ساحر شو پر پابندی، پیمرا کا صحیح سمت میں پہلا قدم

288

افشاں مراد
ایک چینی کہاوت ہے: ’’ہزار میل کے سفر کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے‘‘۔ کسی کام کو کرنے، سمجھنے یا اس کے انجام تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کام کو کرنے یا سر انجام دینے کے لیے پہلا قدم اٹھایا جائے۔ وہ پہلا قدم بہت بڑے کام کا سنگِ میل بن سکتا ہے۔ یہاں یہ تمہید اس لیے باندھی کہ ہم نے بھی ایک بڑے کام کا بیڑا اٹھایا، ’ہم‘ سے مراد وہ خواتین ہیں جن پر لوگوں نے بھروسا کرکے ان کے ذمے وہ کام لگایا جو بظاہر ناممکن تھا، لیکن اسے کرنے والی خواتین کی ہمتیں جواں اور ارادے پختہ تھے۔ اللہ پر ایمان و بھروسے اور یقین نے وہ پہلا قدم اٹھانے کا حوصلہ دیا جس کے آگے کامیابی ملی اور نیا سفر شروع ہوا۔ میڈیا کی بے لگام آزادی نے جہاں ہر شخص کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے وہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کو لگام کہاں اور کیسے ڈالی جائے۔ پیمرا کی غفلت، عوام کی بے حسی اور میڈیا کی شترِ بے مہار آزادی کو لگام ڈالنے کا وقت آخرکار آگیا اور نجی ٹی وی چینل سے پیش کیا جانے والا ڈانس کمپٹیشن اس کی وجہ بن گیا۔ دسمبر میں نجی ٹی وی سے مارننگ شو میں پیش کیا جانے والا بچوں کا ’’ڈانس کمپٹیشن‘‘، جس کے بعد عوام میں کھلبلی مچ گئی۔ عوام اس بے ہودہ ترین پروگرام پر ہم آواز ہوکر کھڑے ہوگئے۔ اس پروگرام میں جس طرح بچوں سے فحش ڈانس کروایا گیا اور فحش لباس پہناکر کروڑوں عوام کے سامنے لایا گیا، اس نے بحیثیت قوم ہم سب کا سر شرم سے جھکا دیا۔ چنانچہ اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہوئے ’’جماعت اسلامی خواتین‘‘ کی طرف سے پیمرا اور ہائی کورٹ میں درخواست دی گئی۔ عوامی شکایات، ای میلز اور عوام کے جذبات کو الفاظ کا روپ دے کر اسے خطوط، مراسلوں اور ای میلز کی صورت میں ہزاروں کی تعداد میں پیمرا میں جمع کرایا گیا۔ ان سب باتوں پر لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے اس پروگرام کے خلاف ایکشن لیا اور پیمرا کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ ان شکایات کا نوٹس لے اور شکایت کنندگان کو بلاکر ان کا بھی مؤقف سنے اور اس چینل کے نمائندوں کو بھی طلب کرے جس سے یہ پروگرام پیش ہوا۔
چنانچہ اسی سلسلے میں 20 فروری 2018ء کو پیمرا کے کراچی آفس میں اُن لوگوں کو طلب کیا گیا جنہوں نے اس بے ہودہ مارننگ شو کے خلاف شکایات کی تھیں۔ ہم 9 خواتین تھیں جو جماعت اسلامی کی طرف سے پیش ہوئیں اور پیمرا کے سامنے اپنا مؤقف مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ ہمارے ساتھ ساتھ کچھ اور بھائی بھی موجود تھے جو اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر وہاں پہنچے اور جنہوں نے اس شو کے خلاف شکایت پیش کی۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ اس شو نے فحاشی اور جنسیت کا طوفان اٹھا دیا اور اس کے ذریعے عوام کے ذہنوں کو جنسیت کا وہ زہر پلانے کی کوشش کی گئی ہے جو ناقابلِ قبول ہے۔ ان بھائیوں میں ’’راہ ٹی وی‘‘ کے حارث عالم، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ جناب جاوید اقبال صاحب، امریکا سے کی گئی شکایت پر اپنے دوست کے بدلے حاضر ہونے والے ایک صاحب شامل تھے۔ اس کے علاوہ پیمرا کے معزز اراکین اور لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ جج صاحبہ موجود تھیں۔ ہم 9 خواتین جن میں وہ جذبہ موجود تھا کہ جو ایک ماں میں ہونا چاہیے، وہ جذبہ موجود تھا جو ایک غیور مسلمان عورت میں ہونا چاہیے، وہ جذبہ موجود تھا کہ بحیثیت قوم اپنے مستقبل کی فکر میں مبتلا کسی بھی غیرت مند قوم میں ہونا چاہیے۔ ہم خواتین کی طرف سے جو مؤقف رکھے گئے اس میں بحیثیت ماں کے بھی اپنے جذبات و احساسات بیان کیے گئے کہ اس قسم کے شو جب آن ائر جاتے ہیں تو بحیثیت ماں ہم اس قابل نہیں رہتے کہ اپنے جوان ہوتے بچوں سے نظریں ملا سکیں، ٹی وی پر اس طرح کے پروگرام کے بارے میں بچوں کو کیسے مطمئن کرسکتے ہیں؟ وہاں ہم نے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے حوالے سے لوگوں کے جذبات سے آگاہ کیا کہ اس قسم کے پروگرام زینب جیسے واقعات کو جنم دیتے ہیں۔ فحش ڈانس، فحش کپڑے، فحش ادائیں لوگوں کے اُن منفی جذبات کو ابھارنے کا سبب بنتی ہیں جو پھر معاشرے میں زینب جیسے واقعات ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ چونکہ سیل فون کے ذریعے اب ہر قسم کے افراد کے ہاتھ میں ہر قسم کے پروگرام دیکھنے کی سہولت موجود ہے اس لیے کوئی بھی پروگرام پیش کرنے سے پہلے بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کی میڈیا مانیٹرنگ ٹیم کی رکن نے اس بات سے بھی معزز عدالت کو آگاہ کیا کہ چونکہ جماعت اسلامی گراس روٹ لیول سے کام کرتی ہے اور عوام تک ہماری رسائی رہتی ہے، اس لیے عوام کی ایک بڑی تعداد اس قسم کے کسی بھی پروگرام کی شکایات لے کر ہم تک پہنچتی ہے، کیونکہ انہیں یقین ہے کہ جماعت اسلامی ہی وہ جماعت ہے جو ان کی شکایات آگے تک پہنچا کر عوام کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرے گی، اس لیے خاص طور پر ان پروگراموں کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے جن کے خلاف بہت زیادہ عوامی شکایات ہوں، اور ’’ساحر شو‘‘ بھی ایسا پروگرام تھا جس کے خلاف ’’ٹوئٹر‘‘ پر باقاعدہ ’’Ban Sahir‘‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ کمپیئن چلی۔
اسی طرح ہماری ایک بلاگر ساتھی نے بہت سمجھ داری سے ’’پیمرا‘‘ کو بھی یہ احساس دلایا کہ ’’دراصل ہم تو پیمرا کے وکیل ہیں اور ہم تو آپ کا ہی مقدمہ لڑ رہے ہیں‘‘۔ چونکہ پیمرا کے قوانین میں یہ واضح شق موجود ہے کہ اسلامی احکامات کے منافی کسی بھی قسم کا کوئی پروگرام آن ائر نہیں جائے گا، سو یہ تو پیمرا کے کرنے کا کام تھا، یہ تو اُس کے نظر رکھنے کا کام تھا جو ہم نے کیا۔ اس پر تو پیمرا کے اصول و ضوابط کی پابندی نہ کرنے کی پاداش میں ویسے بھی پابندی عائد کردینی چاہیے۔ اسی طرح بحیثیت ایک صحافی، کالم نگار اور رائٹر میرا یہ مؤقف تھا کہ اگرچہ یہ بچوں کا پروگرام تھا لیکن اس میں بچوں کی معصومیت کو مجروح کیا گیا، بلکہ ان کی معصومیت کو قتل کرکے ایک فلمی آئٹم گرل بنانے کی کوشش کی گئی جو کہ اپنی ادائوں، اپنی جسمانی حرکات و سکنات اور لباس سے دوسرے کو لبھانے کی کوشش کررہی تھیں۔ اس شو میں بچوں سے ان کا بچکانہ پن چھین لیا گیا تھا جو کہ قابلِ افسوس و مذمت ہے۔
پیمرا کی طرف سے ہم لوگوںکے مؤقف کو بہت غور اور ایمان داری سے سنا بھی گیا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ فوری ایکشن لیتے ہوئے تو اس قسم کے کسی بھی ڈانس شو پر فوری پابندی لگائی جارہی ہے، آگے حتمی فیصلہ دوسری جانب کے وکلا کو سننے کے بعد کیا جائے گا۔ چنانچہ نجی ٹی وی کے وکیل نے بھی اپنے پروگرام کی حمایت میں کچھ کمزور دلائل دینے کی کوشش کی، اور یہ کہا کہ اس قسم کے رقص سے کسی قسم کی کوئی غلط سوچ ذہن میں نہیں آتی اور یہ محض بیمار ذہنوں کی اختراع ہے۔ جس پر پیمرا کی طرف سے اُن کو بھی Objection اور تنبیہ کی گئی۔ اسی طرح کے دلائل کے جواب میں پیمرا نے انہیں یہ پروگرام وہاں پر دوبارہ دکھانے کی پیشکش کی جس پر وہ بغلیں جھانکنے لگے اور پروگرام دیکھنے کی ہمت نہ کرسکے۔ ان سب دلائل اور مؤقف کو سننے کے بعد جج صاحبہ نے ہم سب کا شکریہ ادا کیا کہ ہم نے ایک اچھا قدم اٹھاتے ہوئے قدم آگے بڑھایا، اور نجی ٹی وی کے وکیل کو اس بات کا پابند کیا کہ اس مارننگ شو پر مانیٹرنگ رکھی جائے، یہ ڈانس شو مکمل بند کیا جائے اور اس کا سیزن 3 جو تیار کیا جارہا تھا اس پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ اس کے علاوہ تمام مارننگ شو کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنا قبلہ درست کرلیں کیونکہ مارننگ شوز وہ بدترین پروگرام ہیں جو ہر چینل سے پیش کیے جارہے ہیں، جن سے کسی قسم کا کوئی تعمیری کام ہوتا نظر نہیں آتا۔ ان سب باتوں کے جواب میں نجی ٹی وی کے وکیل نے ہم سب سے معذرت کی کہ ان کے پروگرام سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے، اور انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ اس قسم کا کوئی پروگرام اب پیش نہیں کیا جائے گا، دوسرے ایک مانیٹرنگ کمیٹی مستقل ساحر شو کو مانیٹر کرے گی تاکہ اب ایسا کوئی پروگرام آن ائر نہ جاسکے۔
اس کامیابی پر ہم سب اللہ رب العزت کے شکر گزار ہیں اور اس چھوٹی کامیابی نے ہمارے حوصلوں کو بہت جوان کردیا اور ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ جب برائی کو ختم کرنے کے لیے قدم اٹھایا جائے تو اللہ رب العزت کامیابی ضرور عطا فرماتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی یقین ہوگیا کہ برائی کی طاقت بظاہر کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اس میں یقین کا فقدان ہوتا ہے۔ اور اچھائی بظاہر کتنی ہی چھوٹی نظر کیوں نہ آتی ہو، ایمان کی طاقت اس کو طاقتِ پرواز عطا کردیتی ہے۔ ساحر شو پر لگی اس پابندی کو ہر ذی شعور نے سراہا ہے اور جماعت اسلامی کو شاباش دی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آگے بھی ایسے جرأت مندانہ اقدامات میں عوام ہمارے ہم قدم ہوں گے اور اللہ اور اس کے فرشتے ہماری مدد کو تیار ہوں گے۔

مختصر پُراثر

اقوالِ زریں

 

٭ جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو کلام کم ہوجاتا ہے۔ (حضرت علی کرم اللہ وجہہ)
٭ انسان کی فطرت اس کے چھوٹے چھوٹے کاموں سے معلوم ہوتی ہے۔ (افلاطون)
٭ ظاہر پر نہ جا، آگ دیکھنے کو سرخ ہوتی ہے لیکن اس کا جلایا ہوا سیاہ ہوجاتا ہے۔ (شیخ سعدیؒ)
٭ مجھے اعتدال پسندوں سے نفرت ہے اور انتہا پسندوں سے محبت۔ اعتدال پسندوں نے کامیابی اور ناکامی کے درمیان راہیں تلاش کررکھی ہیں جو گم نامی کے گڑھے میں لے جاتی ہیں۔ (خلیل جبران)

’’نہیں ہوتا‘‘

مودی جی جوش و خروش سے تقریر کررہے تھے ’’ہم نے پورے بھارت میں لاکھوں کُھڈیاں بنائیں تاکہ لوگوں کو جنگل اور کھیتوں میں نہ جانا پڑے۔ یہ عورتوں کے لیے تو بہت شرم اور بے عزتی کی بات ہے۔ ہم نے ان کے استعمال پر پانچ روپیہ انعام بھی رکھا ہے، مگر سب ویران پڑی رہتی ہیں، کوئی ادھر نہیں جاتا۔ گھر میں ٹوائیلٹ بنانے کے پورے دس ہزار روپے دیے ہیں مگر جاہل لوگ نہیں بناتے۔ پُرکھوں کی روایات کے نام پر جنگل، کھیت اور ندی نالوں کو گندا کرتے ہیں، اور تو اور ریل کی پٹڑیوں پر بیٹھ جاتے ہیں، سارا ٹریک گندا کر ڈالتے ہیں۔ ان بے وقوفوں کو نہیں معلوم کہ ہم زبردست قوم ہیں۔ بیت الخلا سے بہت آگے نکل کر خلا میں جا گھسے ہیں، بس پندرہ، بیس برس کی بات ہے پھر سورج پر ہمارا بھارتی خلا باز اتر رہا ہوگا۔‘‘ مودی جوشِ خطابت میں بڑ ہانکتے چلے جارہے تھے کہ انہیں اچانک خاموش ہوجانا پڑا۔
تقریر رک گئی کیونکہ پریس کانفرنس میں ہنسی اور تبصروں کی تیز گونج پھیل گئی تھی۔
’’مہاراج! سورج تو آگ سے زیادہ تپتا ہے، وہاں سب کچھ بھسم ہوجاتا ہے، ہمارا آدمی وہاں کیسے اترے گا؟‘‘ ایک رپورٹر نے حیرت سے پوچھا۔
مودی جی ذرا دیر کو بوکھلائے، پھر سنبھل کر اور سینہ تان کر اطمینان سے بولے ’’ہمارا شان دار خلائی مشن رات کے سمے سورج پر اترے گا، اُس وقت وہ بالکل ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ہونہہ‘‘ مودی کے پیچھے بیٹھے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے سر جھٹک کر دھیرے سے کہا ’’کیسے اور کہاں اتاریں گے؟ رات کو تو سورج ہی نہیں ہوتا۔‘‘

پیر صاحب تھوڑا شریف کا وصیت نامہ

پیارے بیٹے! ایک بات ہمیشہ یاد رکھو، اور وہ یہ کہ ہم صرف پیر نہیں بلکہ روحانی اور دنیاوی طاقت کے سارے چشمے ہمارے قبضے میں ہیں، یعنی ہم پیر بھی ہیں، سیاست داں بھی ہیں، حکمران بھی ہیں، اس کے علاوہ جاگیریں انگریز کے وقت سے ہمیں ملی ہوئی ہیں۔ یوں اللہ کا دیا سب کچھ ہمارے پاس ہے۔ بینک بیلنس ہے، ڈھور ڈنگر ہیں، مرید ہیں۔ ان سب نعمتوں کی قدر کرو، خصوصاً مریدوںکا خاص خیال رکھو کہ ہماری ساری شان و شوکت ان کے دم سے ہے، اگر وہ تمہارے ہاتھ چومنا چاہیں تو کسی بخل سے کام نہ لو۔ اگر تم اُس وقت دوستوں سے مصروفِ گفتگو ہو تو بھی انہیں مایوس نہ کرو بلکہ اپنا بایاں ہاتھ ان کی طرف بڑھا دو، وہ ہاتھ چومتے رہیں تم باتیں کرتے رہو۔ ایسے مواقع پر تم انہیں لائن بنانے کے لیے کہو۔ وہ لائن میں آئیں اور ایک ایک کرکے ہاتھ چومتے جائیں۔ ان کے جانے کے بعد جیب سے ٹشو پیپر نکال کر ہاتھ کو اچھی طرح صاف کرلیا کرو اور گھر پہنچتے ہی ڈیٹول سے ہاتھ دھونا بھی نہ بھولو۔ مریدوں کا اظہارِ عقیدت اپنی جگہ اور حفظانِ صحت کے اصول اپنی جگہ، دونوں کو کبھی گڈمڈ نہ کرو۔
(عطا الحق قاسمی کی تصنیف ’’وصیت نامے‘‘ سے انتخاب)

حصہ