معروف صحافی ، ادیبہ اور کالم نگار حمیرا اطہر سے ملاقات

496

کسی بھی دور میں اور کسی بھی ملک میں ہمیشہ سب اچھا نہیں لکھا جاتا

گفتگو ۔ ۔ ۔ انٹرویو: عارف رمضان جتوئی

گود سے گور تک انسان بس سیکھتا ہی ہے۔ سیکھنے کا یہ عمل انسان میں تب تک رہتا ہے جب تک وہ خود کو مکمل ہونے کے گمان میں مبتلا نہ کردے۔ جس دن کوئی یہ سوچ لیتا ہے کہ اسے اب کچھ نہیں سیکھنا، وہ سب کچھ جان گیا، اسی دن سے پستیوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور یہ گمان ہی انسان کے جاہل ہونے کے لیے کافی ہے۔ اب اسے پڑھا لکھا جاہل کہا جائے یا کم عقل۔
کائنات میں ہر ایک موڑ پر سیکھنے کو ملتا ہے مگر اس کے لیے سب سے اہم ہوتا ہے سیکھنے والا دل اور دماغ۔ اگر دل ودماغ روشن ہوگا تو یقیناً انسان کی فہم کا دروازہ بھی اسی قدر کھلا ہوا ہوگا۔ اسے ہر ذرّے میں حکمت ِخداوندی نظر آئے گی۔ اسے ہر چیز سکھائے گی۔ یہ بات اہم ہے کہ جو جس قدر سوچتا اور سیکھتا ہے، اسے وہ نعمت اسی قدر ملتی چلی جاتی ہے۔ سیکھنے کی یہ جستجو ہی ہمیں حمیرا اطہر آپا کے پاس لے گئی۔
حمیرا آپا کا علم وادب سے ایسا تعلق ہے کہ انھیں ادب وراثت میں ملا ہے اور گھُٹی میں بھی شامل ہے۔ انھیں بچوں سے بڑوں تک، سب ہی یکساں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ادبی دنیا میں انھوں نے تب قدم رکھا جب وہ خود بھی طفل ِ مکتب تھیں۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی طفل مکتب ہیں۔ ان کی پہلی کہانی اس وقت شائع ہوئی جب وہ آٹھویں کلاس میں تھیں۔ اس کہانی کوخصوصی انعام بھی ملا تھا۔
حمیرا آپا وہ پہلی پاکستانی صحافی خاتون ہیں جنھوں نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے تین ایوارڈز حاصل کیے۔ حمیرا آپا نے بچپن ہی سے لکھنا شروع کیا۔ ابتدا میں انھیں اس پر ابا سے سخت ڈانٹ بھی پڑی۔ پڑھائی پر توجہ دینے کی ہدایت کے باوجود شوق نے انھیں ’’ح۔ اطہر‘‘ کے قلمی نام سے لکھنے پر مجبور کیا۔
حمیرا آپا بتاتی ہیں کہ ’’ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن میرے والد اطہر نادرؔ نے جو شاعر بھی تھے، خاندان کی مخالفت کے باوجود مجھے اسکول میں داخل کرادیا۔ لیکن میٹرک کے بعد انھوں نے بھی ہمت ہار دی اور کہا کہ مَیں خاندان والوں کی مزید باتیں نہیں سن سکتا۔ تب میری امی نے میرا بھرپور ساتھ دیا کہ جب اسے پڑھنے کا شوق ہے، نتیجہ بھی اچھا آتا ہے۔ اخبارات میں کہانیاں بھی لکھنے لگی ہے تو محض خاندان والوں کی باتوں کی وجہ سے اس کی صلاحیتوں کو کیوں ضائع کیا جائے۔ قصہ مختصر۔۔۔۔۔ پھر پانچ روز کی بھوک ہڑتال اور رونے دھونے کے بعد بالآخر وہ مان گئے اور ہم نے ان کی خواہش پر ڈاکٹر بننے کے لیے ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا۔‘‘
حمیرا اطہر کے کالموں کا ایک مجموعہ ’’بات سے بات‘‘ 2007 ء میں شائع ہوا ہے۔ جس پر اکیڈمی آف لیٹرز (سندھ ریجن) نے ’’بہترین فکاہی ادب‘‘ کا ایوارڈ بھی دیا۔ اس کے علاوہ ’’بابری مسجد‘‘ کے بارے میں بھی پاکستان میں پہلی تحقیقی کتاب لکھی جو 1991ء میں شائع ہوئی، اب کچھ اضافوں کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن آنے والا ہے۔ ان کے شوہر رشید بٹ بھی معروف صحافی ہیں جو فری لانس صحافت کے ساتھ ترجمے اور پرنٹنگ کا کام کرتے ہیں۔ انھوں نے کم وبیش سولہ برس چین میں گزارے جہاں ’’اردو اشاعت گھر‘‘ میں چینی ادب، بچوں کی کہانیوں اور دیگر کتابوں کے ترجمے کرتے رہے۔
حمیرا آپا بنیادی طور پر فیچر نگار، انٹرویوکار، کالم نگار اور میگزین رپورٹر ہیں۔ ابتدائی ادوار میں ہفت روزہ ’’اخبار خواتین‘‘ اور مختلف اخبارات میں بطور سب ایڈیٹر اور پیج انچارج خدمات سرانجام دیں۔ بچوں کے ادب میں بھی اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔ اس وقت بھی خانیوال سے نکلنے والے بچوں کے ماہ نامے ’’بچوں کا گلستان‘‘ میں بطور معاون ِ خاص اور لاہور کے ماہ نامے ’’بچوں کا اشتیاق‘‘ کی مجلس مشاورت میں شامل ہیں۔
انٹر سائنس میں سیکنڈ ڈویژن آنے کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ملا، چناںچہ ڈویژن بہتر کرنے کے لیے بی ایس سی میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں بی ایس سی کے بعد بھی میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا کرتا تھا لیکن شاید قدرت کو ان کا ڈاکٹر بننا منظور نہ تھا۔ سائنس کی پڑھائی کے ساتھ کالج میں ہم نصابی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ سرسّیدکالج کے سالانہ مجلے ’’سحر‘‘ کی چار سال تک مدیرہ رہیں، ساتھ ساتھ مختلف اخبارات کے لیے بھی لکھتی رہیں۔ کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں آگے آگے رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اتنی شدید بیمار ہوگئیں کہ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق سائنس چھوڑ کے بی اے میں داخلہ لینا پڑا۔ انھوں نے کہا:
’’میرے والدین کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ ذہین اور محنتی طالبہ ہونے کی بِناء پر اگر دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں ذرا سی احتیاط برتتی تو یقیناً ڈاکٹر بن سکتی تھی۔ میں زولوجی اور باٹنی کے جرنل اتنے اچھے بناتی تھی کہ کالج والوں نے سالانہ امتحانات کے بعد واپس نہیں کیے اور آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرلیے۔ میری امی کہتی تھیں، ’’میری بیٹی مینڈک اتنا اچھا بناتی ہے کہ لگتا ہے، ابھی جرنل سے اچھل کے باہر آ جائے گا۔‘‘
صحافی کیسے بن گئیں؟ کے سوال پر حمیرا آپا کا کہنا تھا کہ ’’میں نے بی اے کے بعد کالج کی پرنسپل محترمہ آمنہ کمال مینائی سے پوچھا، اب میں کیا کروں؟ کیوںکہ مجھے بی اے کرانے میں ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ان کا بڑا ہاتھ تھا، تو انھوں نے کہا کہ ’’تم صحافت میں ایم اے کرو اور صحافی بنو۔‘‘ یہی مشورہ مجلہ ’’سحر‘‘ کی انچارج پرفیسر حُسن بانو قزلباش نے بھی دیا تھا۔ پس میں نے ان دونوں کے مشوروں پر عمل کرلیا۔‘‘
حمیرا آپا نے عملی صحافت کا آغاز ’’روزنامہ اعلان‘‘ سے کیا پھر ’’روزنامہ انجام‘‘ ، نیوز ایجنسی ’’پی پی آئی‘‘ ، ہفت روزہ ’’اتحاد‘‘ اور ’’اخبارخواتین‘‘ میں باقاعدہ ملازمت کی۔ اس کے علاوہ روزنامہ جنگ، حریت، مساوات، مشرق اور ایکسپریس میں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر لکھتی رہیں۔ دوماہی فوڈ میگزین ’’دسترخوان‘‘ کی بانی ایڈیٹر اور روزنامہ ایکسپریس کے بچوں کے صفحے ’’کرنیں‘‘ اور ’’تعلیم وصحت‘‘ کے لیے بطور انچارج بھی طویل عرصے تک کام کیا۔ روزنامہ ’’جناح‘‘ کے ہفتہ وار میگزین ’’کراچی رنگ‘‘ کی انچارج بھی رہ چکی ہیں۔
حمیرا اطہر آپا نے ملاقات کے دوران بتایا کہ انٹرویو کرنا اور ادبی شخصیات سے ملنا ان کا شوق تھا۔ ’’اخبار خواتین‘‘ کی ملازمت کے دوران میں بہت ساری ادبی شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے، جن میں شاذ تمکنت، ظ۔انصاری، غلام ربانی تاباں، کیفی اعظمی، سردار جعفری، اخترالایمان، جگن ناتھ آزاد، اوپندر ناتھ اشک، عصمت چغتائی، جمیلہ ہاشمی، جیلانی بانو، پنڈت گلزار دہلوی، سلمیٰ صدیقی، ڈاکٹر خلیق انجم، وسیم بریلوی، بشیر بدر، ممتاز مفتی، شوکت صدیقی، منیر نیازی اور مظہرالاسلام سرفہرست ہیں۔ انھوں نے بھارتی وزیراعظم مسزاندرا گاندھی کا انٹرویو بھی کیا جو اُن کے نزدیک مشکل بھی تھا لیکن وہ ان کی شخصیت سے متاثر بھی ہوئیں۔ اس کے لیے وہ 1980ء میں دہلی گئی تھیں۔ اس بارے میں انھوں نے بتایا، اندرا گاندھی سادگی پسند خاتون تھیں۔ ان کا آفس بہت سادہ اور شخصیت بہت پُروقار تھی۔ پاکستان میں اس وقت کے بھارتی قونصلر مانی شنکر آئیر کی مدد سے بہت مشکل سے 30منٹ کا وقت ملا، وہ بھی اس شرط پر کہ کوئی سیاسی سوال نہیں ہوگا۔ ہمارے درمیان پاک وہند کی خواتین کے بارے میں بہت سی باتیںہوئیں پھر میں نے اچانک ان سے کہا کہ آپ کا تعلق ایک بڑے سیاسی خاندان سے ہے اور ایک بہت بڑے جمہوری ملک کی سربراہ بھی ہیں۔ ایسے میں جب سیاست پہ کوئی بات نہیں ہوگی اور یہ انٹرویو پاکستان میں شائع ہوگا تو لوگ کیا تاثر قائم کریں گے؟ کہ یا تو اندرا گاندھی کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں یا پھر اس لڑکی کو کچھ پوچھنا نہیں آیا۔ تو آخر آپ کس کا امیج خراب کرنا چاہتی ہیں، اپنا یا میرا؟ اس سوال پر وہ مسکرائیں اور کہا، پوچھو۔۔۔۔ مگر صرف دو سوال۔ تو میں نے اس اجازت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی جنگ اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں دو سوالات کرلیے۔ اس میں مقررہ وقت سے دس منٹ زائد ہوگئے پھر جب میں نے چلتے ہوئے دس منٹ زائد دینے پر خصوصی شکریہ ادا کیا تو مسکراتے ہوئے بولیں، شکریے کی تو کوئی بات نہیں۔ بس ایک امریکی کو وقت دیا ہوا تھا، وہ دس منٹ لیٹ ہوگیا۔
حمیرا اطہر کے نزدیک کام یاب صحافی بننے کے لیے تین چیزیں لازمی ہیں۔
مطالعہ، اس سے آپ کو جملوں کی ساخت اور الفاظ کا ذخیرہ ملتا ہے۔ مشاہدہ، اس سے نت نئے موضوعات ملتے ہیں۔ اور مکالمہ، مطلب یہ کہ آپ کو گفتگو کرنے کا فن آنا چاہیے۔
فیچر کیا ہے، اسے لکھنے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے؟
اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا، فیچر کے لیے چند چیزیں لازمی ہیں۔
تحقیق، آپ جس بھی موضوع پر لکھیں، اس کے حوالے سے مکمل معلومات۔ مکمل حقائق، یعنی آپ جس موضوع پر فیچر لکھ رہے ہیں، اس کے بارے میں تمام حقائق پڑھنے والے تک پہنچائیں۔ موضوع کی اگر کوئی تاریخ ہے، کسی نام یا جگہ کا ذکر ہے تو اس کے بارے میں تفصیل بتائیں۔ اس کے علاوہ، آپ جس موضوع پر فیچر کر رہے ہیں، اگر اس کا عوام سے کوئی تعلق ہے تو ان کی رائے بھی ان کے اپنے الفاظ میں شامل کریں۔ اگر موضوع کی نوعیت ایسی ہے کہ اس کا تعلق کسی سرکاری ڈیپارٹمنٹ، کسی کمپنی یا سیاسی پارٹی سے ہے، تو اس کے کسی ذمے دار کی رائے بھی ضرور شامل کریں تاکہ پڑھنے والے کو تصویر کے دونوں رخ نظر آئیں۔ خیال رہے کہ فیچر میں آپ کی اپنی ذاتی رائے کم سے کم ہو۔ فیچر کو سیدھے سادے انداز میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا، کوشش کریں کہ فیچر کا آغاز کسی متعلقہ شخص کی رائے سے ہو۔کیوںکہ اگر شروع ہی میں آپ خشک حقائق ڈال دیں گے تو پڑھنے والا دل چسپی نہیں لے گا۔ ایک اچھے فیچر کی پہلی خوبی اس کا عام فہم اور دل چسپ ہونا ہے۔ اس کا انحصار فیچر کے اسلوب، بے ساختگی اور شستہ زبان پر ہے۔ عمومی طور پر فیچر نگار کی شخصیت متوازن اور اعتدال پسند ہونی چاہیے۔ اسے قومی اور ملکی تقاضوں کا شعور ہو۔ انٹرویو کے فن سے واقفیت رکھتا ہو، تخلیقی صلاحیت کا حامل اور حالات سے باخبر ہو، انسانی نفسیات کا کچھ مطالعہ بھی رکھتا ہو۔
کسی صحافی کے لیے انٹرویو لینے کے متعلق کچھ اہم باتیں؟
اس بارے میں ان کا جواب تھا: سب سے پہلا نکتہ تو یہ کہ سامنے والی شخصیت کتنی ہی اہم اور قدآور کیوں نہ ہو، اس کے رعب میں نہ آئے اور دماغ کو ہمیشہ حاضر رکھے۔ دوسری بات یہ کہ انٹرویوکار کو مذکورہ شخصیت کے کام، فن، نظریات اور اس کی سوانح کا بھرپور علم ہونا چاہیے۔ ایسے مکالمے کیے جائیں جن سے انٹرویو دینے والی شخصیت کے نفس اور ذہن کی وہ پرتیں بھی کھل جائیں جو عموماً سوانح اور خودنوشت سے بھی نہیں کھل پاتیں۔ اس کا قاری لفظوں کے ذریعے اس شخصیت کی فکر، فن اور نظریات کے ساتھ اس کے مزاج سے بھی مکمل آگاہی حاصل کرسکے۔ انٹرویوکار کو شخصیت کا جواب تحمل سے سننا چاہیے، دخل درمعقولات سے عموماً اچھا اور مکمل جواب نہیں ملتا۔ کوئی ضمنی سوال ذہن میں آ بھی جائے تو اسے جواب مکمل ہونے کے بعد ہی کرنا بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ کسی بھی انٹرویو کو قلم بند کرتے ہوئے زبان وبیان کے لحاظ سے بہت زیادہ بوجھل نہیں بنانا چاہیے۔ اس کا معیار ضرور اونچا ہو لیکن فصاحت وبلاغت ایک حد تک ہی رہے تو بہتر ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ زیادہ تر بات چیت اسی شخصیت کے الفاظ میں لکھی جائے جس سے گفتگو کی گئی ہو۔
جو کچھ لکھا جارہا ہے، کیا وہ سب اچھا ہے؟ معیاری اور غیرمعیاری کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا؟
گفتگو سمیٹتے ہوئے میں نے سوال کیا تو جواب ملا، کسی بھی دَور میں اور کسی بھی ملک میں ہمیشہ سب اچھا نہیں لکھا جاتا۔ نہ ہی ایک بہت اچھا لکھاری یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس کی تمام تحریریں اعلیٰ پائے کی ہیں۔ اس کا فیصلہ سب سے پہلے تو اس کے قارئین کرتے ہیں پھر وقت کرتا ہے۔

حصہ