لاپرواہی کا انجام

482

ارم فاطمہ
زین ایک بہت ذہین بچہ تھا۔ ہر سال کلاس میں اول آتا تھا۔ اسے کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ مختلف اسکولوں کے درمیان میں ہونے والے تقریری مقابلوں میں اسکول کی نمائندگی کرتے ہوئے کئی ٹرافیاں جیت چکا تھا۔ اسکول کے سبھی اساتذہ اس کی محنت ،لگن، اور کامیابیوں سے بے حد خوش تھے۔ اسکول میں بچوں کو اس کی مثالیں دی جاتیں تھیں۔
زین ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں شرارت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اکثر اس کی شرارتوں کی وجہ سے اسکول کے بچوں کو کسی نہ کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ ہر بار یہی کہتا کہ اگلی بار ایسا نہیں ہوگا مگر پھر کچھ دنوں بعد کوئی نہ کوئی شرارت اس کے ذہن میں آتی اور وہ اس پر عمل کرتا اور جب اس کی شرارت سے کسی بچے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ خوب ہنستا تھا۔
ایک بار اس نے شرارت میں صبیح کو کہا سر عابد تمہیں اسٹاف روم میں بلارہے ہیں۔ وہ پریشان ہوگیا کہ پتا نہیں سر نے کیوں بلایا ہے؟ سر کا پوچھنے ان کی کلاس میں گیا۔ اسٹاف روم میں گیا۔ وہاں بھی سر نہ ملے۔ وہ پریشان ہوگیا۔ پرنسپل سر نے اسے کلاس رومز کے باہر پھرتے دیکھا تو اپنے آفس میں آنے کے لیے کہا۔ ساری بات سن کر انہوں نے کسی سے سر عابد کو بلوانے کا کہا تو پتا چلا وہ آج اسکول ہی نہیں آئے تھے۔
اس پریشانی میں صبیح کاایک پیریڈ مس ہوگیا۔ اس نے کلاس ٹیچر سے شکایت کی تو انہوں نے زین کو بلا کر ڈانٹا۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے ڈانٹ سنتا رہا اور دل میں ہنستا رہا۔
اس میں ایک اور بری عادت یہ تھی کہ وہ حد سے زیادہ لاپرواہ تھا۔اکثر اپنی کتابیں اور جیومیٹری بکس کہیں نہ کہیں رکھ کر بھول جاتا اور جب ان کو ضرورت پڑتی تو ابو امی کو پریشان کرتا کہ اسے نیا جیومیٹری بکس دلائیں۔ اس کے امی ابو اس کی اس عادت سے بہت پریشان رہتے تھے۔
ایک مرتبہ اسکول سے واپس آتے ہوئے ایک دوکان سے چاکلیٹ خریدنے کے لیے رکا۔پیسے نکالنے کے لیے بیگ کھولا۔ پیسے ڈھونڈتے ہوئے جیومیٹری بکس دکان پر رکھا۔ دکان میں ٹی وی پر کرکٹ میچ آرہا تھا۔ وہ دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ پورا ایک اور دیکھنے کے بعد جب وہ پیسے دے کراور چاکلیٹ لے کر نکلا تو اس کا جیومیٹری بکس وہیں دکان پر رکھا رہ گیا تھا۔
شام کو ہوم ورک کرنے کے لیے بیگ کھولا تو جیومیٹری بکس نہیں تھا۔ وہ سوچنے لگا کہاں جاسکتا ہے۔ پھر اسے یاد آیا اسے تو وہ دکان پر ہی بھول آیا ہے۔ امی ابو کو بتایا تو پھر اسے ڈانٹ پڑی کہاپنی چیزیں سنبھال کر کیوں نہیں رکھتے۔
اسکول میں امتحان شروع ہوچکے تھے۔ اس کے سبھی پیپر بہت اچھے ہوئے تھے۔آخری پیپر دے کر جپ وہ اسکول سے گھر جانے کے لیے نکلا تو وہ بہت خوش تھا۔ راستے میں اس نے سوچاکیوں نہ بوٹے کی دوکان سے نان چنے کھاتا جاؤں بہت دن ہوگئے ہیں۔ بوٹے کی دکان پر بہت رش تھا۔ نان چنے کھانے کے پعد جب وہ اٹھنے لگا تواس کے برابر بیٹھے ایک آدمی نے اس کو ایک کاغذ دکھاتے ہوئے پوچھا ’’ بیٹا ذرا یہ پتا سمجھانا ‘‘۔ اس نے ایڈریس دیکھا اور انہیں بتانے لگا۔ تو وہ کہنے لگے ’’مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا تم میرے ساتھ چل کر وہاں پہنچا دو‘‘۔
زین نے کچھ دیر سوچا اور پھر ان کے ساتھ چل پڑا۔ کافی دور چلنے کے بعد کچھ تنگ سی گلیاں تھیں۔ جگہ بھی کافی سنسان تھی۔ اچانک اسے اندازہ بھی نہ ہوا کب دو آدمیوِں نے اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ لیا اور اسے کچھ فاصلے پہ کھڑی گاڑی میں ڈالنے لگے۔اس نے چیخنے کی کوشش کی مگر ایک آدمی نے سختی سے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا ہوا تھا۔
اب اسے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ اسے اغواء کررہے تھے۔وہ تیزی سے سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔دوپہر کا وقت تھا۔گلی سنسان تھی۔کوئی اس کی مدد کو نہیں آسکتا تھا۔ جو بھی کرنا تھا اسے خود کرنا تھا۔
ایک دم اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے اپنے اپ کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا جیسے کہ بے ہوش ہورہا ہو۔ ان دونوں نے اسے گرتے دیکھا تو گرفت ذرا نرم کی۔زین نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک آدمی کو بیگ زور سے مارا اور دوسرے کے ہاتھ پہ دانتوں سے کاٹا۔جیسے ہی انہوں نے اسے چھوڑا زین دوڑنے لگا۔ وہ دونوں اس کے پیچھے بھاگے مگر تب تک زین مین روڈ تک پہنچ چکا تھا۔وہاں رش اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے وہ زین کو پکڑ نہ سکے۔
زین دوڑتا رہا۔اس کا سانس پھول رہا تھا۔ اپنے گھر کی سڑک نظر آنے پر اس نے شکر کیا۔ آج وہ بال بال بچا تھا۔نہ جانے وہ اسے اغوا کرکے اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتے۔اس کے امی ابو کتنا پریشان ہوتے۔اب نے فیصلہ کیا کہ وہ کبھی بھی اسکول کے بعد ادھر ادھر نہیں پھرے گا اور سیدھا گھر جائے گا۔آج اس کی لاپرواہی نے اسے یہ ہمیشہ کے لیے سبق دیا تھا۔

حصہ