سازش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیل کی کہانی

212

قدسیہ ملک

امریکی مصنف اور شہری آزادیوں کے پُرجوش پرچارک فریڈرک ڈگلس نے کہا تھا کہ جہاں ناانصافی ہو، غربت ہو، جہالت کا راج ہو، جہاں کوئی ایک طبقہ یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو کہ سماج ایک منظم سازش ہے، جس کا مقصد انہیں لوٹنا، ان کو دبانا اور ان کی رسوائی کرنا ہے، وہاں کوئی انسان، کوئی جائداد محفوظ نہیں ہوتی۔
پاکستانی آن لائن میگزین ’’ہم سب‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف بیس فیصد لوگ دنیا کی کُل دولت کے تیسرے حصے کے مالک ہیں، اور دنیا کی چالیس فیصد آبادی کے پاس اس دولت کا صرف پانچ فیصد حصہ ہے۔ دنیا میں ہزاروں بچے روزانہ غربت کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ تیسری دنیا میں تقریباً تیس فیصد بچے کم خوراکی اور بیماری کا شکار ہیں۔ خواندگی کے حوالے سے صورتِ حال اور بھی مایوس کن ہے۔
دنیا میں ایک بلین لوگ ایسے ہیں جو دستخط نہیں کرسکتے، یا کتاب نہیں پڑھ سکتے۔ صحت کی بنیادی سہولیات سے محرومی بھی ہماری اس دنیا کا ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ دنیا میں چالیس ملین لوگ ایڈز جیسے مہلک مرض کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف سال 2017ء میں ایڈز اور اس سے جڑی ہوئی دیگر بیماریوں سے ایک ملین لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ ان میں سے اکثریت غریب لوگوں کی ہے۔ یہ لوگ غریب ملکوں میں آباد ہیں۔ ایڈز کے علاج کی مہنگی ادویہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ہر سال تین سو سے پانچ سو ملین لوگ ہماری اس دنیا میں ملیریا کا شکار ہوتے ہیں۔ تیسری دنیا میں ایک بلین کے قریب لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ دو بلین کو صفائی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں۔
تیسری دنیا کی کُل آبادی کا نصف حصہ پینے کے صاف پانی اور صفائی کی بنیادی ضروریات سے محرومی کی وجہ سے کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ یہ محرومیوں، مصیبتوں اور ناانصافیوں کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ اس کی وجہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، غیر منصفانہ تقسیم اور غیر مساوی مواقع ہیں۔ دولت کی منصفانہ تقسیم اور سب کو مساوی مواقع کی فراہمی کے لیے عالمی سطح پر بنیادی تبدیلیوں اور انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مگر ایسا ہونے تک دنیا میں جو دولت غیر ضروری کاموں میں خرچ کی جاتی ہے، اگر اُس کا نصف بھی انسانی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے خرچ کیا جائے تو صورتِ حال میں خاطر خواہ تبدیلی آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر دنیا میں جتنا پیسہ صرف اسلحہ پر خرچ کیا جاتا ہے، اگر اس کا ایک فیصد ہی تعلیم پر خرچ کیا جائے تو ہماری اس دنیا کا ہر بچہ اسکول جا سکتا ہے۔ ایک طیارے پر جتنا خرچہ آتا ہے، اس سے ایک یونیورسٹی تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اس تناسب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر اس دولت کا حساب لگایا جائے، جو جنگی ساز و سامان اور تیر و تفنگ خریدنے پر خرچ کی جاتی ہے، تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
انسان مایوس اُس وقت ہوتا ہے جب اپنے ہی جیسے کچھ انسانوں کو اپنے اوپر مسلط اور ہر غلط صحیح کا مالک بنتے دیکھتا ہے۔ مایوسی کفر ہے، اسی سے گناہوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
معاشرے کی مجموعی بھلائی اور بہتری کے لیے لازم ہے کہ انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کی بھلائی، بہتری اور استحکام پر بھرپور توجہ دی جائے۔ خاندانی نظام کا محور بلاشبہ عورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں عورت کی اہمیت کو انسانی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ عورت کے حقوق اور اس کی بنیادی ضروریات تک کو نظرانداز کرنے کی روایات بھی معاشرے میں بہت قدیم ہیں۔ دوسری جانب خود عورت بھی اپنے حقوق کا مکمل اور مناسب شعور نہیں رکھتی، لہٰذا ضروری ہے کہ عورت کو اُس کے بنیادی حقوق سے آشنا کیا جائے۔ معاشرے کے ہرفرد کو اس کے احترام پر آمادہ کیا جائے۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ (WAT) کا قیام انسانی معاشرے کی حقیقی اور بنیادی ضرورت یعنی عورت کے حقوق اور مسائل کے ادراک اور ان کے حل کے ذریعے پورے انسانی معاشرے کی بھلائی کی ہمہ گیر جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں بھی اسلام کے فلسفۂ عدل کے مطابق عورتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا، ان کے حقوق و مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون ساز اداروں کی رہنمائی کرنا، نظام عدل و انصاف کو سہل الحصول، ارزاں اور عام آدمی کی دہلیز تک پہنچانے کی کوشش کرنا، ظلم و زیادتی کا شکار بے کس خواتین کی قانونی امداد کرنا شامل ہیں۔
ویمن ایڈ ٹرسٹ کی معاشرے میں خدمات درج ذیل ہیں:
1۔ قانونی و سماجی مشاورت کی فراہمی
2۔ عورتوں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے پراجیکٹ چلانا
3۔ خود کفالتی اسکیموں کاقیام
4۔ جیل میں قیدی خواتین کی فلاح و بہبود کے کام
5۔ عائلی مسائل و تنازعات کا تصفیہ
6۔ تحقیقی کام و اعداد و شمار کی تدوین،کتابچوں اور مضامین کی اشاعت
جیل میں قیدی خواتین کی فلاح و بہبود کے کاموں میں سرفہرست معصوم، مظلوم و بے کس خواتین کی قانونی امداد کو یقینی بنانا ہے۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تحت پاکستان کے تمام بڑے شہروں کی جیلوں میں خواتین قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ خواتین قیدیوں کی فلاح و بہبود کے اس پروگرام کا مقصد قیدیوں کی محض مادی و دنیاوی ضروریات کی تسکین نہیں بلکہ اس بات پر خصوصی توجہ مرکوز ہے کہ ان میں عزتِ نفس پیدا ہو اور وہ معاشرے کی ذمے دار اور کارآمد رکن اور اچھی مسلمان ثابت ہوں۔ اس سلسلے میں ملک کی تمام جیلوں میں قیدی خواتین کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے وکلا کے دوروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کے ذریعے قیدیوں کے طبی معائنے اور علاج کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ دستکاری اور فنی مہارت کی نشوونما کے لیے پیشہ ورانہ تربیتی پروگراموں کا اجراء کیا جاتا ہے۔ قیدی خواتین کے ہاتھوں تیار شدہ مختلف اشیاء معاشی فوائد کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے روزگار حاصل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ معاشرے میں ان عورتوں کی عزتِ نفس کی بحالی کے لیے منعقدہ خصوصی اصلاحی و تعلیمی پروگرام بہت کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ ان پروگراموں نے قیدی خواتین کی شخصیت اور طرزعمل میں نمایاں اور حوصلہ افزا تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ رمضان المبارک، عیدالفطر، عیدالاضحی اور میلاد النبیؐ جیسے خاص موقعوں پر خصوصی پروگرام جیل میں بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔
معمولی و ناگزیر تبدیلیوں کے بعد بیان کیے جانے والے جیل کے قصوں میں ہر عبرت پکڑنے والے کے لیے بہت سے پیغامات ہیں۔ جب پوری دنیا ساتھ چھوڑ جاتی ہے تب بھی اللہ کے کچھ بندے ان معصوم و بے بس قیدیوں کی امداد کو اپنے لیے نجاتِ اُخروی کا ذریعہ سمجھ کر ان قیدیوں کی معاونت کرتے ہیں، ایسے لوگ ہم سب کے لیے باعثِ فخر ہیں۔
کراچی جیل میں جابہ جا ایسے قصے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جو جیل انتظامیہ اور قیدی خواتین کے اصرار پر ہم اپنے قارئین سے بیان کرتے ہیں۔ ان قصے کہانیوں کا اصل مقصد صرف یہی ہے کہ یہ قیدی بھی ہم جیسے انسان ہیں، خدارا ان سے تعلق مت توڑئیے۔ ان کی ہر ممکن امداد کیجیے۔ انہیں اپنے ہی جیسا انسان سمجھیے۔ برا وقت آتے دیر نہیں لگتی۔ اللہ ہم سب کو ناگہانی آفات سے محفوظ رکھے، آمین۔
کراچی جیل میں آنے والی اس مظلوم عورت کے لیے دل سے دعا کیجیے کہ اللہ اس کو اس کے بچوں سے جلد از جلد ملوا دے۔ اس کے بے حد اصرار اور لیڈی سپرنٹنڈنٹ شیبا کے کہنے پر ہم اس مظلوم عورت کی کہانی معمولی ردوبدل کے بعد شائع کررہے ہیں۔ امید ہے اس قصے میں بھی عبرت پکڑنے والوں کے لیے نشانیاں موجود ہوں گی۔ اپنی رائے کا اظہار کرکے ہمیں اپنے مفید مشوروں سے آگاہ کرتے رہیے گا۔
مہرالنساء اپنے پیار کرنے والے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار رہی تھی کہ اس پر یہ آفت ٹوٹ پڑی۔ اس کا شوہر ایک امیر کبیر کروڑپتی شخص تھا۔ بیوی سے بے پناہ محبت کے باعث اپنی تمام جائداد بیوی کے نام کررکھی تھی۔ اس کا ایک پارٹنر شہزاد تھا جو اس کا بہترین دوست بھی تھا۔ شہزاد یہ سب باتیں اچھی طرح جانتا تھا۔ مہرالنساء کے شوہر علی کا گاڑیوں کا اپنا ایک شو روم بھی تھا۔ علی کے گھر والے اس بات سے نالاں تھے کہ اس نے اپنی ساری جائداد مہرالنساء کے نام کیوں کردی۔ شہزاد ایک لالچی قسم کا انسان تھا، اس نے جائداد کے لالچ میں مہر سے دوستی کی پینگیں بڑھانی شروع کیں۔ مہر کی طرف سے پذیرائی نہ ملنے پر اس نے اپنے دوست کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ کرائے کے ایک قاتل کی مدد سے وہ علی کو قتل کرنے اور سسرال والوں کی گواہی سے مہر کو گرفتار کرانے اور جیل کی چکی پسوانے میں کامیاب تو ہوگیا، لیکن اب خود بھی اس قاتل کے ساتھ جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔ دونوں بچے سسرال والوں کے پاس ہیں۔ 6 سال سے قید مہر اپنے بچوں کو یاد کرکے بہت روتی ہیں۔ “WAT” کی جانب سے مہر کی قانونی امداد کی جارہی ہے، اور اسی کی جانب سے مہر کے بچوں کو جیل ہی میں اس سے ملوانے کا انتظام کیا گیا۔ مہر کمپیوٹر کورس بھی کرچکی۔ اتنی ساری جائداد ہونے کے باوجود وہ مضبوط اثر رسوخ نہ ہونے کے باعث اب تک جیل میں ہے۔ ویمن ایڈ ٹرسٹ کی جانب سے اس کی قانونی چارہ جوئی کی جارہی ہے۔ امید ہے جلد ہی مہر اپنے بچوں کے پاس واپس پلٹے گی۔ وہ اپنے شوہر کو یاد کرکرکے بہت روتی ہے۔
جیل میں مہر کی WAT کی جانب سے قرآن کے ذریعے کونسلنگ کی گئی۔ اسے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سنایا گیا۔ یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ آپؑ کا ذکر بائبل میں بھی ملتا ہے۔ آپؑ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپؑ کا تعلق نبیوں کے خاندان سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر سے ہی نبی ہونے کے آثار واضح ہونے لگے۔ آپؑ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کررہے ہیں۔ آپ کے والد یعقوب علیہ السلام نے آپؑ کو اپنا خواب کسی اور کو سنانے سے منع کیا۔ قرآن مجید کی ایک سورت ان کے نام پہ ہے۔ قرآن نے یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص کہا ہے۔ سورہ انعام اور سورہ غافر میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔ آپؑ نے 120 سال عمر پائی۔ نبی ہونے کے باوجود آپؑ پر اتنی آزمائشیں آئیں۔ ایسے اور بہت سے قصوں سے مظلوم قیدی خواتین کی کونسلنگ کرکے ان کو ذہنی پسماندگی سے نکال کر ایک کارآمد شہری بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

حصہ