اجازت

322

کرن اسلم
’’ ٹِن ٹَن۔۔ٹِن ٹَن۔۔‘‘ رضوان اپنے دوست زوہیب کے گھر کے باہَر کھڑا مسلسل گھنٹی بجا رہا تھا۔ کوئی ساتویں مرتبہ اُس نے گھنٹی بجائی لیکن کسی نے دروازہ نہ کھولا۔ اُسے اس بات پر بہت غصّہ آ رہا تھا۔ جب کسی نے دروازہ نہ کھولا تو اُس نے پورے زور سے زوہیب کا نام لے کر آواز دی۔ ابھی وہ واپس جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے ایک بوڑھی، کمزور سی آواز سُنائی دی۔ ’’ کون ہے بیٹا؟‘‘ رضوان نے اپنے بارے میں بتایا۔ پھر وہی آواز آئی۔ ’’ بیٹا! زوہیب گھر پر نہیں ہے۔‘‘ یہ سُن کر اُسے زوہیب پر پھر غصّہ آیا کہ اُس نے کرکٹ کھیلنے آنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ خود بلانے آیا تو گھر پر نہیں ہے۔’’کب آئے گا وہ دادی جان؟‘‘ رضوان نے باہَر کھڑے کھڑے ہی پوچھا۔ ’’پتا نہیں بیٹا! اُس کی امّی کی طبیعت خراب تھی ۔ ڈاکٹر کے کلینک گیا ہے لے کر۔‘‘ دادی کی کمزور سی آواز دوبارہ آئی تو وہ شکریہ کہہ کر چلا گیا۔
’’ عجیب پاگل لڑکا ہے یہ زوہیب۔ نہیں آنا تھا تو بتا تو دیتا۔ بد تمیز، جاہل۔‘‘ رضوان بلند آواز میں اپنے غصّے کا اظہار کرتا گھر میں داخل ہوا۔ ساتھ والی گلی میں زوہیب کے گھر سے اپنے گھر تک آتے ہوئے وہ مسلسل زوہیب کے بارے میں بُڑبُڑاتے ہوئے آ رہا تھا۔ ’’کیا بات ہے رضی؟ کس پر اتنا غصّہ ہو رہے ہو بیٹا؟‘‘ امّی نے رضوان کی آواز سن کر کہا۔ اُس نے ساری بات تفصیل کے ساتھ اپنی امّی جان کو بتا دی۔
امّی نے بات سُنی تو اُسے اپنے پاس بٹھا لیا اور پیار سے پوچھا: ’’ گھڑی دیکھ کر بتائو کیا وقت ہوا ہے؟‘‘ امّی کی اس بات پر وہ حیران ہوا اور دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھ کر کہنے لگا: ’’سہ پہر کے تین بج رہے ہیں۔‘‘ امّی نے تائید میں سر ہلایا اور کہا: ’’بالکل ٹھیک! اب یہ بتائو کہ آج کل موسم کون سا ہے؟‘‘ رضوان اپنی امّی کے سوالوں پر حیران تھا۔ ’’گرمی کا‘‘ اُس نے جواب دیا۔ ’’میرے پیارے بیٹے! اب آپ خود سوچو۔ گرمی کی سہ پہر، آرام کا وقت مانا جاتا ہے۔ ایک تو آپ نامناسب وقت پر دوست کے گھر گئے۔ وہ کسی مجبوری میں گھر سے باہر تھا۔ آپ کو اس بات پر بلا وجہ غصّہ آیا۔ آپ نے بے وقت اُس کی دادای جان کو بھی تکلیف دی۔ کیا یہ سب آپ نے ٹھک کیا؟‘‘ امّی نے پیار سے سمجھایا۔ رضوان سوچ میں پڑ گیا۔
’’ میرے پیارے بیٹا جان! کیا آپ کو معلوم ہے کہ کسی کے گھر جا کر اندر جانے کی اجازت کے بھی کچھ آداب اور طور طریقے بتائے گئے ہیں؟‘‘ رضوان کے لیے یہ بات نئی تھی۔ ’’ یہ کیا بات ہوئی امّی جان؟‘‘ رضوان نے کہا۔
’’ چلیں میں آپ کو بتاتی ہوں۔ ہمارے پیارے نبی ؐ نے ہمیں دنیا میں زندگی گزارنے کے تمام اُصول، آداب اور طور طریقے سکھائے ہیں تا کہ ہم مہذب انداز میں زندگی گزاریں۔آپ ؐ کا فرمان ہے کہ ’’ کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت مانگنی چاہیے۔ اگر تیسری دفعہ بھی کوئی نہ جواب ملے تو آدمی کو چاہیے کہ خاموشی سے واپس ہوجائے۔‘‘ یعنی اگر آپ کسی سے ملنے گئے ہیں تو صرف تین بار دستک یا آواز دے کر بلائیںکیوں کہ ہو سکتا ہے کہ گھر پر کوئی بھی نہ ہو یا ممکن ہے کوئی بیمار ہو اور اکیلا ہو یا پھر سو رہا ہو۔ اس لیے بہتر ہے کہ تیسری بار بھی کوئی نہ بولے تو واپس آجائیں۔‘‘ امّی نے حدیث کے حوالے کے ساتھ رضوان کو پوری بات سمجھائی۔
’’ یہ بات مجھے معلوم نہیں تھی۔ میں شرمندہ ہوں کہ زوہیب کی دادی کو پریشان کیا، بلا وجہ زوہیب پر غصّہ کیا، وہ واقعی مجبوری میں گھر سے باہر گیا تھا۔‘‘ رضوان شرمندہ سا ہو کر بولا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ آپ بات کو سمجھ گئے۔‘‘ امّی نے رضوان کو پیار کیا۔’’ میں زوہیب کی امی کی تیمار داری کے لیے شام کو جائوں گا تب اُس کی دادی جان سے معافی بھی مانگوں گا۔‘‘ اُس نے امّی کی طرف دیکھ کرکہا۔’’ شاباش! بہت اچھّی بات ہے۔‘‘ امّی نے اُسے اچھّی سوچ پر شاباش دی۔

حصہ