ننھی چڑیا

559

 دیا خان بلوچ

مما نہیں نہیں! مجھے نہیں جانا، ڈ ر لگتا ہے۔۔ ننھی چڑیا ادھر سے ادھر پھدکتی پھر رہی تھی لیکن اپنی اماں جان کی بات نہیں مان رہی تھی۔ ننھی چڑیا کو چند دن ہوئے تھے اس دنیا میں آئے ہوئے،کچھ دن تو اماں جان نے خوب لاڈ اٹھائے،بہت مزے مزے کے کھانے کھلائے،لیکن ایک دن تو ایسا ہونا تھا نا کہ ننھی چڑیا کو خود اس گھوسلے سے باہر نکلنا تھا،اڑ نا تھا،نئی نئی جگہوں کو دیکھنا تھا اور اپنی پسند کے کھانے کھانے تھے۔ننھی چڑیا ویسے تو بہت فرمانبردار تھی،اپنی اماں کی ہر بات مانا کرتی،کبھی انہیں کوئی شکایت کا موقع نا دیتی تھی۔لیکن کچھ دنوں سے وہ بہت ضد کر رہی تھی۔وہ چاہتی تھی بس آرام سے گھونسلے میں لیٹی رہے،دانہ دنکا تو ایسے مل رہا تھا ۔جس درخت کی ڈالی پر اس کا آشیانہ تھا وہ ندی کنارے تھا،ہر روز تازہ ہوا کے مزے لینے کے لئے وہ اپنے گھونسلے کے دروازے تک آجاتی تھی،ہر روز وہ ڈھیروں اپنی جیسی سہیلیاں دیکھتی اور خوش ہوتی۔اس نے کبھی یہ سوچا ہی نا تھا کہ ایک دن اسے اس گھر سے باہر نکلناپڑے گا۔وہ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار ہی تھی۔لیکن یہ خوشی اس دن پریشانی میں بدل گئی جب اماں جان نے ننھی چڑیا کو کہا کہ آج وہ اسے ساتھ لے جائیں گی۔اسے راستے یاد کروانے ہیں تاکہ اگر کبھی وہ ان سے جدا ہو جائے تو گھر واپس خیر و عافیت سے آسکے۔
ننھی چڑیا کے پر تو اب بڑے تھے اور وہ اڑ بھی سکتی تھی،لیکن اسے لگتا تھا کہ اگر وہ اڑے گی تو گر جائے گی۔یہی ڈر اسے کبھی گھونسلے سے باہر نہیں جانے دیتا تھا۔وہ جانتی تھی کہ اسے ایک دن یہاں سے نکل کر نئی دنیا کو دیکھنا ہے اپنے ساتھیوں کی طرح،لیکن وہ اتنی ہمت ہی نا کر پاتی تھی۔ننھی چڑیا بہت پیاری تھی،رنگ برنگے خوبصورت رنگوں والی چڑیا،اس کی آنکھیں سرمئی تھیں۔اس کی چونچ سرخ رنگ کی تھی۔اپنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ بہت مشہور تھی۔ایک ہی خامی تھی اس میں کہ وہ سارا دن اکیلی گھونسلے میں رہتی۔اب جو ننھی چڑیا سوچتی تو اور بھی پریشان ہوتی کہ کیا کروں۔
ننھی چڑیا ہر روز اماں جان کے کانے کے بعد تھوڑی ہمت کرتی اور گھونسلے کے کنارے آبیٹھتی اور اپنے پیارے پیارے پروں کو خوب ہلاتی ایسا لگتا تھا جیسے ابھی اڑ جائے گی۔پردہ ذرا سا اڑ کر واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ جاتی۔کبھی کبھی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے کہ کیا وہ کبھی اتنی بہادر نا ہو سکے گی کہ باقی سب کی طرح اڑ کر خوب سیر کرے۔یہ سوچ اسے بہت اداس کر دیتی تھی۔اسی طرح دن گزرتے رہے۔
ایک صبح عجب معاملہ ہوا،ننھی چڑیا اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کر کے سو گئی۔اس کی اماں جان تو نجانے کب کی جا چکی تھیں۔جس وقت ننھی چڑیا کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ باہر بہت سہانی ہوا چل رہی ہے،ہلکے ہلکے بادل بھی آرہے ہیں۔ننھی چڑیا سوچنے لگی کے آج تو اماں جان جلد واپس آجائیں گی۔موسم اپنے تیور بدلنے لگا تھا،ہوا تیز چلنے لگی اور آسمان پر کالے کالے بادل چھانے لگے۔ننھی چڑیا نے گھونسلے سے دیکھا تو اسے اپنی اماں جان کہیں نظر نا آئیں۔اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔تھی بھی چھوٹی سی تو ڈر بھی بہت لگ رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد بادلوں نے برسنا شروع کر دیا بارش تیز ہورہی تھی،ہوا بھی خوب تیز تھی۔ندی تو پانی سے بھری رہتی تھی اور آج اس تیز بارش نے خوب جل تھل مچا دی تھی۔ندی کا پانی ہر گزرتے پل کے ساتھ بلند ہوتا جا رہا تھا۔ننھی چڑیا کا دل کانپ رہا تھا کیوں کہ تیز ہوا کے باعث اس کا گھونسلہ بہت جھول رہا تھا۔ننھی چڑیا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ آج یہ طوفان اسے بے گھر کر دے گا،آسمان سے بارش برس رہی تھی اور نیچے ندی پانی سے لبا لب بھری ہوئی تھی۔رہی سہی کسر ہوا نے پوری کر دی تھی۔ننھی چڑیا تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے پروں کو پھڑ پھڑاتے اور اڑنے کی کوشش کرتی،لیکن ہر بار ناکام ہو کر رہ جاتی۔اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگی کہ وہ اسے اتنی ہمت دیں کہ وہ اڑ کر ایک محفوظ جگہ پر پہنچ جائے۔ننھی چڑیا کو اماں جان کی یاد بھی بہت آرہی تھی۔اس کے آنسو اور بھی روانی سے بہنے لگے۔اچانک ایک زور دار آواز آئی،ننھی چڑیا سہم کر گھونسلے کے دہانے پر آئی،اس نے دیکھا کہ ہوا کے زور دار تھپیڑوں سے درخت اپنی جگہ سے اکھڑ رہے ہیں،جس درخت کی شاخ پر اس کا گھر تھا وہ درخت بھی بہت زور زور سے ہل رہا تھا۔اب تو اس کا گھونسلہ بھی جھولنے لگ تھا۔ننھی چڑیا نے جب یہ سب دیکھا تو اس نے ایک بار پھر کوشش کی تاکہ یہاں سے اڑ جائے۔اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پروں کو پرواز کے لئے تیار کیا،اس نے اپنا سر گھونسلے سے باہر نکالا اور ایک محفوظ مقام کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔تھوڑی دور اسے ایک جھاڑی نظر آئی۔ننھی چڑیا اپنے پر پھیلائے اور ایک ہی جست میں اڑ نے کی کوشش کی۔ارے یہ کیا۔۔۔میں اڑ رہی ہوں،ننھی چڑیا کی خوشی کی انتہا نا رہی تھی جب اس نے دیکھا کہ وہ آج مسلسل کوشش کرنے کے بعد اڑ سکی تھی۔ننھی چڑیا کے اڑتے ہی گھونسلہ ہوا کے سنگ اڑتا ہوا دور ندی میں جا گرا تھا۔ننھی چڑیا جھاڑی کے اندر چھپ کر بیٹھی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دعا کرنے لگی کہ بارش رک جائے۔وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنے پروں کو جھاڑ کر پھیلاتی اور پھر بیٹھ جاتی۔
چند منٹوں بعد بارش رک گئی اور آسمان بھی اب صاف شفاف سا ہو گیا تھا۔ننھی چڑیا بھی جھاڑی کے نیچے سے نکل آئی۔جب وہ باہر آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کی اماں جان ،اس شاخ پر اداس بیٹھی ہیں جس ڈالی پر ان کا چھوٹا سا گھر ہوا کرتا تھا۔ننھی چڑیا کی خوشی کی انتہا نا رہی اور وہ خوشی سے چہچہانے لگی۔جب اماں جان نے اس کی آوز سنی تو خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔وہ فوراً اڑ کر ننھی چڑیا کے پاس آئیں اور اسے پیار کرنے لگیں۔
اماں جان ! آپ ٹھیک کہتی تھیں ہمت کرنے سے سب ہوسکتا ہے،آج میں نے ذرا سی ہمت کی اور دیکھیں آج آپ کے سامنے زندہ سلامت کھڑی ہوں۔اب تو میں نے سیکھ لیا ہے کہ کیسے اڑا جاتا ہے۔آج میں بہت خوش ہوں کہ میں نے سیکھا ہے اگر زندگی میں کچھ بننا ہے اور اپنا مقصد حاصل کر نا ہے تو مسلسل کوشش اور جدوجہد کرنا ضروری ہے۔محنت کرنے سے ہی ہم زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
بالکل ننھی چڑیا ،ٹھیک کہا تم نے۔ہمیں کبھی بھی اپنے حوصلے پست نہیں کرنے چاہئیں۔آئو ہم چلیں کہ اب ہمیں ایک نیا گھر بنانا ہے۔یہ کہہ کر وہ ننھی چڑیا کو اپنے ساتھ لئے اڑتے ہوئے ایک نئی منزل کی جانب روانہ ہوگئیں۔

حصہ