پھول سے بچے ۔ ۔ جو آپ کی مصروفیت سے زیادہ اہم ہیں

671

 ڈاکٹر عزیزہ انجم

پھول جو ابھی پورا کھِلا نہ ہو، شاخ پہ سجا، نئے موسموں کی ہوا سے ڈرا ڈرا… آنکھ کھولے تو کبھی چمکتی دھوپ سے خوف آئے، کبھی تیز چلتی ہوا کے قدم سانسیں روک دیں۔ اسی لیے تو پھولوں کے محافظ مالی صبح و شام پودے کا طواف کرتے ہیں، مٹی کی ڈھیریاں درست کرتے ہیں۔ یہ مہربان ہاتھ سوکھے پتوں کو ہٹاتے اور شاخ پہ کھلتی کلیوں اور پھولوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اور ذرا باغبان کی آنکھ چُوکی، نہ کلی سلامت رہتی، نہ پھول اصل شکل میں برقرار رہ پاتا ہے۔ بلاشبہ باغبان گرمی ہو یا سردی، صبح ہو یا شام، برسات ہو یا دھوپ… نئی پنیریاں لگاتا، نئے سر اٹھاتے پودوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ’’کہیں کوئی جانور نہ آجائے، کوئی شریف صفت، پھول نہ نوچ لے‘‘ ہر وقت یہی فکر کھائے جاتی ہے۔ پھولوں کی آبیاری مالی کی زندگی کا محور بن جاتی ہے، تب کہیں جاکر شاخ پر اِک تر و تازہ پھول لہراتا ہے۔ اسی طرح بچے بھی پھول جیسے نہیں بلکہ پھول ہی ہوتے ہیں۔ اپنے گھروں کے باغیچوں میں کھِلے نئی امنگوں، شوخیوں اور کھکھلاہٹوں بھرے… ان کا بچپن ہر فکر سے آزاد موج مستی کرتے، کھیلتے کودتے گھر کے آنگن، کمرے، برآمدے، محلے کی گلیوں، راستوں، اسکول، مدرسے میں بسر ہوجاتا ہے۔ یہ ننھے معصوم بچے ہر مہربان کو اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں، پیار بھرے لہجوں اور میٹھی باتوں کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اور اگر ان کے رکھوالے والدین ہوشیار نہ ہوں تو کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ پیش آسکتا ہے کہ شیطان ہمیشہ روپ بدل کر آتا ہے، ورغلاتا ہے، بہکاتا بھی ہے اور جنت کو دوزخ بنا دیتا ہے۔ اور یہ شیطان کہاں کہاں سے حملہ آور نہیں ہوتا، کس کس روپ میں نہیں آتا! کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی رشتے دار، کزن، دوست، مولوی، استاد، ٹیوٹر، دکان دار، ڈرائیور، چوکیدار، مالی اور گھر کا ملازم ہی شیطان کا آلہ کار بن جاتا ہے، اور جوں ہی موقع ملتا ہے، معصوم ڈرے سہمے بچوں کو نشانہ بنا لیتا ہے۔
معاشرہ مغرب کا ہو یا مشرق کا… واقعات کی شکلیں، وجوہ کم و بیش ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ بلاشبہ بچوں کی حفاظت، نگہداشت اور انہیں ناروا سلوک سے بچانا، گزرتے دنوں کے ساتھ ایک چیلنج بنتا جارہا ہے۔ اس سے کس طرح نمٹا جائے؟ یہ موجودہ دور کا ایک اہم سوال بن چکا ہے، جس کا جواب والدین کے لیے بھی ضروری ہے اور سماج کے ذمے داران کے لیے بھی۔ یاد رکھیے جب بچے ذرا بڑے ہونے لگیں تو انہیں اپنے ساتھ ہونے والے غلط اور نامناسب رویوں سے آگاہی دینا، ناخوشگوار رویوں پر ’’نہیں‘‘ کہنا سکھانے کا اعتماد فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی والدین کو خود بھی بچوں کے خوف زدہ رویوں پر اعتبار کرنا چاہیے۔ اگر بچہ کسی اَن جانے خوف میں مبتلا ہے، بے وجہ رو رہا ہے، کسی کے قریب جانے سے جھجک رہا ہے تو اس سے وجہ پوچھیں، کریدیں، اس کی بات اعتماد اور رازداری سے سنیں اور اس پر اعتماد کریں۔ بچپن ہی سے بچوں کو اجنبی سے دور رہنا اور مدد کے لیے پکارنا بھی لازماً سکھائیں۔ گھر میں آنے والے کسی فرد کو بچے سے زیادہ بے تکلف نہ ہونے دیں۔ غیر متعلقہ افراد کا بچوں سے میل جول ہرگز نہ ہونے دیں۔ ٹیوشن سینٹر، مدرسے میں اپنی نگرانی میں لے جائیں اور لائیں، اور بچوں کی جذباتی کیفیات سے آگاہ رہیں۔ بچوں کو وقت دیں اور ان کے ساتھ ساتھ رہیں، انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ انتہائی تعلیم یافتہ مائیں بھی بچوں کو ٹیوٹر اور قاری کے حوالے کرکے بے فکر ہوجاتی ہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ خود یا پھر اپنی نگرانی میں پڑھائیں۔ درحقیقت ماں باپ، نانا نانی، دادا دادی… ان تین قریبی رشتوں کے سوا کوئی نہیں جو بچے کا بہترین محافظ ہو۔ ذرا اور گہرائی میں جائیں تو صرف ماں ہی ہے جو بچے کی بہترین محافظ ہوسکتی ہے، چاہے وہ گھریلو خاتون ہو یا ملازمت پیشہ۔ کبھی کوئی بلی جھپٹا مارے تو مرغی کے بچے مرغی کے پَروں میں سماتے ہیں۔ بطخ کے بچے بطخ ہی کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ننھے بچوں کی بہترین تربیت کے لیے والدین خصوصاً ماں کو وقت دینا ہوگا، قربانی دینی ہوگی اور اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی، چوکنا رہنا ہوگا، جس کے لیے غیر ضروری مصروفیات، مشاغل اور تقریبات ترک کرنا ہوں گی۔ دور پرے کی رشتے داریاں، دوستیاں نبھانے میں بھی فوقیت بچے ہی کو دینا ہوگی۔
موجودہ دور میں زیادہ تر ماں اور باپ دونوں ہی ملازمت پیشہ ہیں، اس لیے بھی بچے کی حفاظت ایک گمبھیر مسئلہ بن چکا ہے۔ پھر جوائنٹ فیملی سسٹم بھی تقریباً دَم توڑ رہا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پہلے گھر کے بزرگ، بچوں کو اپنے ساتھ ساتھ لگا کر رکھتے تھے۔ اب وہ سلسلہ بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ نانیاں، دادیاں یا تو ہیں نہیں، یا ہیں تو ساتھ نہیں رہتیں، یا ان کی اپنی ہی مصروفیات ہیں۔ اس ضمن میں خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اکیلے رہنے کو ترجیح نہ دیں، گھر کے بڑوں کو اپنے ساتھ رکھیں، ان کے ساتھ رویوں اور تعلقات کو خوش گوار بنائیں اور بچوں کا بھی ایک ذہنی و قلبی رشتہ استوار ہونے دیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض خواتین کو شاپنگ یا بلاوجہ ہی دوسروں کے کام آنے کا بے حد شوق ہوتا ہے۔ بچوں کو ماسی، رشتے دار، کسی بڑے بچے پر چھوڑ کر وہ شوق پورا کرنے نکل کھڑی ہوتی ہیں، اور تب اکثر معصوم بچے اذیت ناک مرحلوں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے، بچے آپ کی ہر تفریح، مشغلے اور مصروفیت سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ زندگی کو قناعت پر لائیں، اپنے سوا کسی پر اپنا بچہ نہ چھوڑیں، یا اُن ہاتھوں کے سپرد کریں جن کی محبت و شفقت اور سمجھ داری پر آپ کو پورا بھروسا اور مکمل اعتماد ہے۔ جو آنسو، اذیت یا پھر کوئی واقعہ تازندگی بچے کی شخصیت کا ناسور اور اس کی زندگی کی الم ناک یاد بن جائے اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے ’’حفاظت‘‘۔ سو اپنے پھول سے بچوں کی مکمل اور بھرپور حفاظت کریں۔

حصہ