اپریل فول

195

حذیفہ عبداللہ

صبح کے 9 بجے تھے اتوار کی چھٹی کے باعث سب بڑے چھوٹے نیند کے مزے لیے رہے تھے کہ فون کی گھنٹی اختر کو اٹھنے پر مجبور کر دیا پہلے تو اس نے فون کو نظر انداز کیا کہ وہ خاموش ہو جائے اختر نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے سلام کے جواب کے بعد کہا گیا کہ آپ کے تایا کار کے حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں ان کا نماز جنازہ عصر کے بعد ہو گا میں ان کا پڑوسی بات کر رہا ہوں گھر کے افراد اس سانحے کے بعد حواس میں نہیں ہیں اختر فون سنے کے بعد افسردگی کی حالت میں صوفے پر ڈھیر ہو گیا اس کی والدہ اور دادی بھی فون کی آواز پر نیند سے بیدار ہو چکی تھیں اختر کی امی نے پوچھا بیٹا کس کا فون تھا کوئی جواب نہ پا کر وہ تیزی سے اختر کی طرف آئیں دیکھا کہ اختر صوفے پر بیٹھا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اس دوران دادی بھی وہاں آگئیں اختر کی حالت دیکھ کر دونوں نے پریشانی کی حالت میں پوچھا بیٹا خیریت تو ہے کیا ہوا؟ رو کیوں رہے ہو اختر نے روتے ہوئے بتایا کہ تایا ابو کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ انتقال کر گئے ہیں اختر کا اتنا بولنا ہی تھا کہ دادی کی حالت غیر ہو گئی یہ صورت حال دیکھ کر اختر کے ہاتھ پائوں پھول گئے وہ دادی کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگا امی نے کہا دادی کو فوری طور پر ہسپتال لے جانا ہو گا اختر جو کہ ایک نو عمر بچہ تھا پریشان ہو گیا کہ کیا کیا جائے ایمبولنس بلائی گئی دادی کو دل کے ہسپتال لے جایا گیا ابو جو کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر تھے انہیں فون کر دیا گیا کہ وہ فوراً گھر آجائیں انہیں تفصیلات نہ بتائی گئی کہ بیک وقت دو حادثات کا سن کر وہ پریشان ہو جائیں گے۔
دادی کو ہسپتال میں داخل کر لیا گیا اور علاج شروع ہو گیا اختر اور اس کی امی ہسپتال میں دادی کے پاس تھیں دادی کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی ڈاکٹرز نے کہا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں آپ لوگ دعا کریں۔ اختر کے ابو گھر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ دادی ہسپتال میں داخل ہیں وہ ہسپتال پہنچ گئے صورت حال دیکھ کر پریشان ہو گئے انہوں نے سب کو تسلی دی کہ حوصلہ رکھیں اللہ بہتر کرئے گا اختر نے کہا کہ ابو تایا ابو کے کار کے حادثے میں ہلاکت کی اطلاع پر دادی کو دل کا دورہ پڑا۔ انہوں نے پوچھا حادثہ کب ہوا اختر نے کہا تایا ابو کے پڑوسی کا فون تھا اور انہوں نے بتایا کہ جنازہ عصر کے بعد ہے اختر کے ابو کے پسینے چھوٹ گئے مگر انہوں نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے اپنے بڑے بھائی کے گھر فون کیا فون تایا ابو کے بڑے بیٹے اعجاز نے اٹھایا ابو نے تایا ابو کی خیریت دریافت کی اعجاز نے کہا الحمدللہ ٹھیک ہیں اپنے کمرے میں آرام کررہے ہیں ابو نے بتایا دادی ہسپتال میں داخل ہیں ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
دادی کا علاج جاری تھا کہ ڈاکٹر نے آکر بتایا حالت خطرے سے باہر ہے انہیں کوئی شدید صدمہ پہنچا تھا آپ ان سے مل سکتے ہیں لیکن صدمے والی کوئی بات نہ کریں ابو نے کہا ڈاکٹر صاحب صدمے والی بات غلط تھی بلکہ کسی کی شیطانی حرکت تھی اسی دوران تایا ابو بھی ہسپتال پہنچ گئے دادی کو صحیح صورت حال سے آگاہ کیا گیا اور شام تک وہ سب دادی کو لے کر گھر آگئے۔
گھر آکر ابو نے اختر سے تفصیلات معلوم کیں اور بولے اختر بیٹا آج یکم اپریل ہے اور کسی نے یہ سنگین مذاق کیا اصل میں یہ مذاق نہیں بلکہ ایک بہت بڑا جرم ہے اور انگریزوں کا طریقہ ہے وہ آج کے دن اپریل فول مناتے ہیں جھوٹی اطلاعات دے کر لوگوں کو پریشان کرتے ہیں جس سے بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں آپ کا کوئی قصور نہیں آپ بچے ہو اور بغیر تحقیق کے یہ بات بتا دی ویسے بغیر تصدیق کے کوئی بات آگے نہیں بڑھانا چاہیے اور جہاں تک بات اپریل فول منانے کی ہے یہ قابل نفرت کام ہے جھوٹ پھیلانا لوگوں کو پریشان کرنا اور اس سے انجوائے کرنا جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے جھوٹ بولنے والے پر اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے یعنی اپریل فول منانے والے اللہ کی لعنت کے مستحق ہیں اس عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس کے باعث کئی بڑے سانحے جنم لے چکے ہیں یہ کھیل نہیں ایک قابل نفرت فعل ہے حکمرانوں کو اس کے لیے بھی ایک قانون بنانا چاہیے اور اس فعل کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ کو فروغ دیا جا رہا ہے جھوٹ بولنا فیشن بن رہا ہے یہ ایک ناسور ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔

حصہ