑکائو
جگر جلائیں کہ ہم کو شرر نہیں ملتا
اجڑ اجڑ کے بھی آثار تو بچے ہوں گے
ہمیں تو اپنے ہی دل کا نگر نہیں ملتا
جنابِ شیخ بھی کرتے ہیں بد دعائیں بہت
شراب خانے سے ان کو اگر نہیں ملتا
ہے کل کی بات سبھی حال پوچھتے تھے مرا
اب ایک شخص سرِ رہ گزر نہیں ملتا
بہار آئی چمن میں چلی ہوا ہمدمؔ
مرے چمن میں کوئی دیدہ ور نہیں ملتا

حصہ