نئے شاعر، بہنام احمد

853

اسامہ میر
منفرد لب و لہجے کے جواں فکر شاعر بہنام احمد 6 جولائی 1991 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، ملازمت کے سلسلے میں آٹھ سال سے اٹلی میں مقیم ہیں، گورنمنٹ کالج سمن آباد فیصل آباد سے گریجویشن کیا اور تقریباً چار سال سے شعر کہہ رہے ہیں، پسندیدہ صنف غزل ہے مگر کبھی کبھار نظم میں بھی اپنا کرب بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں، آپ سہل ممتنع میں اشعار کہنے کا مادہ رکھتے ہیں اور کیا خوبصورتی سے شعر کہتے ہیں۔ آئیے! چلتے ہیں ان کی اشعار کی طرف اور ان میں چھپے معانی تلاش کرتے ہیں

باغ میں تُو اگر نہیں آتا
اِس برس بھی ثمر نہیں آتا
٭
میں تجھے صاف دیکھ سکتا ہوں
میں تجھے کیوں نظر نہیں آتا
٭
اُس کو بھی یہ گمان ہے میں بس اسی کا ہوں
پانی مجھے بھی دور سے نیلا دکھائی دے
٭
روز اک طاق میں جلتا ہے دیا یادوں کا
روز کرتا ہے ترے نام پہ ماتم کوئی
٭
زندگی ایسے مرے ساتھ خفا رہتی ہے
جیسے بگڑے ہوئے بچے پہ ہو برہم کوئی
٭
ایک دریا ہے ، ترے خواب ہیں ، کچھ یادیں ہیں
آنکھ کے کاسے میں آباد ہے عالم کوئی
٭
پرائے دیس میں کیا عید ؟ اور خوشی کیسی؟
کہ میرے اپنوں نے جب رابطہ نہیں کرنا
٭
مجھے یہ علم ہے کس وقت خود سے ملنا ہے
مجھے خبر ہے کہ کب رابطہ نہیں کرنا
٭
تمہی بتاؤ مجھے، دوست ایسے ہوتے ہیں ؟؟
کہ جب ضروری ہو تب رابطہ نہیں کرنا
٭
چہرہ سرسبز ، آنکھ روشن ہے
عشق کے مقتدی رہے ہیں ہم
٭
کیا کہیں اور جاگنا ہے ہمیں ؟؟
کیا کوئی خواب جی رہے ہیں ہم ؟
٭
ایک وابستگی تو باقی ہے
پہلے بھی اجنبی رہے ہیں ہم
٭

حصہ