قصور کس کا ہے ؟؟ ۔ ۔ ۔ کہانی ایک عورت کی

1356
افروز عنایت

یہ معاشرے کی ایک حقیقی کہانی ہے جو میں نے قارئین سے شیئر کی۔ اس عمر میں بچوں کے لیے خصوصاً بیٹیوں کے لیے ماں کی بڑی اہمیت ہے جو بیٹی کے لیے ایک اچھی دوست ہوتی ہے۔ عالیہ کی یہ بدنصیبی تھی کہ وہ وقت جو وہ ماں کے سائے میں بسر کرکے تربیت حاصل کرتی، تنہائی کی نذر ہوگیا۔ سونے پہ سہاگہ والد کی شکی مزاج طبیعت کی وجہ سے سخت پہرے نے اس کے ذہن کو باغی کردیا تھا۔ پیار و محبت کی ترسی وہ لڑکی جھوٹی محبت میں گرفتار ہوکر گوہر نایاب سے بھی محروم ہوگئی۔ وہ شادی کے بعد خود ملازمت کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے پر مجبور تھی۔ اللہ رب العزت والدین کو سمجھ بوجھ عطا کرے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت و نگہبانی میں میانہ روی کو مدنظر رکھیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ’’ماں کی گود ہی اولاد کی پہلی درس گاہ ہے‘‘۔

ابھی صائمہ پہلی منزل کی ہی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی تھی کہ ایک آواز نے اُسے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس کے دائیں طرف دو اپارٹمنٹ تھے، دونوں کے دروازے بند تھے، بلکہ ایک دروازے پر تو معمول کے مطابق تالا لگا تھا۔ اُس نے اپنا سر جھٹک کر سوچا، ہوسکتا ہے یہ اس کا وہم ہو۔ لیکن دوبارہ جب وہی آواز اُس کے کانوں میں پہنچی تو وہ ڈر گئی، لیکن دائیں جانب تالے والے گھر کی طرف سے دوبارہ کسی عورت نے کہا کہ ’’کیا آپ مجھے کسی سے دہی منگوا کر دے سکتی ہیں؟‘‘ اور کھڑکی سے ایک ہاتھ بھی باہر آیا۔ اس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے کھڑکی کے پٹ سے جھانکتے ہوئے ایک سانولی سی لڑکی کی جھلک نظر آئی تو وہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ تیزی سے اوپر چڑھ گئی۔ اپنے اپارٹمنٹ کا تالا کھول ہی رہی تھی کہ سامنے والی آنٹی اپنے دروازے سے باہر نکلیں، صائمہ نے تمام بات آنٹی کو بتائی تو وہ ہنس کر کہنے لگیں ’’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، وہ عالیہ ہوگی، مجھے بھی کچھ سامان خریدنا ہے، میں اس کے لیے بھی دہی لیتی آئوں گی، بیچاری پریشان ہورہی ہوگی۔‘‘
دو تین دن کے بعد آنٹی نے صائمہ کو بتایا: ’’یہ پہلی منزل پر جو بابا رہتے ہیں ان کی بیٹی ہے۔ ان کا ایک بیٹا بھی ہے۔ بڑے شکی مزاج قسم کے آدمی ہیں۔ اسی شک کی بناء پر روز بیوی سے لڑائی جھگڑا رہتا تھا، آخر اسی شک نے اس گھر کو تباہ کردیا۔ دونوں بچے ابھی چھوٹے تھے۔ بیوی طلاق لے کر دونوں بچوں کے ساتھ چلی گئی۔ اُس نے تو جاکر دوسری شادی کرلی لیکن یہ دونوں بہن بھائی باپ کی سختی کو جھیل رہے ہیں۔ جیسے تیسے کرکے اس (عالیہ) نے بی اے پاس کرلیا ہے، بیٹا اس سے بڑا ہے، وہ باپ کے ساتھ ہی صبح ملازمت پر چلا جاتا ہے، اور باپ اِسے تالا لگاکر گھر میں بند کرکے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار باپ کی موجودگی میں ماں بیٹے اور بیٹی سے فون پر بات کرلیتی ہے۔‘‘
اُس دن کے بعد اکثر عالیہ، صائمہ کو واپسی پر کھڑکی میں نظر آتی، سلام دعا کرتی، حال احوال دریافت کرتی اور اس کی ملازمت کے بارے میں پوچھتی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اسے کسی دوست کی تلاش ہو۔
کچھ عرصے بعد صائمہ کو ایک بڑی تبدیلی یہ نظر آئی کہ اب دروازے پر تالا نہیں لگا ہوتا تھا، نہ وہ لڑکی نظر آتی۔ صائمہ اپنی ملازمت اور بچوں کے امتحانات میں اس قدر مصروف ہوگئی کہ پڑوس میں رہنے والی اس لڑکی کا خیال ہی دل سے نکل گیا۔ ایک دن آنٹی نے اسے عالیہ کی شادی کا کارڈ (دعوت نامہ) دیا کہ عالیہ کے والد نے پڑوسیوں کے تمام کارڈ مجھے بانٹنے کو دیے ہیں۔ باتوں ہی باتوں میں آنٹی نے عالیہ کے بارے میں جو کچھ صائمہ کو معلومات فراہم کیں وہ افسوس ناک، حیرت ناک اور عبرت ناک تھیں۔
عالیہ کی پھوپھو جب امریکا سے ایک مہینے کے لیے آئیں تو اپنے بھائی پر بہت ناراض ہوئیں کہ تم نے لڑکی کو جانوروں کی طرح قید کررکھا ہے، اتنی کڑی نگرانی اور سختی کی وجہ سے وہ تم سے بدظن اور باغی ہوجائے گی۔ بہن کی باتوں کا یہ اثر ہوا کہ وہ تالا لگاکر گھر سے نہ نکلتا، لیکن اُسے سختی سے بالکونی میں جانے اور دروازہ کھولنے سے منع کردیا۔ عالیہ کے لیے اتنے عرصے کے بعد یہ آزادی رنگ لائی، اُس نے ٹیرس سے آس پاس تاک جھانک شروع کردی اور جلد ہی سامنے والی بلڈنگ میں کچھ اکیلے رہنے والے لڑکوں میں سے ایک سے اس کی دوستی ہوگئی۔ اس کے لیے یہ سب کچھ ایک ایڈونچر سے کم نہ تھا۔ اسے اپنی زندگی حسین لگنے لگی۔ دو تین مہینے تو بات صرف خط کتابت تک محدود رہی، لیکن اس لڑکے کی فرمائش کے آگے وہ ہار گئی اور اس کے اپارٹمنٹ میں بھی جانے لگی۔ ایک دن اتفاقاً آنٹی اور ایک پڑوسن کی نظر اس پر پڑی جب وہ سامنے والی بلڈنگ کی سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ پوچھنے پر گھبرا کر کہنے لگی کہ میں تیسری منزل والی باجی سے ملنے گئی تھی۔ دونوں کو اس کی حرکت مشکوک لگی۔ ایک دن جب وہ اس لڑکے کے دروازے پر دستک دے کر اندر جا رہی تھی، دونوں نے رنگے ہاتھوں اسے پکڑلیا۔ گھر کے اندر اُس وقت صرف وہ لڑکا ہی تھا۔ لڑکے کو تو دونوں خواتین نے ڈرا دھمکا کر کرائے کا وہ فلیٹ خالی کروالیا، اور لڑکی (عالیہ) سے اُس کی ماں کا نمبر لے کر اس کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ چند دنوں کے بعد عالیہ کی ماں آئی تو دونوں پڑوسنوں نے اس سے کہا کہ اس کا صرف یہی حل ہے کہ اس کی فوراً شادی کروا دو یا اسے اپنے ساتھ یہاں سے لے جائو۔ اس خاتون نے لے جانے سے معذرت کرلی کہ یہ میرے لیے ممکن نہیں۔ پھر تینوں خواتین نے اس کے رشتے کے لیے ہاتھ پائوں مارے۔ آخر اس کی ماں نے اپنے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے ایک جگہ اس کا رشتہ طے کردیا۔ باپ اور بھائی تمام صورتِ حال سے ناواقف تھے، انہیں صرف رشتے کے لیے کہا گیا۔ باپ کو بھی اس گٹھڑی کو کہیں نہ کہیں تو ٹھکانے لگانا تھا، اِس لیے اُس نے لڑکے کی نہ مالی حالت دیکھی اور نہ تعلیم… جبکہ وہ لڑکا کسی دکان پر سیلزمین تھا۔ غریب ماں کا بیٹا تھا، مشکل سے میٹرک تک تعلیم حاصل کر پایا تھا۔ ماں کا یہ کہنا بھی درست تھا کہ اب اس کو ’’لت‘‘ لگ چکی ہے، باپ کو اس کی حرکتوں کا پتا چلا تو اسے قتل کردے گا۔ لہٰذا اس غیر معیاری رشتے کو ہی غنیمت جانا گیا۔
یہ معاشرے کی ایک حقیقی کہانی ہے جو میں نے قارئین سے شیئر کی۔ اس عمر میں بچوں کے لیے خصوصاً بیٹیوں کے لیے ماں کی بڑی اہمیت ہے جو بیٹی کے لیے ایک اچھی دوست ہوتی ہے۔ عالیہ کی یہ بدنصیبی تھی کہ وہ وقت جو وہ ماں کے سائے میں بسر کرکے تربیت حاصل کرتی، تنہائی کی نذر ہوگیا۔ سونے پہ سہاگہ والد کی شکی مزاج طبیعت کی وجہ سے سخت پہرے نے اس کے ذہن کو باغی کردیا تھا۔ پیار و محبت کی ترسی وہ لڑکی جھوٹی محبت میں گرفتار ہوکر گوہر نایاب سے بھی محروم ہوگئی۔ وہ شادی کے بعد خود ملازمت کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے پر مجبور تھی۔ اللہ رب العزت والدین کو سمجھ بوجھ عطا کرے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت و نگہبانی میں میانہ روی کو مدنظر رکھیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ’’ماں کی گود ہی اولاد کی پہلی درس گاہ ہے‘‘۔

حصہ