میت کا کھانا اور معاشرتی بے حسی

740

در صدف ایمان
یوں تو ہمارا معاشرہ بے حس اور بے شمار المیوں سے بھرپور ہے ان میں سے ہی ایک ایسا المیہ ہے اور جو لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں ازحد پریشانی کا باعث ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ المیہ سنگین صورتحال اختیار کر رہا ہے اگر کہیں کسی خاندان میں موت واقع ہو تی ہے تو میت کی تدفین ہوتے ہی دیگوں کے ڈھکن کھل جاتے ہیں اور وہی احباب جو کچھ دیر پہلے تسلی دیتے ہوئے نظر آرہے تھے انہیں اپنے کھانے کی، بوٹیوں کی، گرم گرم بریانی کی، فکر ہو جاتی ہے اہل خانہ جو غم سے نڈھال ہوتے ہیں۔ اب وہ بے چارے مصروف میزبانی ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تعزیت کرنیوالے خود کیوں نہیں سوچتے کہ آیا وہ تعزیت کیلئے آئے ہیں یا پھر دعوت کھانے؟ اگر شریعت میں ہے کہ میت کے گھر والوں کو کھانا پہنچایا جائے تو یہ کھانا صرف اور صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہوتا ہے یا پھر جو دور دراز سے تعزیت کیلئے آتے ہیں ان کے لیے۔ مکمل برادری کیلئے کھانا بنوانا، کھانا کھلانا اور ان سب باتوں سے قطع نظر خود غور کریں کہ یہ سب کس پر بار ہے؟ کس پر بوجھ؟ میت کے گھر پر اور اگر بالافرض جس کے گھر میں انتقال ہوا ہے اور وہ اس گھر کا واحد کفیل تھا تو جو تھوڑی بہت بھی جمع پونجی موجود بھی ہوتی ہے وہ اس برادری کی دعوت ِ طعام کی نظر ہو جاتی۔ موجود نہ ہو جمع پونجی تو وہ بے چارے اس غم میں اور برادری کی دعوتِ شیراز کرنے میں قرض دار بھی ہوجاتے ہیں اور اس طرح میت کے اہل خانہ ہر طرح سے خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں ۔شرعی طور پر تعزیت کا حکم اس سے بالکل جداگانہ ہے۔ میت کے گھر جائیں اہل خانہ کو تسلی و تشفی دیں ، خاندان کے قریبی اقارب میں جو مالی طور پر مستحکم ہو میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا انتظام فرمائے، دعائے مغفرت و ایصالِ ثواب کا اہتمام کرے اور اس کے بعد اپنے گھروں کی راہ لیں ۔ ایسا ہرگز نہیں جنازہ اٹھنے کے بعد دیگوں کے کھلنے کا انتظار کریں۔ پھر دسترخوان پر تشریف فرما ہو کر بھرے پیٹ سے دوبارہ ملنے کے اختتامی اور رسمی جملے بولیں اور گھر کی طرف جائیں یہ طریقہ نہ اخلاقی طور پور ٹھیک ہے نہ شرعی طور پر معتبر ہے بلکہ انسان کی انسانیت پر حرف اٹھانے والی بات ہے۔ کرنے کا کام صرف اتنا ہے کہ معاشرے کے رسم و رواج کے مطابق دیگیں آہی گئیں اور اہلخانہ کا کھانا کھانے پر اصرار بھی ہو توصرف دو لقمے سے زیادہ نہ کھائیں، اس طرح امید ہے ایک نا ایک دن اس نظام فرسودہ سے نجات مل جائے گی۔ ہمیں اپنے آپ کوبدلنا ہے جبھی اس بگڑے ہوئے نظام میں تبدیلی آسکے گی اور ایک مستحکم معاشرہ بھی ان شاء اللہ جلد وجود میں آجائے گا۔

حصہ