زندگی کیا ہے؟؟

332

قاضی مظہرالدین طارق

زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی؟
انسان اب تک نہیں جان سکا،بلکہ یہ بھی نہ جان سکا کہ کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی؟
اللہ خالق اور ربِّ کائنات نے قرآن میں پندرہ سو سال پہلے کہا تھاکہ ، ’’معلوم کرو کہ میں نے تخلیق کی ابتداء کیسے کی؟
پھر تم کو یقین آجائے گا کہ میں اس کو دوبارہ بھی بنا سکتا ہوں‘‘۔
یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ ، ’’عنقریب میںتم کو اس کی نشانیاں آسمانوں میں اور تمہارے اپنے اندرواضح کردوں گا،پھر تم کو حق پر یقین آجائے گا‘‘۔
مگربقول اسٹیفن ہاکنگ کے، ’’ہم صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ اس کا ارتقاء کیسے ہوا‘‘۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ زندگی درحقیقت ہے کیا ؟اس کا ایک تو بہت ہی آسان جواب ہے،چہکنے والی چڑیا زندہ ہے اور پڑی رہنے والی چٹان زندہ نہیں۔
اکثر سائنسدان متفق ہیں کہ جو شئے زندہ ہے وہ یہ کام کرسکتی ہے:وہ حجم میں بڑی یا پیچیدہ ہوتی جاتی ہے؛یہ اپنے جیسے پیدا کرتی ہے؛زندہ رہنے کے لئے کھاتی پیتی ہے؛فاضل مادّوں کو جسم سے خارج کرتی ہے؛اورباہر کے ماحول کا اثر لیتی ہے،جیسے گرمی سردی،دباؤ اور دھوپ روشنی وغیرہ۔
اب دیکھتے ہیں کہ زندگی کی کتنی قسمیں ہیں؟حیاتیات کے علم والے پہلے اس بنیاد پر اس کو تقسیم کرتے ہیں کہ یہ توانائی کیسے حاصل کرتی ہے۔ان کی دوبنیادی اقسام ہیں:
۱۔الجی،سبزپودے اور کچھ بیکٹیریا ؛سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔
۲۔ ہم انسان،جانور،فنگی اور کچھ آرکِیہ کیمیائی مادّوں سے توانائی حاصل کرتے ہیں،ہمارا نظامِ ہضم کیمیائی طریقہ سے غذا کو ایندھن میں تبدیل کرتا ہے۔
زمین،پانی اور ہوا میں یہ حیات تو پائی ہی جاتی ہے، مگرزندگی ایسی ایسی جگہ بھی ملتی جس جگہ ہم عام طور پرزندگی کا تصوربھی نہیں کرسکتے ہیں جیسے سمندر کی انتہائی گہرائیوں میں، زمین کی چٹانوں میںسطح سے میلوں نیچے، ٹھوس برف کے اندر اور دوسرے انتہائی گرم،سرد،سخت دبائو والے، روشنی یا آکسیجن سے ناپید خطّوںمیں بھی زندگی پائی جاتی ہے اور پھل پھول رہی ہے ۔یہ براہِ راست اپنے اطراف پائے جانے والے کیمیائی مادّوں سے توانائی حاصل کرتے ہیں،یہاں بہت مختلف اور عجیب و غریب قسم کی مخلوقات ہیں،ایسی جگہ بھی اللہ خیرالرَّازق اِن کے لئے رزق کا انتظام کرتا ہے،کیوںکہ وہ ربُّ العٰلمین ہے۔
حیات کیسے کام کرتی ہے؟اس کو سمجھنے کے لئے ہم کوسادہ ترین بکٹیرئم کا مطالعہ کرنے سے مددمل سکتی ہے۔
ایک اکیلا سادہ جراثیم اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ایک نکتے میں کم از کم پانچ سو سما سکتے ہیں۔ہم اِن کو سادہ ترین مخلوق کی حیثیت سے جانتے ہیں،نہ اِن کے چلنے پھرنے کے کوئی اعضاء ہوتے ہیں،نہ پتّے نہ پھل ،نہ ہی پھیپھڑا،جگر،دل یا دماغ ہوتا ہے۔اس سب کے باوجود یہ: کھاتے پیتے ہیں،فاضل فضلے باہر نکالتے ہیں،نشونما پاتے ہیں، اپنی نسل بڑھاتے ہیں اورایک جرثومے سے بڑھ کر ایک لمبی زنجیر بناتے ہیں۔پھربھی یہ زندہ ہیں، جیسے ہم زندہ ہیں۔
ایک بڑا سوال ہے کہ وہ چیز کیاہے جو زندہ رکھتی ہے؟یہ اور بھی دشوار معاملہ ہو جاتا ہے جب سائنسدان ’وائرس‘ کو دیکھتے ہیں،وہ ’وائرس‘جوبیماریوں کا باعث بنتے ہیں،جیسے نزلہ،چیچک وغیرہ۔
وائرس کا جسم مکمل خَلیہ نہیں ہے،اس لئے ان میں خوداپنے بل پر کیمیائی مادّوں کو توانائی میں تبدیل کرنے اور نسل بڑھانے کی صلاحیت نہیں ہے،جس کے لئے یہ مجبور ہوتے ہیں کہ کسی زندہ خَلیہ میں داخل ہوکرہی یہ کام کریں ۔
یہ بیکٹیریاسے بھی سو گنا چھوٹے ہوتے ہیں،ان کو دیکھنے کے واسطے، بہت بڑا کرکے دیکھانے والے قوی ’مائیکروسکوپ‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔
زمین پر حیات کو حیاتیاتی سائنسدان،ان کے دائرۂ اثر کے لحاظ سے تین قلمرووں میں تقسیم کرتے ہیں۔
پہلا؛بیکٹیرِیہ۔ دوسرا؛آرکِیہ۔تیسرا؛یوکارِیہ۔
’بیکٹیرِیہ‘ اور’ آرکِیہ‘ کے مرکزے(نیوکلائی) نہیں ہوتے،مگر یہ ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہوتے ہیںکہ الگ الگ قلمرو ہیں۔جبکہ ’یوکارِیہ‘ میں مرکزے پائے جاتے ہیں۔ان میں’ سنگل سیلیولر‘ بھی ہیں اور ہم سمیت سب’ ملٹی سیلیولر‘حیات کی بنیادی اکائی(یونٹ) بھی۔
۱۔قلمرو ،بیکٹیرِیہ؛یہ واحد خَلوی ’مائیکروسکُپِک ‘حیات ہے،یہ دنیا میں ہر جگہ موجوداور بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے ، اِن کے مرکزے نہیں ہوتے۔ان کی اَشکال؛گیند نما،اسپرینگ نما اور چھڑی نما ہوتی ہیں۔ان میں انسان کو فائدہ پہنچانے والے بھی ہیں اور نقصان بھی۔
۲۔قلمرو،آرکِیہ؛یہ بھی واحد خَلوِی’خُردبینی‘ حیات ہے،ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سخت ترین ماحول میں زندہ رہتی ہیں جہاں کوئی دوسری حیات زندہ نہیں رہ سکتی۔ ان کے بھی مرکزے نہیں ہوتے مگران کے کچھ ’جنوم‘(جینز) یوکارِیہ‘ سے بھی ملتے ہیں۔اس وجہ سے حیاتیاتی سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ آج بھی پائے جانے والے ’آرکِیہ‘زمین پر آنے والی قدیم حیات میں سے ایک ہے۔
۳۔قلمرو ،یوکارِیہ؛ان کے بہت مختلف ،متنوع اور متعد گروہ پائے جاتے ہیں۔یہ بیکٹیرِیہ اور آرکِیہ کی نسبت نہایت پیچیدہ ہوتے ہیں۔اِن ننھے خَلیوں سے مل کر ہم سمیت سب جانداروں کے اجسام بنتے ہیں۔یہ چار گروپس میں تقسم کیئے جاتے ہیں،یہ۱۔ پروٹِس ٹِس،۲۔فنجی،۳۔نباتی اور۴۔ حیوانی۔
۱۔’پروٹِس ٹِس‘ کی ڈائی لاکھ نسلیں(سپیشیز) ہیں۔اِن کے متعد اور متنوع گروہ ’سنگل سَلیولر‘ اور’ ملٹی سَلیولر‘ حیات میں موجود ہیں۔
۲۔’فنجی‘ کی ایک لاکھ نسلیں(سپیشیز) ہیں۔جواکثر’ ملٹی سَلیولر‘ہوتے ہیں،یہ بھی حیوان کی طرح اپنی غذاخود نہیں تیار کر سکتے ہیں۔مشروم،پھپوندی اور خمیر(ییسٹ) اس کی نمایاں نسلیں ہیں۔
۳۔’نباتی‘ کی تقریباً تین لاکھ نسلیں (سپیشیز)ہیں۔جو اکثر’ ملٹی سَلیولر‘ ہوتے ہیں،یہ ’فوٹوسنتھی سس‘ کے ذریعہ اپنی غذا خود بناتیں ہیں۔
۴۔’حیوانی‘کی دس لاکھ نسلیں(سپیشیز)ہیں۔زیادہ تر جاندارجو ’ملٹی سَلیولر‘ ہو تے ہیںاور ان کے اپنے نظامِ اعضاء ہوتے ہیں،یہ بھی اپنی غذا خود نہیں تیّار کر سکتے ۔
توجہ فرمائیے!خالقِ اَرض و سما نے صرف زمین پرکتنی متعدد،متنوع اور مختلف اقسام کی نسلیں(سپیشیز) پیدا کیں ہیں ان سب کو ایک دوسرے کابہترین رزق بھی بنایا ہے، لیکن ایسے نَپے تُلے حساب کتاب سے کہ نہ کھانے والے بھوک مرتے ہیں(اِلّا بِمَاشَاء) نہ کھائے جانے والوں کی نسل ختم ہوتی ہے۔
سوچیئے !ایسا باریک بین اورکسی عیب اور غَلَطی سے پاک حساب کتاب’اللہ ّ سُبحٰنہٗ تعالیٰ‘ کے سوا کون کرسکتا ہے……؟
nn

حصہ