نعمت کا شکر ادا کریں

384

امبرین جاوید
ارم اور ماریہ بہت اچھی دوست تھیں۔ نہ صرف یہ دوستی گھر تک تھی بلکہ وہ کالج میں بھی ایک ساتھ جاتیں اورایک ہی کلاس میں تھیں۔ ارم کو گھومنے کا بہت شوق تھا۔ وہ جہاں بھی جاتی ماریہ کو ساتھ لے کر جاتی۔ کبھی کبھار ماریہ کو گھر سے اجازت نہیں ملتی تھی۔ ارم کا تعلق کھاتے پیتے گھر انے سے تھا جبکہ متوسط طبقے کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔
ایک کالج سے واپسی پر ارم نے ماریہ سے کہا کیوں نہ آج کا کھانا ہم باہر کھائیں۔ بہت دن ہوگئے کہیں گھومنے نہیں گئے۔ تم بھی ساتھ چلو۔ ماریہ کافی فکر مند ہوئی پھر بولی ’’مثلا ! کہاں چلیں ؟ تو ارم نے فورا کہا ’’کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں چلتے ہیں۔ کھانا بھی ہوجائے گا اور ساتھ ساتھ تفریح بھی کرلیں گے‘‘۔ ارم نے کچھ سوچا پھر ساتھ ہولی۔
دونوں نے اپنی اپنی پسند کے آرڈر دیے اور خوب سیر ہوکر کھانا کھایا۔ بل دینے کی باری آئی تو ارم تھوڑجھجک محسوس کی مگر ماریہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر ہی بل ادا کردیا اور ساتھ ہی بل کارڈ میں 1000 روپے کی ٹپ بھی رکھ دی۔ ماریہ نے دیکھا تو بہت حیران ہوئی کہ پورے ہزار روپے کی ٹپ۔ اتنی ساری ٹپ۔۔۔ اگر ہم یہ پیسے کسی غریب کو دیں تو کتنی دعائیں ملیں گی ہمیں۔ ہاہاہا میری پیاری دوست یہاں ہمیں ٹپ دینی ہوتی ہے۔ ہم اکثر یہاں آتے ہیں اور یوں ٹپ دیتے ہیں۔ تم پہلی بار آئی ہو جبھی ایسے عجیب محسوس کررہی ہو۔ ماریہ سن کر خاموش ہوگئی، مگر اس کچھ شرمندگی بھی محسوس ہوئی کہ وہ یہ سب نہیں جانتی۔ کھانے سے فری ہو کر دونو باہر چلی گئیں، ماریہ مسلسل اس بارے سوچ رہی تھی۔
ماریہ ! کیا ہوا کہاں کھوئی ہوئی ہو ۔۔ چلوچلو شاپنگ کرتے ہیں ، ارم نے کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ ماریہ جیسے ہی شاپنگ مال کی جانب بڑھی اسے سامنے ایک عورت بیٹھی نظر آئی۔ اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاوہ دونوں بھوک سے بل بلا رہے تھے۔
ماریہ ارم سے کچھ کہنے کو پلٹی ہی تھی کہ اتنے میں بچہ بولا ’’انٹی اللہ کے نام پر دے دو ، اللہ آپ کو بہت دے گا‘‘۔ ارم نے پرس کھولا اور سکے ڈھونڈنے لگ گئیں۔ پرس میں ہزار، 5سو روپے اور 10روپے کے نوٹ بھی موجود تھے مگر ارم نے جلدی سے 5روپے کا سک لے کر بچے کو دے دیا۔ شاپنگ مال کے سامنے ہی کچھ چیزوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ وہاں کچھ لوگ بیٹھے مختلف چیزیں کھارہے تھے۔ بچہ کھانے کھانا لینے چلاگیا۔ ارم نے کھل کر شاپنگ کی ۔ جب وہ دونوں واپس پلٹیں تو بچہ کھیل رہا تھا۔ ماریہ اس بچے کو دیکھتی رہ گئی۔
شاپنگ کے بعد دونوں اپنے اپنے گھر کو چلی گئیں۔ ’’ارم! بیٹا کہاں رہ گئی تھیں؟ جلدی سے آجائیں کھانا کھالیں‘‘۔ ارم کی امی کھانا لگاتے ہوئے اسے بلایا۔ ’’نہیں امی! میں کھانا کھا چکی ہوں، آپ لوگ کھا لیں‘‘۔ اس نے بے خیالی سے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
گھر کے سب لوگ کھانا کھانے لگ گئے۔ امی کیا بنا ہے۔ اسد نے کرسی سیدھی کرتے ہوئے پوچھا۔ ماں نے بہت سی ڈشز اپنے لاڈلے بیٹے کے سامنے رکھ دیں،مگر اسد دیکھتے ہی بگڑ گیا۔ ’’امی مجھے یہ پسند نہیں، وہ پسند آپ نے کیا کیا بنا دیا۔ پتا بھی میں یہ سب نہیں کھاتا‘‘اسد کو ناجانے کیا ہوا بدتمیزی سے اٹھ کر چلا گیا۔ شور کی آواز سن کر ارم بھی فورا کمرے سے باہر آگئی۔ امی کیا ہوا اسد کو؟ ارم نے پوچھا۔ کچھ نہیں بس کھانا پسند نہیں آیا۔ اس کی امی نے افسردگی سے کہا۔ ابھی وہ سب وہاں کھڑے تھے کہ ماریہ بھی پہنچ گئی۔ ماریہ کی ایک کتاب ارم کے پاس رہ گئی تھی۔
ماریہ وہ سب دیکھ کر حیران تھے۔ اتنا کچھ ٹیبل پر سجا ہوا تھا۔ مگر وہ اب تک حیران تھی کہ اسد کو وہ سب پسند ہی نہیں آیا تھا۔ ارم کی امی کو پریشان دیکھ کر ماریہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ آنٹی آپ پریشان نہ ہوں۔ اسد ابھی بچہ ہے ۔ اس ان سے چیزوں کے متعلق بتانا پڑے گا۔ ماریہ نے ارم کو ساتھ لیا اور اسد کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
اسد اپنے پلنگ پر اوندھا لیٹا ہوا تھا۔ اسد کیا ہم آپ کے کمرے میں آسکتے ہیں۔ ماریہ نے پیار سے دروازے کو نوک کر کے اجازت مانگی۔ اسد نے ایک نظر دیکھا کر بولا آجائیں۔ وہ دونوں اندر چلی گئیں۔ اسد میں نے سوچا آج آپ کو ایک کہانی سناتی ہوں۔ اسد کا موڈ کوکچھ بہتر ہوگیا۔ کونسی کہانی، اسدجلدی سے بولا۔
ارم بھی ماریہ کی بات سن کر حیران ہوگئیں۔ ماریہ نے آج شاپنگ مال کے سامنے والے بچے اور ان کی ماں کی حالت پر ایک مختصر سی کہانی سنائی۔ وہ کیسے ایک بڑے سے گھر سے وہاں تک پہنچے تھے۔ ارم کے دماغ کی اسکرین پر اس بچے کے مانگنے والا انداز اور تصویر گھوم رہی تھی۔ وہ حیران تھی کہ یہ سب ماریہ کیسے جانتی ہے۔ ماریہ تم اس لیے پریشان ہو کہ میں یہ سب کیسے جانتی ہیں۔ جب تم شاپنگ مال کی جانب گئی تھی میں اس بچے کی ماں کی طرف آگئی تھی۔ اس سے میں نے جب پوچھا تو اس نے مجھے یہ کہانی ایک ورق پر لکھی ہوئی دے دی۔ اس نے بتایا کہ میں صرف تمہیں ریکویسٹ کروں گی کبھی بھی اللہ کی دی ہوئی نعمت کا ضیاع اور نا شکری نہیں کرنا۔ وہ ورق میرے پاس ہے۔ ماریہ نے وہ پیپر ان دونوں کو دیکھایا۔
شاپنگ مال کے سامنے بیٹھی خاتون کا تعلق ایک امیر ترین گھرانے سے تھا۔ انہوں نے کبھی بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔ ہمیشہ فضول خرچی کرتے۔ پیسے کی قدر نہیں کرتے۔ اللہ نے جتنا دیا اس پر ہمیشہ رونا دھونا مچائے رکھتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ ان کا کاروبار ختم ہوتا گیا۔ ان کے میاں بیمار ہوگئے۔ پھر ایک دن وہ بھی چل بسے۔ سب کچھ ان کی بیماری میں خرچ ہوگیا اور بالآخر انہیں اپنی ناشکری کی سزا مل گئی۔
یہ باتیں سن کر اسد اور ارم کاپن کر رہے گئے۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔ انہیں اپنے کیے پر دکھ اور خوف آرہا تھا۔ ارم اور اسد دونوں ہی فضول خرچ تھے۔ کبھی اللہ کی دی ہوئی نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے تھے۔ کسی غریب کو صدقہ نہیں دیتے تھے۔ ماریہ نے انہیں کہا آپ پریشان نہ ہوں۔ آج سے ہی وعدہ کریں کہ آپ کبھی فضول خرچی نہیں کریں گے۔ہمیشہ شکر ادا کرتے رہیں گے۔ جانتے ہیں شکر ادا کرنا کیسا ہوتا ہے۔ اللہ نے جو کچھ تمہیں دیا اس میں سے کچھ حصہ نکال کر غریبوں میں تقسیم کریں۔ یہ بھی شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے، جتنا ہو صدقہ کریں۔ اس سے جسمانی بیماریاں بھی دور ہوتی ہیں اور مال میں برکت ہوتی ہے۔ ہم کبھی بھی اب نا شکری نہیں کریں گے۔ اسد نے جلدی سے کہا۔ ارم بھی دل میں تہہ کرچکی تھی کہ اب وہ فضول خرچی نہیں کرے گی۔ ماریہ جیسی پلٹی ان کے عقب میں ارم کی امی کھڑی مسکر رہی تھی۔ امی کو مسکراتا دیکھ کر وہ سب مسکردیے۔

حصہ