علم والوں سے پوچھ لو۔ 2۔

448

سیدہ عنبرین عالم

آج کل عجیب و غریب قسم کے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ کہیں چھوٹی بچیاں اپنے ہی قریبی عزیزوں کے ہاتھوں پامال ہورہی ہیں، تو کہیں بڑی بچیوں کو جہیز کا لالچ دے کر بون میرو نکالا جارہا ہے۔ پولیس جو کبھی محافظ تھی، اب قاتل ہے۔ علماء اللہ کی تابعداری سکھانے کے بجائے غیر اللہ کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ حکمران اللہ کے خلیفہ ہونے کے بجائے امریکا اور اسرائیل کے تابعدار ہیں۔ اس تمام خرابی کا حل کیا ہے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ تعلیم تمام مسائل کا حل ہے۔ میں چند نام لیتی ہوں، بتایئے کہ یہ تعلیم یافتہ افراد مسائل کا حل ہیں یا خود مسئلہ ہیں: شوکت عزیز، پرویز ہود بھائی، ماروی سرمد، بلاول زرداری، مریم نواز، عمران خان وغیرہ۔
حضرت آدم علیہ السلام کو جب اللہ نے علم الاشیاء دیا تو یہ بھی کہہ دیا کہ میرے پیغمبر آئیں گے، ان کی بات مانو گے تو فلاح پائو گے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ علم کی دو اقسام ہیں، ایک وہ علم جو انسان اپنے حواسِ خمسہ کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں، گو کہ اس میں بھی ہم اتنے ہی راز کھول سکتے ہیں جتنے اللہ چاہے، اُس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے جو اللہ نے مقرر کررکھی ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جو سیدھا اللہ کی طرف سے کسی پیغمبر کے دل پر اترتا ہے۔ یہ علم بھی ہر دور کے مطابق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پیغمبر ذاتی طور پر کسی خاص چیز کے بارے میں حد سے زیادہ معلومات حاصل نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ سب سے بڑے اور آخری پیغمبرؐ بھی یہ کہہ کر چپ ہوجاتے ہیں کہ میں غیب نہیں جانتا۔ لہٰذا یہ بات متفق علیہ ہے کہ ہر علم کا منبع صرف اللہ ہے، تاہم علم اترنے کے بعد اکثر شیطان اس میں رخنہ بھی ڈال دیتا ہے اور مداخلت بھی کرتا ہے۔
مسئلہ وہاں سے پیدا ہوتا ہے جب انسانوں کا ایک گروہ صرف علم الاشیاء کو ہی تمام علم باور کرلیتا ہے، اور انسانوں کا دوسرا گروہ صرف پیغمبروں کے علم کو ہی زبانی کلامی دہرانے اور یاد رکھنے کو مکمل علم سمجھ لیتا ہے۔ پہلے گروہ کا ایک ضمنی طبقہ ہے، جس کا علم و عقل سے کوئی رابطہ نہیں۔ یعنی وہ اس طبعی علم سے صرف فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے حق میں تاویلیں دیتا رہتا ہے تاکہ اس کا فائدہ قائم رہے… دوسرے گروہ کا بھی ایک ضمنی طبقہ ہے، جس کو دینی علوم کا کچھ اتا پتا نہیں۔ وہ نہ کبھی قرآن پڑھتے ہیں، نہ احکامات اور ان کے نفاذ کے قائل ہیں… مگر حلیے، نعرے اور شعائرِ اسلام کی عبادت سے خود کو عالم اور تابعِ دین ثابت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ بھی زیادہ سے زیادہ فائدوں کے طالب ہیں۔ دونوں گروہوں میں اصل اور عملی علم والے انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں، جب کہ ضمنی طبقوں میں شامل افراد کی تعداد ناقابلِ شمار ہے۔ اس ضمنی طبقے نے دونوں گروہوں کی آپس کی دشمنی اس قدر بڑھا دی کہ طبعی علوم والے دینی علوم والوں کو جاہل تصور کرتے ہیں، اور دینی علوم والے طبعی علوم والوں کو پاگل گردانتے ہیں۔
علم اللہ کے پاس سے کیسے آتا ہے؟ … ہم علم صرف اُس چیز کو سمجھتے ہیں جسے حواسِ خمسہ سے محسوس کرسکیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ علم ایک ناقابلِ یقین منبع سے آتا ہے۔ ’’خیال‘‘… کبھی آپ نے سوچا خیال کیا ہے؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ بیٹھے بیٹھے مجھ پر اچانک سے غزل اترتی ہے، حرف بہ حرف لکھ لیتا ہوں، میرا کوئی کمال نہیں، لیکن لوگ میری تعریف کرتے ہیں… نیوٹن درخت کے نیچے بیٹھا وقت برباد کررہا ہے، اچانک اس کے اوپر سیب گرتا ہے، وہ سیب کھانے لگتا ہے کہ اسے خیال آتا ہے کہ یہ سیب نیچے کیوں گرا، اوپر کیوں نہیں گیا؟ یہ ایک خیال اسے تاریخ کا عظیم سائنس دان بنا گیا۔ ایک خیال حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آیا۔ جی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو… جو روز ہی سورج، چاند، ستاروں کو دیکھتے ہوں گے، مگر ایک دن ایسا خیال آیا کہ ان سب اجرام فلکی کو بنانے والے رب کی پہچان ہوگئی، ایک خیال انہیں پیغمبر بنا گیا۔
یہ ’’خیال‘‘ ہی ہے جو کسی کو شاعر، کسی کو سائنس دان، اور کسی کو پیغمبر بناتا ہے۔ یہ ’’خیال‘‘ ہے جو بل گیٹس جیسے کالج سے نکالے ہوئے طالب علم کو دنیا کا امیر ترین انسان بنا دیتا ہے۔ یہ ’’خیال‘‘ اللہ کی طرف سے آتے ہیں، اللہ جس کے دماغ میں جو چاہے خیال ڈالے، اور اسے عزت دار یا ذلیل کردے۔ ’’خیالات‘‘ شیطان کی طرف سے بھی ہوتے ہیں، چور کے دماغ میں چوری کے نئے نئے آئیڈیاز، سیاست دانوں کے دماغ میں بدمعاشی کے خیالات، اور ڈاکٹروں کے دماغ میں گردے اور بون میرو چرانے کے آئیڈیاز…
غلط اور اچھے خیالات ہر انسان کے ذہن میں آتے ہیں، یہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم کون سا ’’خیال‘‘ منتخب کرکے اس پر عمل کرتے ہیں۔ کوئی تیسری جگہ نہیں ہے جہاں سے خیال آسکے… اب جو علم ہمارے خیال کے ذریعے ہم پر اترتا ہے، اُسے کتابِ الٰہی کے ذریعے مفید اور کارآمد ثابت کرنا علم کی صحیح تشریح ہے، جیسے ایک سائنس دان پر بچے کے پیدا ہونے کے حوالے سے کوئی خیال اترتا ہے تو وہ قرآن کی آخری کی سورتوں کو پڑھے، سمجھے جو Embryology کے علوم سے بھری پڑی ہیں، اگر اس بات کو دوسری طرح پڑھیں تو دینی عالم کو قرآنی ایمبریولوجی میں اس قدر طاق ہونا چاہیے کہ وہ Embryology کے متعلق قرآنی علوم کا تمام خلاصہ سائنس دان کے سامنے پیش کرسکے، اس سے ایک طرف قرآن کی حقانیت ثابت ہوگی تو دوسری طرف اپنی تحقیق کے باوجود سائنس دان جن رازوںکو نہ پاسکا وہ اُسے بغیر محنت قرآن سے مل جائیں گے۔
مگر ہمارے سائنس دان جو اپنے فن میں طاق ہیں، امریکا اور یورپ کی لیبارٹریوں میں بیٹھے ہیں، دین اور علمِ الٰہی کے ہی منکر ہیں۔ نتیجتاً ایسی ایجادات ظہور میں آرہی ہیں جو خیر کے بجائے شر کا باعث بن رہی ہیں۔ دوسری جانب ہمارے علماء کا یہ حال ہے کہ ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں ہی مصروف ہیں، خود کو عالم کہتے ہیں اور قرآن میں موجود واضح احکام کے خلاف تعلیمات دیتے ہیں۔ اور کسی حکم کو تو چھوڑیے، اب تک شرک سے نجات نہ پاسکے۔
مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی علم شیطان کی دست برد سے محفوظ ہے تو وہ قرآن ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے لے رکھا ہے، گو کہ اس کی غلط صحیح تعبیریں ہوچکی ہیں مگر متن محفوظ ہونے کی وجہ سے ہم کسی بھی دور میں، اسی دور کے مطابق احکامات اور علوم حاصل کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ قرآن میں اپنی مرضی کا حکم تلاش کرنے کے بجائے قرآن کی مرضی کا حکم تلاش کرنے کی کوشش کریں اور عوام کو بھی قرآن کی ہر آیت کا اصل مقصد بتائیں۔ اگر آپ دین کے ٹھیکیدار بن ہی بیٹھے ہیں تو پھر عوام کی تمام بدعقیدگی، بدنیتی اور بداعمالی کا حساب بھی آپ کے کاندھوں پر ہے، آپ نے دین کو کھیل تماشا بنایا، یا صحیح سمت میں رہنمائی کی۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھ لو… آپ خود کو علم والا کہتے ہیں تو پوچھنے والوں کے لیے اللہ کی منشا تک رسائی آسان بنایئے۔
جب ایک طرف ہمارے تمام علما متحد اور مخلص ہوجائیں گے اور اسی بے لوثی سے اللہ کے دین کی ترویج کے لیے کام کریں گے، جو جذبہ میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرامؓ کا تھا تو 50 فیصد مسئلہ تو حل ہوگیا۔ یہ لوگ ان شاء اللہ لوگوں کے دلوں سے شیطان کو نکالنے اور اللہ کو داخل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ شرط صرف اخلاص کی ہے… آپس میں حسد اور فوائد کی جنگ سے بچنے کی ہے۔
دوسرے مرحلے پر آئیں گے وہ لوگ، جو دنیاوی علوم میں ماہر ہیں۔ اگر علما کی تزکیہ قلوب کی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں ان کی بھی شمعِ ایمان روشن ہوچکی تو اپنے علم کو قرآن کی روشنی میں جانچیں۔ یہی کتاب شیطان سے محفوظ ہے۔ جو علم اس کتاب سے ثابت ہے، وہ بھی بڑی حد تک شیطان سے محفوظ ہوگا۔ قرآن میں سائنس ہے، معیشت ہے، معاشرت ہے، ذاتی زندگی کے احکام اور خارجی تعلقات بھی سکھائے گئے، اور قرآن ہر دور میں نافذالعمل ہے۔ انسانی معاملات بھی وہیں کے وہیں ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی ضرور آگئی مگر انسان کا بنیادی مسئلہ آج بھی کھانا، پانی، چھت اور علاج ہے۔ آپ چاہے مریخ پر چلے جائیں، مگر اللہ روزِِقیامت یہی پوچھے گا کہ تیرا پڑوسی بھوکا تھا اور تُو مریخ پر جانے کی تیاری کررہا تھا۔ اس لیے قرآن کبھی آئوٹ آف ڈیٹ (Out of Date) نہیں ہوگا۔ آج کے ہر ماڈرن Gadget پر بھی قرآن نافذ ہوسکتا ہے۔ قرآن جھوٹ، بے حیائی اور بلا تصدیق خبر پھیلانے سے منع کرتا ہے۔ آپ یہ احکام میڈیا، انٹرنیٹ اور انٹرٹینمنٹ پر نافذ کیجیے، یہ جدید مصیبتیں رحمت نہ بن جائیں تو کہنا۔ قرآن ضرورت سے زیادہ دے دینے کو کہتا ہے۔ آپ اس حکم کو پکڑ لیں، آپ کو فریج کی ضرورت نہیں پڑے گی، کپڑوں کا جھنجھٹ ختم ہوجائے گا، کیونکہ اگر دس جوڑے بھی ہیں تو ضرورت سے زیادہ ہی ہیں، باورچی خانے میں کیڑے نہیں ہوں گے کیونکہ ضرورت سے زیادہ آپ رکھیں گے نہیں تو راشن میں کیڑے کیسے پڑیں گے! آپ کو میں ایک ہزار فوائد، ہر ایک قرآنی حکم کے بتا سکتی ہوں، بس ہم سوچ کر بیٹھ گئے ہیں کہ قرآن اور سنت آج کے دور میں کسی کام کے نہیں، اور ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔
جب دنیاوی علوم کا ہر ماہر قرآن کو لے کر چلے، دل میں خوفِ آخرت ہو اور عشقِ خداوندی ہو، تب ہی یہ تمام علوم خیر کا باعث بنیں گے۔ پھر دوبارہ عرض کردوں کہ دینی علوم بغیر دنیاوی علوم کے کسی کام کے نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ حرا میں زندگی گزارنے کا حکم نہیں فرمایا، آپؐ نے دلوں کی دنیا بدلنے کا ہنر سکھایا اور دنیا کا نظام بدلنے کا نمونہ پیش کیا جو دنیاوی علوم جانے بغیر ممکن نہیں۔ فرمایا: علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔ کافر قیدیوں سے ان کے تمام علوم اپنے صحابہ کرامؓ کو سکھوا دیا کرتے تھے۔ یہی علوم اصل امتحان ہیں کیونکہ ہمیں اللہ کی کائنات کو مسخر کرنا ہے، یہی میرے رب تعالیٰ کا حکم ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ علم حاصل کرنے سے ہمارے وطن کے حالات سدھریں گے، صحیح کہتے ہیں۔ مگرہم کو علم کی دونوں شاخوں پر توجہ دینی ہے، جس کا جس طرف رجحان ہو۔
ہر شخص ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
کوئی بھی پیشہ اپنائیں مگر دل ایمان سے بھرا ہو، اور ہر عمل قرآن کی عملی تفسیر ہو، اخلاص ہو۔ یہ اللہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس پر کیا خیال اتارکر، اس پر کیا ذمے داری ڈالنی ہے اور اس سے کیا کام لینا ہے۔ مگر آپ میں لبیک کہنے کی ہمت ہونی چاہیے۔ دینی علم بھی اللہ کی طرف سے ہے اور دنیاوی علم بھی اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کے راز کھولنے کے متعلق ہے، تاکہ ہم غوروفکر کریں اللہ کی نشانیوں میں، اور اس پاک ذات کا کھوج لگا لیں۔ اوّلین سائنس دان مسلم ہی ہوتے تھے۔ بغداد میں اس قدر تحقیقی کام ہورہے تھے کہ انکشافات اور ایجادات کی دنیا آباد تھی، مگر علما دست و گریباں… جب کہ اصول یہ ہے کہ علم کی یہ دونوں شاخیں غوروفکر کریں، اللہ رب العزت سے جڑی رہیں اور آپس میں دشمنی نہ ہو، ورنہ اقبال جاتا رہے گا (سورۃ انفال، آیت 46) اور اقبال چلا گیا…
مسلمان ہو تو سنت اپنا لو، قرآن اپنا لو، یہی ہے دین
مسخر کرو کائنات چاہے ساتھی ہو روس، یا چلو براستہ چین
علم کی حکومت ہے، تم علم حاصل کرو، چاہے جانا پڑے چین
وعدہ ہے رب کا، مومن کی جنت ہے، جنت براستہ چین

حصہ