وطن سے محبت کا جذبہ

532

 اریبہ فاطمہ

مجھے اپنے بچپن کا گزرا ہوا دور آج بھی یاد ہے کہ جب23مارچ کا دن قریب ہوتا تھا اور وطن عزیز سے محبت کا جوش اور جذبہ اس عروج پر پہنچ جاتا تھا کہ سارا دن بھوک اور پیاس کی پروا کیے بغیر بس گھر و محلہ سجانے کی امنگ میں رہتے تھے رات کو بھی یہی سوچتے ہوئے سویا کرتے تھے کہ صبح کیا کرنا ہے، اسکول میں تقریب ہوگی‘ نئے جذبے سے ملی ترانہ پڑھا جائے گامیرے لیے ایک الگ دن کی حیثیت رکھتا تھا جیسے عید کا دن ہواور کسی قوم کے لیے بھی یہ عید کے دن سے کم نہیں ہوتا، صبح سویرے سینے پر پاکستان کا جھنڈا لگا کر اسکول میں ہونے والے پروگرام میں شرکت کرنا، پریڈ دیکھنا ، اس قدر حسین منظر لگتا تھا کہ میں شاید ان کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکوں۔ آج بھی دن اور وہ یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔اب جبکہ بچپن گزر چکا ہے اور اخبارات، رسائل اور ٹی وی کی وجہ سے میری معلومات میں بہت اضافہ ہو چکا ہے، تجزیہ نگاروں کے تجزیے، کالم نویسوں کی پر فکر باتیں مجھے میرے خوابوں کی دنیا سے باہر نکال لاتی ہیں جہاں چاروں طرف اندھیرا ہے اور کہیں سے روشنی کی کوئی رمق نہیں نظر آتی۔ معلومات ہر طرف ہیں مگر پڑھے لکھے لوگ نظر نہیں آتے ظاہر ہے تجزیہ نگار صورتحال کو بہت باریک بینی سے دیکھ کر تجزیے کرتے ہیں لیکن جو تصویر وہ پیش کرتے ہیں وہ مجھے بہت پریشان کرتی ہیں۔ شاید وہ یہ منظر کشی صحیح کررہے ہوں یا میں غلط ہوں۔
مغرب اور مشرق میری فوج کو تو شاید نہ ہرا سکے مگر میرے افکار ،میری تہذیب اور میرے رسم ورواج پر ضرور قابض ہوگیا، اخلاقیات میں ہم شاید اس قدر گر چکے ہیں کہ ہمارے خواب وخیال میں بھی نہیں ہوگا،اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں اب اسلام ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہے قانون ہے پر عمل نہیں ،سزا ہے پر انصاف نہیں، نظریہ ہے پر حکمران نہیں۔ دوقومی نظریہ کو جس طرح موجودہ دور میں نشانہ بنایا جارہا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی شاید ہم بھول چکے کہ ہمارے بڑے صرف دوقومی نظریہ کی بنیاد پر بھارت سے ہجرت کر گئے تھے برصغیر کی سب سے بڑی قربانی دی ماں باپ نے بچے قربان کئے ،بہنوں نے عزت کی خاطر خود کشیاں کیں، بچے سڑکوں پر بے یار و مددگار پڑے رہے مگر سوچتا کون ہے ’’ہم تو ایک آزاد قوم ہیں‘‘۔
بچپن میں سنا ہوا ملی نغمہ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔۔ ۔ہم سب کی ہے یہ پہچان ۔۔۔ہم سب کا پاکستان پاکستان۔۔۔ جی ہاں میں آج بھی اتفاق کرتی ہوں اور میرا یقین ہے کہ سب کی پہچان پاکستان ہی ہے لیکن اس ملی نغمے کے پہلے جملے پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کہ کیا واقعی ہم زندہ قوم ہیں ؟؟۔ لیکن جواب اپنے اندر ہی موجود ہے اگر کہوں کہ ہاں تو کیوں اور نہیں تو کیوںسوال کئی ہیں پر جواب کی توقع یا جواب حصول ناممکن سا ہے۔
وطن عزیز کے قومی ترانے میں بڑے فخر اور ادب کے ساتھ سر جھکا کر ہم یہ کہتے ہیں کہ ’سایہ خدائے ذوالجلال‘لیکن افسوس کہ اسی سایہ خدائے ذوالجلال میں چوری ، جھوٹ، رشوت ، عصمت دری کرکے وطن پاک کی عزت کو پامال کرتے ہیں،جھوٹ سے لآ کر رشوت خوری تک کا کوئی کام ایسا نہیں جو ہم نے نہ کیا ہو۔ہم یوم آزادی کے موقع پر ایک دن سبز پرچم کو بلند کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے خدائے رب ذوالجلال کے دیئے گئے تحفے پاکستان کا حق ادا کردیا لیکن پورا سال اپنے انفرادی مفاد کی خاطر اسی پاکستان کی جڑیں کھودنے سے فرصت نہیں ملتی۔
اگر ہمیں واقعی ایک زندہ قوم بننا ہے تو ہمیں اپنے کردار پر نظر ثانی کرنا ہوگی، اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا اور منافقت ترک کرنی ہوگی ورنہ صرف بڑھکیں مارنے، شیخیاں بگھارنے اورایک دن جوش و خروش کے ساتھ منانے سے کام نہیں چلے گا۔

حصہ