تیری ذات سے ہیں سلسلے سارے

933

فرحی نعیم
آج کے پُرفتن دور میں ایک عورت کو بہت سے چیلنجوں اور اپنے اردگرد بہت سے مسائل کا سامنا بیک وقت کرنا پڑرہا ہے، حالانکہ وہ ماضی کی نسبت ذہین بھی ہے اور باشعور بھی، مضبوط بھی ہے اور تعلیم یافتہ بھی… لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی مردوںکے اس معاشرے میں اپنے مقام کے تعین کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
وہ اپنی پہچان، اپنے نام و حیثیت اور دینِ اسلام کے تحت کیا معاشرے میں اپنی ذمے داریاں کماحقہٗ پوری کررہی ہے، اور کیا آج کی عورت اپنے فرائض سے آگاہ ہے؟ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ادبی شعبے ’حریم ادب‘ کے تحت آرٹس کونسل کراچی میں ’’تیری ذات سے ہیں، سلسلے سارے‘‘کے زیر عنوان ایک ڈسکشن فورم کا انعقاد کیا گیا۔
جمعرات 8 مارچ کو سہ پہر تین بجے جب ہم آرٹس کونسل پہنچے تو وہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اندر داخل ہونے کے لیے بے چین تھی۔ ہم بھی ان میں شامل ہوگئے۔ چند منٹوں بعد ہی قطار بناکر ہم واک تھرو گیٹ کے ذریعے اندر داخل ہوئے تو وہاں یوم خواتین کی مناسبت سے کئی پروگرام تھے، باہر کھلی جگہ پر میلہ بھی لگا ہوا تھا، لیکن ہماری نظریں تو ’’بورڈ روم‘‘ کو ڈھونڈ رہی تھیں جہاں ہمیں جانا تھا، اور چند لمحوں کے اندر ہی ہمیں گلابی اور سفید غباروں سے سجا بورڈ روم کا مرکزی دروازہ نظر آگیا۔ ہم نے تیزی سے قدم بڑھائے۔ دروازے کے پاس ہی کراچی حریم ادب کی روحِ رواں ثمرین ہمیں منتظر نظر آئیں۔ بائیں طرف میز پر قرینے سے سجی کتابوں اور دروازے کے پاس گلابی بڑے سے بینر پر حریم ادب کی طرف سے خوش آمدید کے کلمات درج تھے۔
بورڈ روم میں داخل ہوتے ہی پُرسکون ٹھنڈے ماحول نے ہمارا استقبال کیا۔ چند مہمان خواتین وقت کی پابندی کرتے ہوئے تشریف لا چکی تھیں اور باقی شہر کے ٹریفک ازدحام کے باعث کچھ تاخیر سے پہنچیں۔ سب سے ملتے ملاتے ہم نے اپنی نشست سنبھالی۔ پروگرام کی ترتیب کے مطابق ایک طویل میز کے گرد کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ملٹی میڈیا کی اسکرین تھی جس کو منتظم سیمی نظیر بڑی ذمے داری سے سنبھالے ہوئے تھیں۔ اسریٰ غوری اور ثنا علیم کو مہمانوں سے گفتگو اور سوالات کی ذمے داری سونپی گئی تھی، جو انہوں نے کامیابی سے نبھائی۔
مہمانوں کی آمد جاری تھی۔ اس دوران سورۃ الحشر کی تلاوت سے ابتدا کی گئی۔ ملٹی میڈیا کے ذریعے جماعت کے مختلف شعبہ جات کا مختصر اور جامع تعارف پیش کیا گیا۔ سب سے پہلے معزز مہمانوں سے تعارف لیا گیا اور اس کے بعد ثنا علیم نے یوم خواتین کی مناسبت سے عورت کو کائنات میں رنگ و نور کا سبب، سمندر کی ہلچل، پھول میں خوشبو جیسے استعارے دے کر کہا کہ صرف سال میں ایک دن ہی کیوں؟ کیا بقیہ 364 دن ہمارے نہیں؟ عورت ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل کا شکار ہورہی ہے، اور اگلے پچاس برس کیا اس کے مسائل میں اضافہ ہوگا یا کوئی حل بھی سامنے آئے گا! اس پروگرام کا مقصد ماضی سے سبق حاصل کرنا اور کل کے لیے خاندان کو مضبوط کرنا ہے اور اپنی بچیوں کو جوڑے رکھنا ہے۔
اسریٰ نے سوالات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج کی عورت جن مراتب پر فائز ہے کیا وہ خود کو اس کا اہل بھی ثابت کررہی ہے؟ ڈاکٹر عزیزہ انجم نے جو ڈاکٹر کے ساتھ مصنفہ اور شاعرہ بھی ہیں اور پچھلے تیس سال سے پریکٹس کررہی ہیں، اس کا جواب یوں دیا کہ ’’جب ہم مکمل سماج کی بات کرتے ہیں تو آج کی عورت زیادہ بہتر سوچ رہی ہے، اس کے شعور میں اضافہ ہورہا ہے‘‘۔ اگلا سوال تھا کہ آج کی عورت کے پاس زیادہ وسائل ہیں، اس کے باوجود ماضی کی عورت زیادہ پُرسکون تھی؟ اس کے جواب کے لیے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو دعوت دی گئی۔ ڈاکٹر فوزیہ مشہور نیورو لوجسٹ ہیں اور ان کا دوسرا تعارف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ہونے کا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ نے بڑا خوب صورت جواب دیا، انہوں نے کہا کہ ’’اسلام مرد و عورت کی ذمے داریوں میں بیلنس کرنا سکھاتا ہے، جب کہ مغرب یہ بتاتا ہے کہ دونوں یکساں ہیں، حالانکہ مرد و عورت جسمانی لحاظ سے کسی طور پر یکساں نہیں ہیں۔ عورت جتنی ذمے داریاں اپنے اوپر لیتی ہے اتنے ہی تفکرات بھی وہ اپنے اوپر لادتی چلی جاتی ہے۔ مردوں کا اپنا دائرۂ کار ہے اور خواتین کا اپنا۔ جب تک ہم ان کو توازن میں نہیں لائیں گے زندگی نہیں چل سکتی۔ میری بہن عافیہ کا یہی خواب تھا کہ ہمارے مسائل کا حل عورت کی آزادی سے نہیں بلکہ اس کے حقوق سے ہے، آئو مل بیٹھ کر تصفیہ کرلیں کہ مقدم کون ہے۔ میری بہن پڑھا لکھا پاکستان دیکھنا چاہتی تھی کہ صرف تعلیم ہی نہ ہو بلکہ خواتین میں شعور بھی ہو۔ شادی شدہ خواتین اپنی زندگی میں توازن لائیں گی تبھی کامیاب رہیں گی۔‘‘
ثناء علیم نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اب ڈاکٹر نائلہ سے سوال کیا: ہم دیکھ رہے ہیں کہ برابری کے اس دور نے عورت کو تھکا دیا ہے۔ تو ہم اب کیا کریں؟ کیا گھر میں بیٹھ جائیں یا اس کا کوئی درمیانی حل نکالا جائے؟ ڈاکٹر نائلہ نے جو پروفیسر اور ہیڈ آف لیب ہیں جناح پوسٹ میڈیکل کالج میں، فرمایا ’’خواتین مردوں کی بہ نسبت زیادہ باصلاحیت ہیں۔ اس وقت میڈیکل کالجوں میں خواتین کے داخلوں کا تناسب 70 فیصد سے بڑھ کر 95 فیصد ہوچکا ہے، کیونکہ ایک عورت جب کسی کام کا آغاز کرتی ہے تو پھر اس میں جت جاتی ہے اور پھر اسے پورا کرکے ہی دکھاتی ہے، کیونکہ خواتین محنت اور لگن سے کام کرتی ہیں۔ ایسا ہر شعبے میں ہے۔ عورت اگر اپنی، گھر اور باہر کی، ذمے داریوں میں توازن رکھے گی تو کبھی ناکام نہ ہوگی، کیونکہ مرد کی نسبت وہ اپنی ذمے داریاں زیادہ احسن طریقے اور یکسوئی سے پوری کرتی ہے۔ وہ اچھی استاد، اچھی رہنما ہوتی ہے۔ گھر میں بیٹھنا حل نہیں ہے، کیونکہ جاہل عورت زیادہ خطرناک ہوتی ہے، پھر وہ اپنے بچوں کی پرورش کیسے کرے گی جبکہ خود لاعلم ہوگی؟ لہٰذا دینی و دُنیوی تعلیم بھی حاصل کرے اور اپنی زندگی کو بیلنس بھی رکھے۔‘‘
یہاں اسریٰ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ چونکہ علم کے حصول کے لیے اللہ نے بھی کوئی قید نہیں لگائی، اسلام جو حقوق اور مراتب عورت کو دیتا ہے کیا عورت وہ پورے کررہی ہے؟ افشاں نوید نے جو ویمن فیملی کمیشن کی سربراہ اور مصنفہ ہیں، اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’بحیثیت عورت ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہم خواتین سماج اور گھر کے لیے بڑی حساس ہوتی ہیں، ہماری سوچوں اور خیالات میں یکسانیت ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے مسائل کچھ اور ہیں اور ان پر پردے ڈالنے کے لیے کچھ مصنوعی مسائل پیدا کردیے گئے ہیں۔ مرد اور عورت کی وہ چپقلش جس کا واویلا ہے، ہم نے نہیں دیکھی کہ دو فریق ہوں اور میدانِ جنگ ہو۔ ہم اپنے اردگرد خاندانوں میں بہت اچھی اور بہتر زندگیاں دیکھتے ہیں، ہوسکتا ہے میرے تجزیے اور عقل و فہم میں کوئی نقص ہو، لیکن یہاں صرف عورت ہی نہیں مردوں کے حقوق بھی صحیح ادا نہیں کیے جارہے، اس سماج میں صرف عورت ہی نہیں مرد بھی مظلوم ہے۔ مسئلہ عورت اور مرد کے بیچ نہیں ہے، میں ہر رشتے میں قابلِ احترام ہوں، گھر کی بنیاد مجھ سے بنتی ہے، ایک عورت کی تعلیم و تربیت بحیثیت ماں ایک حد تک ہی ہوتی ہے، اس کے بعد اس معاشعرے کے اثرات بھی مرد پر پورے پڑتے ہیں۔ ہم مرد کی ہر غلطی کا ذمے دار عورت کو نہیں ٹھیرا سکتے۔ اگر اس میں کوئی نقص رہ جائے تو ہمیشہ ماں ہی قصوروار نہیں ہوگی۔ ماں کو اس کی سند اور تعلیم سے نہ ناپیں بلکہ اس کے شعور سے ناپیں، کیونکہ ایک حد کے بعد یہ سماج بھی فرد کی تربیت کررہا ہوتا ہے۔ ہمیں اس معاشرے کو ہی اتنا شعور دینا ہے کہ جب بچہ ماں کی گود سے نکلے تو یہ معاشرہ بھی اسے شعور دے۔‘‘
اب ثنا نے ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر سے جو کہ بیک وقت شاعرہ، تنقید نگار، مصنفہ اور اینکر ہیں، سوال کیا کہ سوشل میڈیا نے ادب کو کتنا متاثر کیا؟ اور کیا آئندہ آنے والا دور سوشل میڈیا کا ہے؟ کیا لوگ اخبارات و رسائل کی اہمیت کو بھول چکے ہوں گے؟ اس پر عنبرین حسیب عنبر نے حریم ادب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے تو میں یہ کہوں گی کہ آج ہمارے اطراف معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے تو ایسے لوگ کہاں ہیں جو معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرتے تھے، روک ٹوک کرتے تھے؟ چونکہ آج کا دور مارکیٹنگ کا دور ہے جس میں کاروبار کرنے والا اپنی دنیا کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے پاس مغربی چیزیں اور کلچر آرہا ہے اور اس کے ساتھ اُن کے مسائل اور نظریات بھی آرہے ہیں، اب یہاں انہی مسائل اور نظریات کا پرچار کیا جارہا ہے، انہی مسائل پر گفتگو کی جارہی ہے۔ چونکہ یہ دور سوشل میڈیا کا ہے، جنہوں نے نہیں پڑھنا وہ سوشل میڈیا پر بھی نہیں پڑھتے۔ آج ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا ہوا ہے۔ اب ہر کوئی آگے آسکتا ہے اگر اس کے پاس صلاحیت و قابلیت ہے۔ وہ صنفی قید سے آزاد ہوکر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی پہچان کرا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمارا معاشرہ کیسا ہوگا؟ کیا ہم پھر غیر متوازن معاشرے کی طرف جائیں گے؟ دنیا مرد و عورت دونوں سے چل رہی ہے، اگر ہم مرد سے الگ ہوجائیں گے تو پھر دنیا نہیں چل سکتی۔ یہ بھی انتہا پسندی ہے، ہمیں اس شدت پسندی کو روکنا ہے۔ معاشرہ صحت مند تبھی ہوگا جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں رفیق بن کر… حریف بن کر نہیں۔ چاہے کتاب پڑھیں نہ پڑھیں، ہمیں تو سب سے پہلے وہ کتاب پڑھنی ہے جو اللہ کی طرف سے ہمارے لیے آئی۔ ہم وہ پڑھتے نہیں اور زندگی بھر دنیا کے سامنے شرمندہ رہتے ہیں۔ ہم دین کو سمجھتے نہیں ہیں اور لاعلم رہتے ہیں۔ معاشرے میں مرد و عورت دونوں کا احترام ہوگا تبھی توازن قائم ہوگا۔‘‘
اب سوال تھا محترمہ طلعت یاسمین ایڈووکیٹ سے، جو چیئر پرسن ہیں وومن اسلامک لائرز فورم کی، جو خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آج خواتین کو آگاہی کی ضرورت ہے۔ ہم یتیم معاشرے کے فرد ہیں، والدین آپ کو گھر تک تحفظ دیتے ہیں لیکن ہمارے حکمران جو معاشرے کے سربراہ ہوتے ہیں آج انہوں نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت معاشرے کا کردار عورت کے مسائل کے حل کے حوالے سے صفر ہوتا جارہا ہے۔ معاشرہ اس کے ظلم کو تو بڑھا چڑھا کر بتاتا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ وہ کیسے اس مسئلے سے نبرد آزما ہو۔ آج جو خواتین ہمارے پاس خلع کے لیے آتی ہیں اُن کے پیچھے کوئی نہ کوئی مرد کھڑا انہیں لولی پاپ دے رہا ہوتا ہے۔ تو یہ انتہائی پوائنٹ ہمارے گرد چل رہے ہیں، اور یہاں آگاہی کی بات اور معاشرے کی بات ہے۔ ہمارا لائرز فورم یہ بتاتا ہے کہ خواتین کی آزادی کیا ہے؟ آزادی یہ نہیں کہ میں جو چاہوں کروں، اور اپنے گھر سے الگ ہوجائوں۔ بلکہ آزادی یہ ہے کہ اللہ کی حدود کے اندر رہ کر حقوق و فرائض کو توازن سے لے کر چلیں۔ اس کے علاوہ ہم ذہن سازی کا بھی کام کرتے ہیں۔ ہم خواتین کے گھر بچانے کا کام کرتے ہیں اور ان کی کاؤنسلنگ کرتے ہیں۔ ہم جیل میں رہنے والے بچوں کو ذہنی و اصلاحی تربیت کے ساتھ کمپیوٹر کورس بھی کراتے ہیں۔ ہم سینئر لائرز کے ساتھ مل کر بھی کام کرتے ہیں۔ یہاں محترمہ افشاں نوید نے ملک میں خلع کی بڑھتی ہوئی خطرناک شرح کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ یہاں بھی سنگل پیرنٹ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔‘‘ یہاں گفتگو روک کر ڈاکٹر عزیزہ انجم سے اُن کی شاعری سننے کی فرمائش کی گئی، ان کی آزاد نظم کے چند مصرعے
میں بنتِ حوّا ہوں میں صنفِ نازک
سنہری خوابوں کی خوشنما تتلیاں سنبھالے
سفر پہ نکلی تو دیکھ پائی
’’کیا میڈیا شخصیت سازی، ذہن سازی کرتا ہے؟ ہمارا میڈیا آج جو عورت کی شخصیت سازی کررہا ہے وہ ہمارے ہی ایجنڈے کے مطابق کررہا ہے؟‘‘ ثناء علیم نے یہ سوال محترمہ غزالہ عزیز سے کیا تھا جو کالمسٹ اور جسارت اخبار کے صفحہ خواتین کی انچارج کے ساتھ ساتھ مصنفہ بھی ہیں۔ غزالہ عزیز نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارا میڈیا دراصل ہمارا میڈیا نہیں ہے، وہ غیر ملکی ایجنڈے کے مطابق کام کررہا ہے جس سے ہماری عورت متاثر ہے، لیکن ساتھ ہی نقصان بھی اٹھا رہی ہے۔ آج یومِ خواتین کے حوالے سے سب سے مظلوم عورت ہماری ڈاکٹر عافیہ ہے جس کے بارے میں میڈیا ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ پندرہ سال سے وہ جیل میں ظلم و ستم سہہ رہی ہے۔ کوئی ذکر میڈیا پر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شام پر جو ظلم و ستم ہورہے ہیں، ہماری شامی عورت آج مشکل ترین حالات میں زندگی گزار رہی ہے، ان حالات میں بھی وہ اپنی تہذیب سے جڑی ہے، وہ ایسے حالات میں بھی سر بلند ہے۔ اتنے سخت حالات ہونے کے باوجود میڈیا ہمیں نت نئے لباس، پکوان، زیورات اور ناچ رنگ دکھا رہا ہوتا ہے۔ موقع کیا ہے اور وہ ہمیں کیا دکھا رہا ہے؟ ہماری بچیاں اس سے بہت متاثر ہیں۔ اگر ہم بحیثیت ماں اور عورت ہونے کے، مہم چلائیں تو یقینا تبدیلی آئے گی، ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں، اس کے علاوہ ہم خواتین کو آسانیاں دیں جو مختلف دفاتر میں کام کررہی ہیں، حکومت اس سلسلے میں اپنی ذمے داریاں نبھائے۔‘‘
اس کے بعد ثنا نے صبا سلطان صاحبہ سے جن کا تعلق میڈیا سے ہے اور جو ’’اب تک‘‘ چینل کی جرنلسٹ ہیں، سوال کیا کہ ’’آج کے میڈیا میں متوسط اور محنت کش عورت کی کوئی نمائندگی نظر نہیں آتی، کیا اس کی وجہ پاکستان کا استحکام و ترقی ہے؟‘‘ صبا سلطان نے جواب دیتے ہوئے کہا ’’میں زیادہ تر فیلڈ رپورٹر ہوں اور اس فیلڈ میں مجھے چھ، سات سال ہوچکے ہیں، ہم پہلے تو اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں نہ صرف مرد سے، بلکہ میں اپنی فیلڈ کی خواتین کی پالیٹکس کا بھی سامنا کررہی ہوں۔ اگرچہ میں جسمانی مضبوطی میں مرد کے برابر نہیں اور نہ ہوسکتی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں اس کی طرح شیل بھی کھا رہی ہوں، دہشت گردی کے خلاف میدان میں بھی موجود ہوں، اس طرح میں کہیں نہ کہیں اپنی صلاحیت اور حوصلے کے بل بوتے پر انہیں ٹف ٹائم ضرور دے رہی ہوں، جو کہیں نہ کہیں آپ کو اپنے مقابلے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ خاتون ہونے کے باوجود اپنا نام بنانے اور آگے بڑھنے کے لیے بہت سے مسائل کا سامنا کررہی ہوں اور اپنی حیثیت منوانے کے لیے جنگ لڑ رہی ہوں‘‘۔ یہاں اسریٰ نے بات آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا کہ ’’بحیثیت عورت ہم نے اپنا احترام برقرار رکھا ہوا ہے؟‘‘ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’ہم اصل میں چیمپئن بننے کے چکر میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے اصول اور حدود خود لے کر چلنے ہیں، ان کی پاسداری بھی کرنی ہے۔ ہمیں خود اپنی حدود و قیود کا تعین کرنا ہوتا ہے۔‘‘
اگلا سوال ڈاکٹر کشور ندیم سے کیا گیا جو انڈس اسپتال میں پیڈیاٹرک اورکولوجی اسپیشلسٹ ہیں: ’’میڈیا کی بے باکی کی وجہ سے معاشرے کی بچیاں عدم استحکام کا شکار ہیں، تو بحیثیت عورت میں میڈیا کے اس عدم توازن پر اگر بند باندھوں تو کیسے باندھوں؟ اس کا کوئی حل نکالنا ہوگا؟‘‘ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا ’’میڈیا کی اس بڑھتی ہوئی بے راہ روی کا شکار صرف بچیاں نہیں بلکہ ہم سب ہیں۔ جب کوئی حادثہ ہوجائے تو میڈیا پر اس مسئلے کو صرف ابھارا جاتا ہے، لیکن اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا اصلاحات ہونی چاہئیں؟ اس کا حل کیا ہو؟ اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ گھریلو خواتین سے بھی اس کی وجوہات پر بات کی جاسکتی ہے۔ صرف شور نہ مچائیں بلکہ آئندہ کے حادثات کی روک تھام پر بھی بات کی جائے‘‘۔
یہاں اسریٰ نے کہا کہ ’’پچھلے دنوں پیمرا میں ہماری پوری ٹیم گئی اور ہم نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ یوں پیمرا نے اس ٹی وی چینل کے افرادکو بھی بلایا، اور یوں ٹیم ورک کے ذریعے ایک بڑا کام ہوا جو سب کی کاوش تھی۔ ہم کیا صرف تنقید کرتے رہیں کہ یہ نہ ہو، وہ نہ ہو، یا ہمیں اس کا متبادل بھی دینا چاہیے؟‘‘ اس کا جواب محترمہ فرح تبسم نے دیا جو بلاگر بھی ہیں اور ایف ایم 101 کی آر جے بھی، انہوں نے کہا: ’’ہم صرف چیزوں کو کنڈم کرتے ہیں لیکن آگے کی بات نہیں کرتے۔ آج سارے چینل کمرشل ہیں جو اپنی سوچ دیتے ہیں، ہم کیوں خود چینل نہیں بناتے؟ تاکہ ہماری اچھی سوچ بھی آگے منتقل ہو۔ کیونکہ انہوں نے ہماری سوچ کو گلیمر کردیا اور بدل دیا۔ آج تو احتجاج بھی گلیمر لوگوں کی موت ہوتا ہے۔ یہی سوشل میڈیا ہمارا مائنڈ سیٹ کرتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہماری سوچ کو محدود کردیا، جب کہ اسلام ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔ آج تو لڑکیوں کو برائیڈل شاور کی تعلیم دی جارہی ہے، آج شادی مذہبی فریضے کے بجائے تعیش اور گلیمرائز کردی گئی ہے‘‘۔ بات گلیمر سے نکلی تو مارننگ شوز کا ذکر بھی آیا۔ ’’آج مارننگ شوز کی جو بھرمار ہے اور جو انہیں کامیابی حاصل ہے اس کی وجہ بھی خواتین ہی ہیں جو انہیں کامیاب بنا رہی ہیں، اور ان شوز میں صرف شادی کی رسوم ہی دکھائی جاتی ہیں!‘‘ اس کا جواب محترمہ یاسمین طلحہ نے جو صحافی ہیں، دیا کہ ’’ہم چینلز کو تو بہت برا کہہ رہے ہیں لیکن ان تمام مارننگ شوز کو کامیابی دلانے والی خواتین ہی ہیں۔ ہمارے ملک میں اتنی ساری این جی اوز ہیں، کیا کسی این جی او نے آج تک کسی ٹی وی چینل کو بند کروانے کا مطالبہ کیا؟ یا ایسے پروگرام کے خلاف مظاہرہ کیا؟ گھریلو خواتین ان پروگراموں کو بڑے ذوق و شوق سے دیکھ رہی ہوتی ہیں، انہیں اپنی ذمے داریوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ہمارے ہاں نفسیاتی امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر ہماری خواتین ان پروگراموں کا بائیکاٹ کردیں تو یہ پروگرام بند ہوجائیں گے، کیونکہ مارننگ شو گھوم پھر کر ایک ہی چیز دکھا رہا ہوتا ہے۔ کوئی کام کی بات اس میں نہیں، تو ہم اس کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں، مہم چلائیں تاکہ ان چینلز کے مالکان کو بھی پتا چلے۔ اردو زبان کا الگ انہوں نے بیڑا غرق کردیا۔ ڈراموں سے بھی زیادہ تر منفی اثرات معاشرے پر پڑتے ہیں‘‘۔ یہاں ثنا نے پھر سوال کیا کہ ’’آج کی نوجوان بچی کے سوشل مسائل بڑھ گئے ہیں یا کم ہوگئے ہیں؟‘‘ اس کے جواب میں محترمہ ثروت عسکری نے جو میڈیا اینکر، شاعرہ اور مذہبی اسکالر ہیں، کہا کہ ’’ہمارے ہاں سب سے بڑی چیز منافقت ہے، یہ حد سے بڑھ گئی ہے، کہ جب ہم مذہبی تقریبات میں جاتے ہیں تو سر ڈھانپ لیتے ہیں، شادیوں میں ہمارا حلیہ مختلف ہوتا ہے۔ تو جب منافقت بڑھے گی، اور ظاہر و باطن مختلف ہوگا تو مسائل بھی بڑھیں گے۔ برائیڈل شاور کا آج سے چند سال پہلے تو نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا، تو کیا اُس وقت شادیاں ناکام تھیں؟ ایسا نہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ برائیڈل شاور زیادہ ضروری ہے یا والدین کی تربیت، بیٹی کو صبر و تحمل کا درس؟ پہلے گھر کے کاموں کی تلقین کی جاتی تھی تو یہ کوئی شرمندگی کی بات نہ تھی، لیکن آج یہ سمجھایا جاتا ہے کہ تمہارے فرائض گھریلو کام نہیں۔ لیکن اگر وہ یہ کام نہ کرے گی تو اس کے فرائض، خدمت اور خلوص کہاں جائے گا؟ بچوں سے پیار کہاں جائے گا؟ ہمارے ہاں اب روحانی و نفسیاتی تربیت کی ضرورت ہے۔ معاملات کو سلجھانے کی ضرورت ہے۔‘‘
اگلا سوال ڈاکٹر کشور سے اسریٰ نے کیا کہ ’’خواتین کو آج صحت کے حوالے سے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ یہ ذہنی پریشانی ہے۔ ایسا کیا ہے کہ عورت کا ہر مرض اسی چیز سے جڑا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’شہری عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جو ڈپریشن کی صورت میں وہ اپنے اوپر لیتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اگر ہم افراط و تفریط سے بچیں، اپنے فرائض پوری طرح ادا کریں تو حقوق بھی خودبخود حاصل ہوں گے، اور بروقت مسئلے کا حل نکالیں۔ دوسروں کو حریف نہ بنائیں بلکہ حلیف اور دوست بنائیں تو مسائل آگے نہ بڑھیں گے۔‘‘
اگلا سوال ایڈووکیٹ شازیہ سے کیا گیا کہ ’’پہلے شادی شدہ خواتین کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا، لیکن آج معاملہ مختلف ہے۔ آج ہم نئی نسل کو کس طرح روکیں کہ وہ دونوں انتہائوں کے بجائے درمیان کا راستہ اختیار کریں؟‘‘ اس کے جواب میں ایڈووکیٹ شازیہ نے کہا: ’’پہلے مائیں بیٹی کو رخصتی کے وقت ہر حال میں گھر بسانے کی تلقین کرتی تھیں، یہاں تک کہ جنازہ نکلنے کی باتیں ہوتی تھیں۔ لیکن اب جس طرح تبدیلی آرہی ہے اس میں سوچ یہ ہوچکی ہے کہ جنازہ ہمارا نہیں دوسروں کا نکالنا ہے۔ ایسی سوچ کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے گھر سے مکمل تحفظ حاصل ہے۔ اب سسرال جاتے خوف نہیں ہے بلکہ اپنے مضبوط ہونے کا احساس ہے، جس کی وجہ سے ہر حال میں گھر بسانے کا احساس بھی ختم ہوچکا۔ آج عورت تعلیم یافتہ ہے، وہ سوال کرتی ہے کہ یہ جو مجھ پر ظلم ہورہا ہے تو میرا قصور بھی بتائیں۔ یہاں مرد و عورت دونوں کی تربیت ضروری ہے۔‘‘
ثناء علیم نے اب سوال محترمہ عالیہ شمیم صدر حریم ادب سے کیا جس کے تحت یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ سوال تھا کہ ’’عورت کو کہاں سے تربیت ملے؟ ہمارا نصابِ تعلیم کیا وہ تربیت کررہا ہے کہ عملی زندگی میں جومسائل درپیش ہوتے ہیں ان کا حل نکالنے میں مدد ملے؟ محترمہ عالیہ شمیم نے اپنی مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے لیے اپنا کل جو ہمارا مستقبل ہے، بڑا اہم ہے۔ ہم کیسے اپنا کل سنوار سکتے ہیں؟ عورت کی سب سے اہم پروڈکٹ اس کے بچے ہوتے ہیں، اور ماں اپنے بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ لہٰذا جس بچے کو اپنی ماں سے اچھی تربیت مل گئی وہی آئندہ زندگی میں اس کے کام آئے گی۔ آج ہمارے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی بہنیں ہیں، ہمارا درد مشترک ہے اور ہم اسی وجہ سے اس فورم پر بیٹھے ہیں۔ جب درد جاگتا ہے تو حساسیت پیدا ہوتی ہے، لیکن آج ہم اس حساسیت سے دور ہوتے جارہے ہیں جو تحریک پیدا کرتی ہے۔ اور جمود کبھی انقلاب پیدا نہیں کرتا۔ جہاں تک بات نصاب کی ہے تو یہ دیکھیں کہ آگے جو تعلیم گاہ ہے وہ ہمارے بچوں کے لیے قتل گاہ تو نہیں؟ وہ بچوں کو بنیادی تعلیم سے محروم تو نہیں کررہی؟ اصل علم تو قرآن و سنت کا علم ہے، ہم جیسی چاہیں عصری تعلیم حاصل کرلیں لیکن دینی تعلیم سے دور ہیں تو یہ جہالت ہے۔ وہ علم نہیں صرف ڈگری ہے۔ پہلا علم تو ہم کو کان میں اذان کی صورت دے دیا جاتا ہے کہ تم مسلمان ہو، پھر ہم آگے کا لائحہ عمل بھی طے کریں کہ ہماری تعلیم کیسی ہونی چاہیے۔ تعلیم بغیر تربیت کے بھی جہالت ہے۔ ہم اپنے بچوں کو اپنی اقدار سے دور کررہے ہیں، اپنی بنیاد سے دور کررہے ہیں، اسی لیے سارے مسائل آئے ہیں‘‘۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے انجمن حریم ادب کے حوالے سے بھی بات کی کہ ’’یہ خواتین کی اصلاحی ادبی تنظیم ہے جو ایسے ہر فرد کو اپنا ممبر بنانے کے لیے کوشاں ہے جس کے ہاتھ میں قلم کی طاقت ہے۔ جس قوم میں ادب نہ ہو وہ قوم ترقی نہیں کرتی۔ عورتیں کسی بھی معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، اُسی ادب کے تحت میں آپ سے گزارش کروں گی کہ آپ ہم سے ہیں، ہم آپ سے ہیں، لہٰذا ہماری انجمن میں شامل ہوجائیں تاکہ ساتھ مل کر اس درد کو محسوس کرسکیں اور تعلیم و تربیت کو معاشرے میں عام کرسکیں۔‘‘
اس کے بعد محترمہ عنبرین حسیب عنبر نے چند اشعار سنائے:

میں سرفراز ہوں تاریخ کے کرداروں میں
میں محبت کی علامت میں وفا کی تصویر
میں تھی شعلہ نواز شام کے درباروں میں
میں ہی چنوائی گئی قصر کی دیواروں میں

آخر میں شاہدہ اسرار کنول جو آرٹس کونسل کی پروگرام ایگزیکٹو بھی ہیں، شاعرہ، ادیبہ اور سوشل ورکر بھی ہیں انہوں نے بھی اپنی کتاب ’’عورت تجھے سلام‘‘ سے شاعری سنائی۔ محترمہ صاحبِ کتاب ہیں اور شاعری کی دو کتابیں ’’عورت تجھے سلام‘‘ اور ’’اور ایک سچ‘‘ کے نام سے آچکی ہیں۔ پروگرام کے اختتام پر اسریٰ نے کہا کہ آج ہم کو ہی مل کر قدم اٹھانا ہے، ہم صرف میڈیا اور معاشرے کی بے راہ روی کو ہی قصوروار نہیں ٹھیرا سکتے۔ ناظمہ کراچی محترمہ اسماء سفیر صاحبہ نے دعا کرائی۔ مہمانانِ گرامی حریم ادب کی جانب سے گفٹ ہیمپر دیے گئے اور یوں ایک یادگار شام اپنے اختتام کو پہنچی۔

حصہ