اسوہ صحابیات ۔ ۔ ۔ ۔ ہر دور کے لئے قابل تقلید ۔(آخری حصہ) ۔

737

افشاں نوید

احسان ہے اُس ذات کا جس نے ہمیں اسلام کی نعمت سے بہرہ مند فرمایا۔ ہمیں اس خوش نصیب گروہ میں شامل فرمایا جس سے جنت کے وعدے ہیں۔ اور صرف آسمانوں کی جنتیں ہی مسلمان عورت کی منتظر نہیں ہیں، خود اس کا گھر اس روئے زمین پر مثلِ جنت ہے، کیوں کہ ایک مسلمان عورت حضرت فاطمہؓ کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے امورِ خانہ داری عین عبادت سمجھ کر انجام دیتی ہے۔ حقوق العباد بھی حقوق اللہ ہی ہیں، اس لیے کہ اللہ کے عائد کردہ ہیں۔
کتنی پیاری گواہی ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ’’گھر کے تمام کام کاج کھانا پکانا، چکی پیسنا، جھاڑو دینا وغیرہ… سب کام ہماری ماں خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں‘‘۔ روایت میں ہے کہ جب تک شوہر اور بچے کھانا نہ کھا لیتے، خود بھوکی رہتیں۔ بھوکی تو وہ نہ معلوم کتنے پہر رہی تھیں۔ چند روایات ہمیں پہنچتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مسجدِ نبوی میں تشریف لائیں، روٹی کا ایک ٹکڑا خدمتِ اقدس میں پیش کیا۔ فرمایا ’’بابا جان تھوڑے سے جَو میسر آئے تھے، پیس کر روٹی پکائی تو خیال آیا کہ آپؐ کے پاس بھی لے جائوں، نہ معلوم آپؐ کس حال میں ہوں۔ آج یہ روٹی تیسرے وقت ہمیں نصیب ہوئی ہے۔‘‘
روٹی تناول کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جانِ پدر تیرے باپ کو چار وقت کے بعد یہ لقمہ نصیب ہوا ہے‘‘۔ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ مجھے بطحاء کے پہاڑ سونے کے بناکر پیش کیے گئے تھے مگر میں نے دنیا کو ٹھکرا دیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے کردار کی عظمت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ گواہی کافی ہے کہ ’’فاطمہؓ دنیا کی بہترین عورتوں میں سے ہے۔‘‘
روایات ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ ؓ کے گھر میں اتنے دنوں سے فاقہ یا کئی دنوں بعد روٹی میسر آتی تھی تو آپؓ سائل کی آواز سن کر اُسے دے کر خود بھوکی رہتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو اپنی لختِ جگر کو بہترین اسبابِ زندگی مہیا کرسکتے تھے، لیکن آپؐ امت کے لیے یہ سبق چھوڑ کر گئے کہ یہ دنیا دھوکے کی جگہ ہے، اور لذتِ دنیا کا حصول ایک مسلمان کا مقصدِ حیات ہرگز نہیں ہوسکتا۔
وہ کیسا دل خراش منظر ہوگا کہ آپؐ کی لختِ جگر، نورِ نظر، جنت کی شہزادی سیدہ فاطمہ ؓ اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں، اس میں بھی تیرہ پیوند لگے ہیں۔ آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلام اللہ جاری وساری ہے۔ شفقتِ پدری سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’فاطمہ دنیا کی زندگی کا صبر سے خاتمہ کر، اور آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی خوشیوں کا انتظار کر، اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین جزا سے نوازے گا۔‘‘
ان روایات کو ہم اپنے لیے آئینہ سمجھیں کہ ہماری ساری کاوشیں جسم کے مطالبات کی تکمیل کے لیے ہیں۔ معاشرے میں شرف واکرام کا پیمانہ ہی معاشی خوش حالی قرار پاچکا ہے۔
صرف قناعت اور صبر ورضا ہی نہیں، سیدہ فاطمہؓ نے شرم وحیا کی وہ اعلیٰ اقدار قائم کیں کہ اس کی ایک جھلک ہی قلوب کو منور کردینے کے لیے کافی ہے، کہ ایک نابینا صحابی ابن مکتومؓ کے ہمراہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لاتے ہیں تو سیدہ انہیں دیکھ کر چھپ جاتی ہیں۔ ان کے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم استفسار کرتے ہیں کہ وہ تو نابینا تھے تم چھپ کیوں گئیں؟ فرماتی ہیں ’’اباجان! وہ اندھے تھے مگر میں تو اندھی نہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ سورۂ نور نے ’’غضّ بصر‘‘ کا حکم عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے دیا ہے۔ ایک مسلمان عورت جب حیاداری اختیار کرتی ہے، خود کو دوسروں کی نظروں سے محفوظ رکھتی ہے اور اپنی نظروں کی حفاظت کرتی ہے تو دراصل وہ ایک پاکیزہ سماج کی بنیاد رکھتی ہے۔
سیدہ فاطمہؓ بہت عابدہ، زاہدہ اور ذاکرہ خاتون ہونے کے باوجود امورِ خانہ داری کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھتی تھیں۔ آپؓ کی بحیثیت ’’ہائوس وائف‘‘ جو خدمات تھیں انہی کی بنا پر آپؓ جنت کی عورتوں کی سردار قرار پائیں۔ حضرت علیؓ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت فاطمہؓ کے لیے خدمت گار کا سوال کرتے ہیں تو اس کے باوجود کہ مالِ غنیمت میں غلام آئے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ ؓ کو تلقین کرتے ہیں کہ تم 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ اللہ اس تسبیح کی برکت سے تمہیں خانگی امور میں سہولت عطا فرمائیں گے۔ آج نماز کے بعد یہ مقبول ذکر جو ’’تسبیح فاطمہ‘‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے، پڑھتے ہوئے ہم میں سے کس کے یہ پیش نظر رہتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ذکر اپنی چہیتی نورِ نظر کو اس لیے سکھایا تھا کہ وہ اس سے مصائب وآلام میں قوت حاصل کریں۔ خانگی امور میں ذکرِ اللہ سے آسانی میسر آتی ہے۔ ہم شکووں اور شکایتوں کے ہجوم میں کب ذکرِ اللہ کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں؟ کب اس سے قوت حاصل کرتے ہیں…؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غلام کے تقاضے کے جواب میں ذکر کی تاکید کرتے ہیں تو بیٹی اور داماد کی پیشانی پر کوئی بل نہیں آتا کہ ذکر کیسے خدمت گار کا نعم البدل ہوسکتا ہے؟ اس لیے کہ جن حقیقتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت بھی اسی علم وعرفان سے آشنا تھے۔
اقبال کہتے ہیں:
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
جس رسولؐ کی قوم خاص ہے، اس کے اہلِ بیت یقینا خاص الخاص تھے، روشن چراغ اور نمونۂ عمل تھے۔ صرف اُس معاشرے کے لیے نہیں بلکہ ہر دور اور ہر زمانے کے لیے۔ اگر ہم ابدی جنت کے خواہش مند ہیں تو اپنے کردار کو کچھ تو ان عظیم ہستیوں کے کردار کے قریب لانے کی کوشش کریں، کہ زندگی کو منور کرنے والے راستے صرف یہی ہیں۔ خاتونِ خانہ ہونا عورت کے کردار کا کوئی جزو نہیں، بلکہ اس کا حقیقی کردار یہی ہے۔ باقی سب ’’سماجی خدمات‘‘ اس کے ذیل میں آتی ہیں۔

وہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہؓ و فاطمہؓ کے نقشِ قدم

(روایات ماخوذ از طبقات ابن سعد)

حصہ