ذمہ داری

252

مریم شہزاد

چوں چوں چوں کائیں کائیں کائیں
اف فو بھر بھول گیا، علی کو پرندوں کا شور سناء دیا تو جلدی سے کتاب بند کی اور پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھا اور پودوں کو پانی ڈالنے چل دیا۔
علی کے دادا 15 دن کے لیے کہیں گئے ہوئے تھے اور اس کی ذمہ داری لگا کے گئے تھے کہ ان کے پرندے اور پودے بھوکے پیاسے نہ رہے مگر علی روز ہی بھول جاتا تھا وہ تو شکر ہے کہ کوّے اور چڑیاں شور مچا دیتے تو اس کو یاد آجاتا۔
آج بہت گرمی تھی اور اسکول میں میچ بھی تھا اس وجہ سے وہ تھک بھی گیا تھا اسکول سے آکر اس نے ٹھنڈا ٹھنڈا شربت پیا اور سو گیا۔
شام کو اس کی آنکھ کھلی تو سخت گرمی اور پیاس لگ رہی تھی لائٹ بھی گئی ہوئی تھی اس نے پانی پیا تو وہ بھی بالکل گرم ، “اُف کیا کروں” علی نے سوچا۔
اتنے میں پھر پرندوں کے شور کی آوازآئی۔
“اوہو، ان کو بھی تو پیاس لگ رہی ہوگی،آرہا ہوں”
اس نے کہا اور بھاگا بھاگا اوپر گیا اورسب کو پانی دیا اور سوچنے لگا یہ تو بے زبان ہیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ہم کو ان کا خیال خود ہی رکھنا چاہیے “واقعی دادا ٹھیک ہی کہتے ہیں، یہ بھی جاندار ہیں، خود سے نہیں کہہ سکتے نہ پودے خود جاکر پانی پی سکتے ہیں اس لیے ہم کو پوری ذمہ داری سے ان کا خیال رکھنا چاہیے” اور پھر علی روزانہ سب کے شور مچانے سے پہلے ان کا دانہ پانی رکھ دیتا اور پودوں کو بھی پانی ڈال دیتا۔
جب دادا واپس آئے تو علی کے کام سے بہت خوش ہوئے اور اس کو ایک گھڑی بھی انعام میں دی۔

حصہ