اتحاد میں کامیابی ہے

187

سیف الرحمن
حنین ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ بچوں کی بریک میں لی ہوئی چیزیں اور بچوں کو ملی جیب خرچ چھینتا رہتا تھا۔ وہ اکثر اسکول سے غیرحاضر رہتا جس کی وجہ سے اس کا کام ادھورا رہ جاتا پھر وہ کلاس فیلوز سے کاپیاں چھین کر اپنا کام مکمل کرتا۔ وہ پورے اسکول میں اپنی اسی کامریڈ پائی کی وجہ سے مشہور تھا۔ سب بچے اس سے ڈرتے تھے۔ پہلے پہل بچوں نیاپنے کلاس ٹیچر سے اس کی شکایتیں کیں جس پہ کلاس ٹیچر نے اسے ڈانٹا مگر حنین ہر بار ان کی ڈانٹ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا اور اپنی وہی حرکتیں جاری رکھتا۔
اس کی کلاس کے تین دوست واجد، دانش اور ایشان’ وہ بھی حنین کی حرکتوں سے تنگ تھے اور اسے کسی نہ کسی طرح سبق سکھانا چاہتے تھے۔ایک دن ان تینوں دوستوں نے اپنے کلاس فیلوز کو آپس میں متحد ہونے کا کہہ کر کہا کہ کیوں نہ ہم سب مل کر حنین کو ایسا مزا چکھائیں کہ وہ آئندہ ہماری کسی بھی چیز پر نظر نہ ڈال سکے۔ لیکن سب بچے اس سے بہت ڈرے ہوئے تھے سو انہوں سے منع کر دیا اور کہا کہ ہم کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے حنین کو غصہ آجائے۔ ان کے یوں منع کرنے پر تینوں دوستوں نے کہا ”ٹھیک ہے پھر ہم تینوں ہی مل کر حنین کو مزا چکھائیں گے۔”
ایک دن حنین ایک بچے سے اس کی بریک میں لی ہوئی چیز چھین رہا تھا تو واجد نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور بولا ”اب تمہاری یہ دھاندلی نہیں چلے گی۔” واجد کی ایسی حرکت پہ حنین نے اسے غصے سے دیکھا اور کہا ”اچھا! تمہاری اتنی جرات کہ تم میرا ہاتھ پکڑو۔” حنین نے غصے سے واجد کو مکا مارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس دفعہ ایشان نے اس کا ہاتھ پکڑلیا اور حنین سے بولا ”اور تمہاری اتنی جرات کہ تم میری دوست پر ہاتھ اْٹھاؤ” پھر تینوں دوست مل کر اسے مارنے لگے۔ اور مار مار کر اس کی ایسی درگت بنائی کہ اس نے آئندہ کسی کو بھی تنگ کرنے سے توبہ کرکے سب بچوں سے معافی مانگی۔ جس پر ان تینوں دوستوں نے آگے بڑھ کر حنین کو گلے سے لگا کر اپنا دوست بنالیا۔ اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم سب مل کر برائی کو ختم کرنا چاہیں تو کامیابی ہمارا مقدر ضرور بنے گی۔

انگوروں کے لیے لڑائی

بغداد کے بازار میں چار اندھے فقیر خیرات مانگ رہے تھے۔ ایک ہندی، دوسرا ایرانی، تیسرا عرب اور چوتھا ترک تھا۔
ایک سخی مرد نے انہیں ایک روپیہ دیا اور کہا: ’’کوئی چیز لے کر آپس میں بانٹ لو‘‘۔
ہندی نے کہا: ’’میں تو داکھ کھائوں گا‘‘۔
ترک بولا: ’’میں اوزم منگوائوں گا‘‘۔
ایرانی کہنے لگا: ’’میرا دل انگور کھانے کو چاہتا ہے‘‘۔
عرب بولا: ’’مجھے عنب کی رغبت ہے‘‘۔
سب آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو ایک کی خواہش ہے دوسرا اس کے خلاف کوئی اور چیز چاہتا ہے حالانکہ اپنی اپنی زبان میں ہر ایک یہی کہتا تھا کہ انگور لے کر کھانے چاہییں۔
ان کو یوں گھتم گھتا دیکھ کر ایک شخص بیچ بچائو کرنے آگیا۔ اسے سب زبانیں آتی تھیں۔ وہ ان کی جہالت پر ہنسا اور کہا: ’’لائو میں تمہارا جھگڑا چکا دیتا ہوں‘‘۔
چناںچہ وہ ایک روپے کے انگور خرید لایا۔ سب اپنا مرغوب میوہ پاکر خوش ہوگئے۔

حصہ