جہان ادب ۔ ۔ ۔  غزلیں

291

انور شعورؔ

اس جہاں سے کہ کسی اور جہاں سے کی تھی
ابتدا ہم نے خدا جانے سے کہاں سے کی تھی
اُس نے مرضی سے پلائی تھی مئے زیست ہمیں
ہم نے درخواست کہاں پیرِ مغاں سے کی تھی
عقل گم ہے کہ ملی تھی وہ دلِ سادہ سے
یا ملاقات کسی فلسفہ داں سے کی تھی
قید میں ہونٹ بھی سلوا لیے اپنے ہم نے
بات کرنے کی جسارت نگراں سے کی تھی
عشق فرمانے کی نوبت نہیں آئی تاہم
دوستی ہم نے کئی ماہ وشاں سے کی تھی
یہ الگ بات کہ حاصل نہیں کر پائے اُسے
ہم نے اُس شخص کی خواہش دل و جاں سے کی تھی
تھی معانی سے معرّا تری تقریر شعورؔ
تُو نے پوری یہ کمی زورِ بیاں سے کی تھی

کوثر نقوی

ہوش ہوتا تو ہمیں کام یہ کر جانا تھا
زندہ رہنے کے لیے‘ آپ پہ مر جانا تھا
تو نے جو زخم دیا اُس کو تو اک عمر ہوئی
وقت مرہم ہے تو اب زخم کو بھر جانا تھا
وحشتِ عشق نہ جانے ہمیں لے آئی کدھر
کوئی بتلائے ہمیں ہم کو کدھر جانا تھا
تیرے کوچے سے پلٹنے کا قلق ہے ہم کو
خاک بن کر تیرے کوچے میں بکھر جانا تھا
ایسے عالم میں ہمیں ملتی بھی منزل کیونکر
ہم نے بس خواہشِ منزل کو سفر جانا تھا
یہ کہیں اُن کی ہی محفل تو نہیں ہے اے دل
ہم یہ کیوں بھول گئے لوٹ کے گھر جانا تھا
تو نے آنچل کو اٹھایا تو کھلا رازِ سحر
میں نے سورج کے ابھرنے کو سحر جانا تھا
ظرف میرا مرے ساقی نہ دیکھا کوثرؔ
ورنہ اب تک تو مرے جام کو بھر جانا تھا

روبینہ ممتاز روبی

کوئی اندر سے ہے کیا، کس کو پتا لگتا ہے
دیکھنے میں تو ہر اک شخص بھلا لگتا ہے
مال و دولت کے لیے خون بہا دیتے ہیں
آج تو زر ہی زمانے کا خدا لگتا ہے
جھوٹ بولوں تو زباں ساتھ نہیں دیتی ہے
سچ جو بولوں تو زمانے کو بُرا لگتا ہے
آج پھر خوف سے ہیں سہمے ہوئے برگِ چمن
آج پھر گل کوئی ٹہنی سے جدا لگتا ہے
پتّے پتّے پہ نظر آتا ہے عکسِ شبنم
آج پھر سارا چمن اشک نما لگتا ہے
اتنا آساں نہیں دنیا کو پرکھنا روبی
کھا کے ٹھوکر ہی حقیقت کا پتا لگتا ہے

حصہ