مزیدار ٹفن

467

تبسم ناز
آج شام سے ہی احمد بہت ناراض تھا، اسکول سے آتے ہی کپڑے بدلے اور کھانا کھائے بغیر ہی سوگیا امی نے یہ ساری چیزیں نوٹ کرلیں تھیں لیکن وہ احمد کو سب کے سامنے کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی۔ جب شام کو احمد سوکر اٹھا تو امی نے احمد سے کہا بیٹا احمد چلو عصر کی نماز پڑھ لو، احمد نے امی کی طرف دیکھا اور خاموشی سے وضو کرنے چلا گیا۔ وضوکرکے اس نے نماز پڑھی اور منہ لٹکائے دادی کے تخت پر آکر بیٹھ گیا دادی مسکرائیں اور کہا کیا ہوا پیارے احمد کیوں اداس ہو، احمد نے دادی کی مسکراہٹ دیکھ کر ان سے اپنا مسئلہ شیئر کرنے کا فیصلہ کیا اور دل میں سوچا کہ شاید دادی ہی کچھ کر سکتیں ہیں۔ دیکھیں ناں دادی مامامجھے روزانہ گھر کا لنچ بناکر دیتی ہیں حالانکہ بچے طرح طرح کے لنچ لاتے ہیں کوئی پاپڑ کوئی پیزہ کوئی کیک طرح طرح کے بسکٹس، ٹافیاں۔ دادی مجھے کوئی نہیں دیتا کیونکہ میں کبھی ڈبل روٹی ، جیلی ، کبھی انڈا ڈبلو روٹی کبھی مایونیز ڈبل روٹی ، سموسے جو مجھے پسند بھی نہیں ہیں۔ بس میں اب کل سے لنچ نہیں لے کر جاؤں گا اور مس کہتی ہیں آدھا لنچ ضرور کھاناہوگا۔ میں کروں دادی میں نہیں کھا سکتا۔ دادی نے احمد کا مسئلہ بغور سنا اور احمد کو کہا چلو ٹھیک کل سے تمہارے لیے میں اچھا سا لنچ منگواؤں گی ابھی بابا کو فون کرکے کہوں گی کہ احمد کو طرح طرح کے پاپڑلاکر دو۔ دادی نے امی کو آواز دی اور کہا کہ احمد کو آئندہ سے باہر کا ٹفن دینا وہ بڑا خوش ہوا۔
احمد 6سال کا بچہ تھا اور پہلی جماعت میں پڑھتاتھا اب تو احمد کے مزے آگئے روزانہ فرمائش پروگرام چلنے لگا کبھی کوئی بسکٹ کبھی کوئی پاپڑ۔ اب احمد اسکول سے آنے کے بعد کافی تھکا تھکا رہنے لگا آہستہ آہستہ اس نے دوپہر کا کھانا کم کردیا۔ ایک دن اس کے پیٹ میں درد ہوا۔ اس کی تکلیف بڑھ جانے کی وجہ سے اسکول سے فون آگیا۔ امی نے دادی کو بتایا اور احمد کو اسکول لینے چلی گئیں۔ جب امی گھر آئیں تو احمد درد سے نڈھال تھا امی نے اسے ڈاکٹر کو بھی دکھادیاتھا ۔ انہوں نے احمد کو تھوڑا کھانا کھلا کر دوادی اور سلادیا۔ پھر وہ دادی کے پاس آئیں اور بتایا ڈاکٹر نے بتایا کہ احمد کی آنتوں میں انفیکشن ہوگیا ہے اسے نرم اور پتلی غذا دینی ہوگی۔
شام میں احمد دادی کے پاس لیٹا ہوا تھا ۔ دادی نے احمد کو تبایا کہ احمد اب آج سے پہلے اس طرح کبھی بیمار ہوئے تھے ؟احمد نے بڑی کمزوری سے کہا نہیں دادی۔ دادی نے کہا کیا آپ کو پتا ہے آپ کے پیٹ میں درد کیوں ہورہاہے ؟ نہیں دادی مجھے نہیں پتا۔ میں پہلے کبھی بھی ایسے بیمار نہیں ہوا۔ دادی نے پیارسے احمد کے سرپر پاتھ پھیرا اور کہا پہلے آپ ہمیشہ گھر کا بناہوا لنچ اور کھانا کھاتے تھے۔ جیسے آپ لوگ Healthy Foodکہتے ہیں جس سے آپ کا جسم تندرست رہتا ہے امی ہمیشہ آپ کے جسم کے ضرورت کے مطابق ٹفن دیتی تھیں اس لیے آپ کبھی بیمار نہیں ہوئے تھے ، سردیاں ہوئیں تو انڈے ابال کر دیے یا ایسی غذا دی جس سے آپ کو سردی کی شدت سے کوئی نقصان نہ ہو۔ لیکن آپ کی فرمائش ہی پر ہم نے آپ کو بازار کا لنچ دینا شروع کیا اب دیکھا ان ساری چیزوں کا نقصان ۔ یہ تمام چیزیں غیر معیاری ہوتی ہیں گندگی اور جراثیم سے بھری ہوئی جو ہمیں نقصان دیتیں ہیں ۔ جی دادی اب میں سمجھ گیا یہ گندی چیزیں ہیں اور اب میں کبھی ایسی چیزیں نہیں کھاؤں گا اور امی ابو کو بھی منع کردوں گا کہ آئندہ مجھے بازار کی گندی چیزیں نہیں کھانی بلکہ امی کے ہاتھ کا مزیدار لنچ ہی چاہیے۔

بارش کا پہلا قطرہ
اسماعیل میرٹھی

گھنگھور گھٹا تلی کھڑی تھی
پر بوند ابھی نہیں پڑی تھی
ہر قطرے کے دل میں تھا یہ خطرہ
ناچیز ہوں میں غریب قطرہ
تر مجھ سے کسی کا لب نہ ہو گا
میں اور کی گوں نہ آپ جوگا
کیا کھیت کی میں بجھائوں گا پیاس
اپنا ہی کروں گا ستیاناس
آتی ہے برسنے سے مجھے شرم
مٹی پتھر تمام ہیں گرم
خالی ہاتھوں سے کیا سخاوت
پھیکی باتوں میں کیا حلاوت
کس برتے پہ میں کروں دلیری
میں کون ہوں کیا بساط میری
ہر قطرے کے دل میں تھا یہی غم
سرگوشیاں ہو رہی تھیں باہم
کھچڑی سی گھٹا میں پک رہی تھی
کچھ کچھ بجلی چمک رہی تھی
اک قطرہ کہ تھا بڑا دلاور
ہمت کے محیط کا شناور
فیاض و جواد و نیک نیت
بھڑکی اس کی رگ حمیت
بولا للکار کر کہ آئو
میرے پیچھے قدم بڑھائو
کر گزرو جو ہو سکے کچھ احسان
ڈالو مردہ زمین میں جان
یارو! یہ ہچر مچر کہاں تک
اپنی سی کرو بنے جہاں تک
مل کر جو کرو گے جاں فشانی
میدان پہ پھیر دو گے پانی
کہتا ہوں یہ سب سے برملا میں
آتے ہو تو آئو لو چلا میں
یہ کہہ کے وہ ہو گیا روانہ
’’دشوار ہے جی پہ کھیل جانا‘‘
ہر چند کہ تھا وہ بے بضاعت
کی اس نے مگر بڑی شجاعت
دیکھی جرأت جو اس سخی کی
دو چار نے اور پیروی کی
پھر ایک کے بعد ایک لپکا
قطرہ قطرہ زمیں پہ ٹپکا
آخر قطروں کا بندھ گیا تار
بارش لگی ہونے موسلا دھار
پانی پانی ہوا بیاباں
سیراب ہوئے چمن خیاباں
تھی قحط سے پائمال خلقت
اس مینھ سے ہوئی نہال خلقت
جرأت قطرے کی کر گئی کام
باقی ہے جہاں میں آج تک نام
اے صاحبو! قوم کی خبر لو
قطروں کا سا اتفاق کر لو
قطروں ہی سے ہو گی نہر جاری
چل نکلیں گی کشتیاں تمھاری

حصہ