کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس میں مشاعرہ کا اہتمام

273

شاہد اسلام رشی
مشاعروں کی روایت بہت پرانی ہے اور خطہ پاک و ہند میں طویل عرصہ سے چلی آ رہی ہے ۔ شہر کراچی جس میں تقسیم ہند کے بعد بے شمار شعراء ہجرت کر کے آبسے اس روایتی سلسلہ کو بر قرار رکھا۔
گزشتہ دو دہائیوں سے کراچی کے مخدوش حالات اور ہنگامہ خیزی نے لوگوں کو اس ادبی تفریح سے محروم کر دیا تھا لیکن جوں جوں شہر امن کی طرف رواں دواں ہوا ، حالات درست ہوئے تو مشاعروں کی رونق بھی دوبالا ہونا شروع ہو گئی ۔
مشاعروں کا انعقاد ایک مشکل عمل ہے اس کے انتظامات ، شعراء کا انتاب ، حاضرین کو دعوت ، یہ طویل اور صبر آزما کام ہے ۔لیکن ساکنان شہر کراچی کو عمدہ اور ادبی ماحول فراہم کرنے کے لیے کچھ سر پھرے افراد موجود ہیں جنہوں نے بزم شعر و سخن کے نام سے ایک ادبی تنظیم قائم کی اور طارق جمیل کی قیادت میں مشاعروں کا انعقاد شروع کیا ۔ جناب طارق جمیل اور ان کے ساتھیوں خالد میر ، سر فراز عالم جملانہ ، عبید ہاشمی و دیگر نے حسب روایت22 مارچ 2018ء کو کے ایم سیک آفیسرز ویلفیئر ایسو سی ایشن کے تعاون سے کے ایم سی اسپورٹس کمپلیکس کشمیر روڈ کراچی میں ایک فقید المثال مشاعرہ کا اہتمام کیا۔ کمپلیکس کے سبزہ زار پر نہایت حسین و خوبصورت پنڈال سجایا گیا جسے پھولوں اور برقی قمقموں سے مزین کیا گیا ۔ فرشی نشستوں کے ساتھ ساتھ بے شمار کرسیوں کی زینت اس کو چار چاند لگا رہی تھی ۔
مشاعرہ کے آغاز سے قل تمام شرکاء مشاعرہ و شعراء حضرات کے لیے عشائیہ کا اہتمام کیا گیا ۔ مشاعرہ کی خوبصورتی اس کا بر وقت آغاز تھا ۔
مشاعرہ کی صدارت مشہور شاعر انور شعور کو سونپی گئی ۔ جنہوں نے بزرگ شاعر جناب پروفیسر عنایت علیخاں کے تشریف لانے پر ان سے صدارت کی گزارش کی جسے حاضرین نے بہت سراہا ۔ مشاعرہ کا آغاز تلاوت قرآن سے کیا گیا جس کے بعد شاعر نور الدین نور نے ہدیہ نعت پیش کیا ،مشاعرہ کی نظامت کے فرائض بالترتیب خالد میر اور سلمان صدیقی نے ادا کیے ۔ جناب خالدمیر نے بزم کے صدر طارق جمیل کو اسٹیج پر مدعو کرنے کے بعد تمام شعراء کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی ۔ جناب پروفیسر عنایت علی خان اور جناب انور شعور کے علاوہ جن شعراء نے شرکت فرمائی ان میں جناب تاجدار عادل ، امریکہ سے آئے ہوئے شاعر جناب رفیع الدین راز ، جناب لیاقت علی عاصم، کینیڈا سے تشریف لانے والی شاعر محترمہ ذکیہ غزل، جناب فیروز ناطق خسرو ڈاکٹر عنبرین حسب عنبر ،جناب قیصر وحدی ، جناب وقار زیدی ، جناب علائوالدین خانزادہ ہمدم،جناب شبیر نازش ،محترمہ سحر علی ، محترمہ تبسم صدیقی ، جناب رانا خالد قیصر ،جناب طاہر حسین،نوجوان شاعر عبدالرحمن مومن ، جناب اقبال برما،محترمہ عائشہ یحییٰ اور محترمہ حمیرا گل تشنہ شامل ہے ۔
تمام شعراء نے اپنے خوبصورت کلام سے شرکاء مشاعرہ کے دل موہ لیے اور دل کھول کر داد دی ۔
صدر مشاعرہ نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہر قائد میں مشاعروں کی روایت مستحکم ہو رہی ہے اور نوجوانوں میں بھی ادبی لگائو پیدا ہو رہا ہے یقیناً یہ ہمارے معاشرے کے لیے بہت اہم اور ضروری جز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ادبی تنظیموںمیںنوجوانوں کی شمولیت باعث فخر ہے کیونکہ نوجوان ہی معاشرے کو آگے لے کر چلتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سخنوروں کا شہر ہے اور اس ہر نے عالمی سطح کی ادبی شخصیات کو جنم دیا ہے کراچی کو دوبارہ اپنا مقام حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس سے قبل مشہور شاعر انور شعور نے کہا کہ بزم شعر و سخن کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اتنی دلفریب و دلنشین محفل کو سجایا اور پورے شہر کے لوگوں کو یہاں جمع کیا ۔ بزم کے صدر طارق جمیل نے کہاکہ بزم شعر و سخن ادبی تقریبات مزید بڑے پیمانے پر منعقد کرنے کی کوشش کر رہی ہے مشاعرے کے آرگنائزر عبید ہاشمی نے کہا کہ کراچی میں خزاں کا موسم گزر چکا ہے اب بہار آنے کو ہے شہر کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں ہمارے پاس ایک موقع ہے کہ ہم مثبت سرگرمیوں کے ذریعے اپنے نوجوانوں کی تربیت کر سکیں ۔
بزم شعر و سخن کے مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ سماعت سے محروم بچے بھی شریک اور ان کو اساتذہ نے اشاروں کی زبان میں شعراء کا کلام سمجھایا ۔ مشاعرے میںہر شعبہ ہائے زندگی کی اہم شخصیات نے شرکت کی جبکہ خواتین اوربچے بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے ۔
مشاعرہ کے اختتام پر شعراء کی خدمت میں تحائف پیش کیے گئے۔ قریباً نصف شب تک جاری رہنے والا یہ مشاعرہ اپنی خوبصورت اور حسین یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ۔
مشاعرہ میں شریک شعراء کے کلام سے منتخب اشعار

انور شعور:

یہ زندگی جو بے ثمرہ ثبات ہے
اس کائنات میں میری کل کائنات ہے
تنہائی میرا ساتھ نہیں چھوڑتی کہیں
یہ نیک بخت میری شریک حیات ہے

تاجدار عادل :

مجنوں کی کہانی میں کون شامل تھا
مجھے تو بارہا خود پر گمان اس کا تھا

رفیع الدین راز:

میں خوش یقین ہوا دل کے ٹوٹ جانے سے
عطاء ہوئی ہے یہ دولت فریب کھانے سے

فیرو ناطق خسرو:

میں نے جس ہاتھ کو بیٹے پہ اٹھایا تھا کبھی
خود کو پوتے پہ وہی ہاتھ اٹھانے نہ دیا

عنبرین حسیب عنبر:

مکان بیچ دیے ہیں ،مکین بیچ دیے
ضرورتوں نے تو دنیا و دین بیچ دیے

وقارزیدی:

بخیلی کی ادائوں میں بھی حد درجہ سخاوت ہے
اگر ملنے پہ آ جائیں تو ہم سے کم نہیں ملتے

علائو الدین خانزادہ

یہ میرا شہر میری نسل لوٹنے والو
پتا ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے

سحر علی:

فقط اتنا کہا تھا نا ہمیں تم سے محبت ہے
ہماری جان لو گے کیا ذرا سی بات کے پیچھے

خالد میر:

رشک آتا ہے پتھروں پہ مجھے
کس قدر بے نیاز ہوتے ہیں

سلمان صدیقی:

تری تلاش کے رستے میں ایک ڈر یہ ہے
کہ مجھ کو تجھ سا کہیں کوئی دوسرا نہ مل جائے

پروفیسر طاہر حسین

سلسلے یہ عجیب ہوتے ہیں
کب کسی کو نصیب ہوتے ہیں

شبیر نازش:

ہائے وہ وقت کہ جب تک نہ میسر ہو گے
ہائے وہ وقت گزارے سے کہاں جاتے ہیں

رانا خالد قیصر:

نظارہ پیش کرنے کو فلک پر اک ہلال آیا
کسی نے لی تھی انگڑائی غزل کہنی پڑی مجھ کو

عبدالرحمن مومن:

یہ مشکلات بھی اب میرے ساتھ رہتی ہیں
یہ جانتی ہیں کہ مشکل کشا ہے میرے ساتھ

عائشہ یحییٰ:

ورثہ ہے یہ پرکھوں کا امانت ہے کسی کی
اردو کی روایت کہیں گمنام نہ ہو جائے

حمیرا گل تشنہ

کسی تاریک سی شب کے کسی بے خود سے لمحے میں
میں جب خاموش ہوتی ہوں خدائی بات کرتی ہے

حصہ