سورہ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ از تفہیم القرآن 44 واں حصہ

1963

 مہر الدین افضل

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

(تفصیلات کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف آیات 138 تا 147 اور حاشیہ نمبر :98 : 99 : 100 : 102 :104 : 105)
اب جو آپ پڑھیں گے یہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا وہ حصہ ہے جس میں اُنہیں عروج حاصل نہیں ہوا تھا‘ ابھی صرف غلامی سے نجات ملی تھی۔ اس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ غلامی میں گرفتار رہنے والی قوم کو آزادی کے بعد بھی کتنی مدت غلامانہ ذہنیت سے آزاد ہونے میں لگتی ہے۔ اگر کوئی قوم کسی دوسری قوم پر حملہ آور ہو اور وہ لڑ جھگڑ کر حملہ آور قوم کو بھگانے میں کامیاب ہوجائے تو اس دفاعی قوم کی نفسیات کچھ اور ہو گی… لیکن اگر کوئی قوم اپنا دفاع نہ کر سکے اور غلام بنا لی جائے اور یہ غلامی نسلوں تک چلے‘ تو اس کے اثرات اس کی رگ رگ میں سما جاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ غالب قوم کے طور طریقوں ہی نے اسے طاقت اور عروج بخشا ہے اور ہمارے بڑوں نے جو شکست کھائی، تو وہ ان کے خیالات اور نظریات کی شکست تھی۔ اس طرح غالب قوم کے ظاہری رسم و رواج اور طرز زندگی ہی اُس کی نظروں میں بہترین ہوتے ہیں، خوش نما لگتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں فرعون کے غرق ہونے کے بعد واپس مصر نہیں بھیجا کہ وہاں جاکر یہ وہی رنگ ڈھنگ اختیا کرتے… اور بس حکمراں طبقے کی تبدیلی ہوجاتی، باقی سب ویسا ہی رہتا لیکن اللہ کو ان سے دنیا کی امامت کا کام لینا تھا جس کے لیے انہیں تربیت کے کئی مراحل سے گزارا گیا۔ غور کیجیے! بنی اسرائیل نے ابھی اللہ کی مدد سے دریا پار کیا ہے… تھوڑی ہی دور گئے ہیں کہ ایک قوم کو بتوں کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا اور چونکہ یہ اپنے سابق آقاؤں کو اسی طرح پوجا کرتے دیکھتے تھے تو خود بھی بے تاب ہوگئے اور موسیٰؑ سے کہا کہ ’’اے موسیٰؑ !ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے اِن لوگوں کے معبود ہیں۔‘‘ موسیٰؑ نے ان سے کہا کہ ’’تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو۔ یہ لوگ جس طریقے کی پیروی کر رہے ہیں وہ تو برباد ہونے والا ہے(ابھی تو تم نے فرعونیوں کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے) اور جو عمل وہ کر رہے ہیں وہ سراسر باطل ہے‘‘ اور انہیں سمجھاتے ہوئے سوال کرتے ہیں ’’کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں؟ دنیا میں قومیں اور بھی ہیں لیکن اللہ نے تمہیں تمام قوموں پر فضیلت بخشی ہے۔ اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے فرعون والوں سے تمہیں نجات دی جو تمہیں سخت عذاب میں مبتلا رکھتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔‘‘ تم نے صبر کیا اس آزمائش میں پورے اترے… اب نادانی کی باتیں نہ کرو اور حق کے خلاف کوئی خیال دل میں نہ لائو۔ اُدھر موسیٰؑ ان کی تربیت کر رہے تھے‘ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو سینا پہاڑ پر طلب کیا تاکہ موسیٰؑ فطرت سے قریب ہو ں… تنہائی میں دل و دماغ کو یک سو کر کے غور و فکر کریں… ایک حکومت وہ تھی جو انہوں نے فرعون کے گھر میں رہ کر دیکھی تھی جس میں ظلم، جبر اور ناانصافی تھی… لیکن اب جو حکومت اور ذمے داری ملنے والی تھی اُس کے لیے خواہشات نفس پر کنٹرول ضروری تھا اس لیے حکم ہوا کہ یہاں رہ کر روزے رکھیں اور دن رات عبادت میں گزار کر اپنے آپ کو اس بھاری ذمے داری کے لیے تیار کریں… اس قیام کے لیے پہلے تیس دن مقرر کیے گئے تھے پھر دس دن کا اضافہ کیا گیا… اس طرح موسیٰؑ وہا ں چالیس دن رہے۔ واپسی پر انہیں بنی اسرائیل کے لیے شریعت عطا فرمائی گئی‘ اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہِ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰؑ نے چلّہ کیا تھا۔ اس کے قریب مسلمانوں کی ایک مسجد اور عیسائیوں کا ایک گرِجا موجود ہے اور پہاڑ کے دامن میں رومی قیصر جسٹنین کے زمانے کی ایک خانقاہ آج تک موجود ہے۔
سینا پہاڑ پر جاتے ہوئے آپ حضرت ہارونؑ کو اپنا جانشین مقرر کر کے گئے اور ان سے کہا کہ ’’میرے پیچھے تم میرے قوم میں میری جانشینی کرنا اور ٹھیک کام کرتے رہنا اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہ چلنا۔‘‘حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰؑ سے تین سال بڑے تھے لیکن کارِ نبوّت میں حضرت موسیٰؑ کے ماتحت اور مددگار تھے۔ ان کی نبوت مستقل نہ تھی بلکہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے ان کو اپنے وزیر کی حیثیت سے مانگا تھا جیسا کہ سورۂ طہٰ میں وضاحت سے بیان ہوا ہے۔
جب حضرت موسیٰؑ مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچے اور اللہ سے کلام کیا تو التجا کی کہ ’’اے رب! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں۔‘‘ فرمایا ’’ تُومجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تُو مجھے دیکھ سکے گا۔‘‘ چنانچہ اُس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلّی کی تو اُسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰؑ غش کھا کر گِر پڑا۔ جب ہوش آیا تو بولا ’’پاک ہے تیری ذات، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں۔‘‘ فرمایا ’’اے موسیٰؑ! میں نے تمام لوگوں پر ترجیح دے کر تجھے منتخب کیا کہ میری پیغمبری کرے اور مجھ سے ہم کلام ہو، پس جو کچھ میں تجھے دوں اُسے لے اور شکر بجا لا۔‘‘ ہمارے لیے پیغام یہ ہے جو صلاحیتیں اور منصب و مقام اللہ نے دیا ہے‘ یعنی اپنی پلیسمنٹ پر اللہ کا شکر ادا کریں اور بہتر پرفارم کرنے کی کوشش کریں اس سے بڑھ کر منصب اور مقام حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش نہ کریں۔ واپسی پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو ہر شعبۂٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دیں اور کہا ’’اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں۔ یعنی احکامِ الہٰی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل ِعام (common sense ) سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو۔ یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی اینچ پینچ اور حیلوں کے راستے اور فتنوں کی گنجائشیں نکالتے ہیں، کہیں ان کی موشگافیوں کو کتابِ اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے اور کہا عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا… میں اپنی نشانیوں سے اُن لوگوں کی نگاہیں پھیر دوں گا جو بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں… یعنی میرا قانونِ فطرت یہی ہے کہ ایسے لوگ کسی عبرت ناک چیز سے عبرت اور کسی سبق آموز شے سے سبق حاصل نہیں کر سکتے۔ ’’بڑا بننا‘‘یا ’’تکب کرنا‘‘ قرآن مجید اس معنی میں استعمال کرتا ہے کہ بندہ اپنے آپ کو بندگی کے مقام سے بالا تر سمجھنے لگے اور خدا کے احکام کی کچھ پروا نہ کرے اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرے گویا کہ وہ نہ خدا کا بندہ ہے اور نہ خدا اس کا رب ہے۔ اس خود سری کی کوئی حقیقت ایک پندار غلط کے سوا نہیں ہے کیونکہ خدا کی زمین میں رہتے ہوئے ایک بندے کو کسی طرح یہ حق پہنچتا ہی نہیں کہ غیر بندہ بن کر رہے۔ اسی لیے فرمایا کہ ’’وہ بغیر کسی حق کے زمین میں بڑے بنتے ہیں۔‘‘ اور ان لوگوں کے بارے میں بتایا کہ ’’وہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں کبھی اس پر ایمان نہ لائیں گے اگر سیدھا راستہ اُن کے سامنے آئے تو اسے اختیار نہ کریں گے اور اگر ٹیڑھا راستہ نظر آئے تو اس پر چل پڑیں گے۔۔۔اس لیے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلا یا اور ان سے بے پروائی کرتے رہے… ہماری نشانیوں کو جس کسی نے جھٹلا یا اور آخرت کی پیشی کا اِنکار کیا اُس کے سارے اعمال ضائع ہوگئے۔ کیا لوگ اِس کے سِوا کچھ اور جزا پا سکتے ہیں کہ جیسا کریں ویسا بھریں؟ ‘‘ اعمال ضائع ہوگئے، یعنی پھل نہ لا سکے‘ فائدہ نہ پنہچا سکے اور لاحاصل نکلے۔ اس لیے کہ خدا کے ہاں انسانی کوشش اور عمل کے پھل لانے اور فائدہ مند ہونے کا انحصار دو چیزوں پر ہے ایک یہ کہ وہ کوشش اور عمل خدا کے قانونِ شرعی کی پابندی میں ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کوشش اور عمل میں دنیا کے بجائے آخرت کی کامیابی پیش نظر ہو۔ یہ دو شرطیں جہاں پوری نہ ہوں گی وہاں لازماً اعمال ضا ئع ہوں گے۔ ظاہر سی بات ہے جس نے خدا سے ہدایت لیے بغیر‘ بلکہ اُس سے منہ موڑ کر باغیانہ انداز پر دنیا میں کام کیا‘ وہ خدا سے کسی اجر کی توقع رکھنے کا کس طرح حقدار ہو سکتا ہے؟ اور جس نے سب کچھ دنیا ہی کے لیے کیا اور آخرت کے لیے کچھ نہ کیا کھلی بات ہے کہ آخرت میں اسے کوئی پھل پانے کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے۔ اگر آپ کی زمین کو کوئی شخص آپ کی مرضی کے خلاف استعمال کرے تو وہ آپ سے سزا پانے کے سوا آخر اور کیا پا سکتا ہے؟ اور اگر اس زمین پر اپنے غاصبانہ قبضے کے زمانہ میں اس نے سارا کام خود ہی اس ارادہ کے ساتھ کیا ہو کہ جب تک آپ اس کی حرکتوں کو نظر انداز کر تے رہیں، اسی وقت تک وہ اس سے فائدہ اُٹھائے گا اور جب آپ قبضہ واپس لے لیں تو وہ خود بھی کسیِ فائدے کی امید نہیں رکھتا توآخر کیا وجہ ہے کہ آپ اس غاصب سے اپنی زمین واپس لینے کے بعد زمین کی پیداوار میں سے کوئی حصّہ اسے دیں؟
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین۔ وآخر دعوانا ان لحمد ﷲ رب العالمین۔

حصہ