بے شناخت باسیوں کے گی

397

سیمان کی ڈائری

کولمبس نے امریکا دریافت کیا۔ ساری دنیا کولمبس کو ’’سیاح‘‘ اور دنیا کو امریکا کا تحفہ دینے والی شخصیت سمجھتی ہے۔ لیکن امریکا کے ممتاز مؤرخ اور ڈراما نگار ہورڈزن (Howard Zinn) نے اپنی معرکہ آراء تصنیف A People’s History of the United States میں کولمبس ہی کو نہیں امریکا کی پوری سیاست، تاریخ اور تہذیب کو ننگا کردیا ہے۔ ہوورڈ زن کے بقول کولمبس امریکا پہنچا تو اُس نے ’’مقامی باشندوں‘‘ کو دیکھ کر جو کچھ محسوس کیا اپنی ڈائری میں تحریر کردیا۔ کولمبس نے لکھا:
’’وہ ہمارے پاس طوطے، کپاس کے گولے اور نیزے اور ایسی ہی کئی چیزیں لے کر آئے اور انہوں نے موتیوں اور عقابوں کے پیروں میں پہنائے جانے والے گنگھروئوں سے ان اشیاء کا تبادلہ کیا۔ انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اشیاء کا تبادلہ کیا۔ ان کی جسمانی ساخت عمدہ تھی۔ ان کے نقش و نگار دلکش تھے۔ وہ نہ مسلح تھے ،نہ ہتھیاروں سے آگاہ تھے۔ میں نے انہیں تلوار دکھائی تو انہوں نے لاعلمی کی وجہ سے اس کی دھار پر ہاتھ رکھ کر خود کو زخمی کرلیا۔ ان کے پاس لوہا نہیں تھا۔ ان کے نیزے سرکنڈوں سے بنے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھ کر خیال آیا کہ وہ ہمارے اچھے خادم ہوں گے۔ ہم صرف پچاس لوگوں کے ذریعے ان سب کو غلام بناکر ان سے اپنی مرضی کا ہر کام کروا سکتے تھے۔‘‘
(A People’s History of the United States-Page-2)ہوورڈ زن نے اپنی کتاب میں مقامی باشندوں کی بے انتہا تعریف کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ مقامی باشندے ملنسار تھے، نرم خو تھے، اپنی ہر چیز میں دوسروں کو شریک کرنے والے تھے۔ مگر کولمبس کو ان سے مل کر پہلا خیال یہ آیا کہ یہ لوگ یورپی باشندوں کے اچھے خادم بلکہ غلام ثابت ہوسکتے ہیں۔بالآخرکولمبس نے طاقت کے زور پر مقامی باشندوں کو اپنا غلام بنایا اور ان کے جہاز بھر بھر کر اسپین لے گیا جہاں انہیں بازاروں میں فروخت کیا گیا۔
مائیکل مان نے اپنی تصنیف The Dark Side of Democracy میں لکھا ہے کہ کولمبس کی آمد سے قبل Americas کے علاقوں کی آبادی 6 سے 10 کروڑ تھی۔ اس میں سے آدھی آبادی یعنی 5 کروڑ افراد ہلاک ہوگئے۔ وہ علاقہ جو اب خاص امریکا کہلاتا ہے وہاں ریڈ انڈینز کی آبادی 40 سے 90لاکھ کے درمیان تھی۔ اس میں سے 95 فیصد آبادی ختم ہوگئی۔ 1788ء میں آسٹریلیا میں موجود ایب اوریجنل باشندوں کی تعداد 30 لاکھ تھی جو 1921ء میں کم ہوکر صرف 72 ہزار رہ گئی۔(The Dark Side of Democracy-Page-76) یہ اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ جدید مغربی تہذیب کے تربیت یافتہ انسان نے امریکا اور آسٹریلیا کے علاقوں پر قبضہ کرکے ان علاقوں کے حقیقی مالکان کی نسل کُشی کر ڈالی اور 6 سے 10 کروڑ انسانوں کو مار ڈالا۔ یہ ہمارا الزام نہیں ہے، مغرب کے دانشور اور اسکالرز اپنی تصانیف میں خود مغربی انسان کے ہولناک مظالم کو آشکار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
یورپی اقوام تہذیب و تمدن کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ ان اقوام نے ناآشنا لوگوں کو تہذیب سے آشنا کرایا اور علم و دانش کے موتی بکھیرے۔ تاہم تہذیب کی رکھوالی کرنے والی ان اقوام کا دوسرا پہلو انتہائی سیاہ ہے۔سونے کی تلاش میں سرگرداں یورپی سوداگروں اور قدرتی وسائل پررال ٹپکاتے یورپی حکمرانوں نے بہت سی کمزور اقوام کو غلام بنا کر انہیں اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا ڈالا۔ یورپی اقوام نے نئی دنیاؤں میں جہاں تہذیب کے نئے شگوفے کھلائے وہیں بہت سی تہذیبوں کی زبان، ثقافت، مذہب اور نسل کو روند ڈالا۔ انگریزوں، ولندیزیوں اور فرانسیسیوں کے ہاتھوں جن اقوام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، ان میں آسٹریلیا کے قدیم باشندے ’’ایبوریجنل‘‘ (Aboriginal) بھی شامل ہیں۔ ایبوریجنل آسٹریلیا کے وہ قدیم باشندے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس سرزمین پر پڑاؤ ڈالا۔ انہیں جمع کے صیغے میں ’’ایب اوری جنز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ انگریزی لغت میں سترہویں صدی میں متعارف ہوا، جس کے معنی ’’پہلا‘‘ یا ’’ابتدائی‘‘ ہیں۔
یہ تاریخ کے ان سیاہ دنوں کی باتیں ہیں کہ جن کی مدد سے ہمیں ایبوریجنل یعنی فرسٹ نیشن سے متعلق معلومات ملتی ہیں کہ یہ کون تھے؟ اور ان پر کیا کیا مظالم ہوئے ،کیسے ان کی نسل کشی کی گئی،خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا گیاوغیرہ وغیرہ۔تمہید اس لیے باندھنا مقصد تھی کیوں کہ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب’’یورپین نو آبادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات ‘‘میرے زیرمطالعہ ہے۔اس کتاب میں امریکا و کینیڈا کے حقیقی باشندوں کے گیت اور خواتین کی شاعری کے تراجم ہیں۔اس کتاب کواردو کی ممتاز اورصاحبِ طرز شاعرہ محترمہ نسیم سید نے مرتب کیا ہے ۔ کتاب میں جناب افتخار عارف صاحب ، جناب محمد شاہد صاحب اورمحترمہ شہناز شورو صاحبہ کا مضمون شامل ہے۔کتاب کی اہم تحریرجوپوسٹ کولونیل لٹریچراور تھیوری سے متعلق ہے اسے اکیاون صفحات پر نسیم سید صاحبہ نے بڑی تحقیق کے ساتھ سمیٹا ہے۔ میں سمجھتا ہوں گیتوں کے تراجم کو پڑھنے سے پہلے اس تحریر کا مطالعہ بہت ضروری ہے جو نسیم سید صاحبہ نے ایب اور جنز کے بارے میں لکھا تاکہ ان کے احساسات،احتجاج،غم وغصہ،جذبات،جوش، امنگ کو پورے پس منظر کے ساتھ سمجھا جاسکے۔ان تمام حقائق کو جانے بغیر،ان کے کلچر کو سمجھے بغیر ،ان کے زخموں کی گہرائی سے واقفیت کے بغیر ایبوریجنل کی شاعری سے لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا۔یہ وہ قوم ہے جس نے نو آبادیاتی حکمرانوں کے نا صرف بھیانک مظالم سہے بلکہ ان سے ان کی شناخت، ان کے رسم و رواج اور کلچر کوبھی چھیناگیا۔
نسیم سید صاحبہ لکھتی ہیں ،’’شمالی امریکاکے یہ حقیقی باشندے گروہ کی صورت میں برف کے مکانوں میں رہتے تھے(یہ بات بھی کتنی حیران کن ہے مگر یہی حقیقت تھی)مچھلی سے لے کر بڑے بڑے جانوروں کا شکار کرتے تھے ۔لکڑی کے معمولی نیزوں سے ہاتھی کا شکار کرتے تھے اور مل بانٹ کر کھاتے تھے۔یک جہتی کا تصور آج بھی ان کے ہاں بہت مضبوط ہے۔خاندان کے مضبوط تصور سے جڑے یہ اپنی تمام تہذیبی اور معاشرتی روایات کے ساتھ نہ جانے کب سے برف پر زندگی مزے سے گزار رہے تھے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا سو اپنے قدیم ترین ٹھکانے سے انھیں ہجرت کرنا پڑی۔جیسے ایک نظم کی کچھ سطریں:
گلیشیرز نے دھکا دیا
اور انسانوں نے حرکت کی
شمال کی طرف، جنوب کی طرف
یو ں دھرتی ماں نے ایک نئی قوم کو جنم دیا
اور پھر… ’’عورتیں گوروزِ اول سے آسمانی اور زمینی ضابطوں کی پابند رہی ہیں۔لیکن ان کی مٹی کا نم عجب جوہر رکھتا ہے جو سو بار زمین میں گاڑے جانے کے باوجودپھر سے پھوٹ آتا ہے۔ایبوریجنل عورت ٹکڑے ٹکڑے کر کے چیل کوؤں کو کھلا دی گئی۔اس کی روح کی دھجیاں درختوں پر ٹانگ کے اس کے وجود کا مذاق اڑایا گیا ۔اس کے خاکے بنا ئے گئے جس میں جانور ان کے جسم کو بھنبھوڑرہے ہیںاور ان کی آبرو ریزی کررہے ہیں۔ان کے چہرے مسخ کردیے گئے مگر اس نے اپنے وجود کو ایک بار پھر سمیٹا اور پورے جلال اور جمال کے ساتھ ڈٹ گئی آبادکاروں کے وحشی قوانین کے سامنے‘‘ بہ قول ایک ایبوریجنل شاعرہ کے:
میں اپنے قلم سے برچھی تراش رہی ہوں
مجھے اپنے لوگوں کی جنگ لڑنی ہے
جن تخلیق کاروں کی نظموں اور گیتوں کے تراجم اس کتاب میں موجود ہیں ،ان میں لنڈاہیگن کی بدشکل جنگلی عورتیں ،آگ، لی مارسیل کی اسیری، پرچھائیاں ، ارویا ناآریکہ کی اپنے باپ کے لیے ایک نظم، نوراڈونہرکی جازے کے لیے ایک نظم، آوازیں، پولاگن ایلن کی لگوناکی حسین عورتیں، ہمارے جد کی نیلامی، لیو اینڈریو کی سفید گیٹ، Dianne Bearnsکی قلم کی برچھی، تانیہ ہگس کی کیا میں پورا سچ لکھ سکتی ہوں؟لایانامارسیل کی اسکول یا عقوبت خانہ، میرا بچپن تمہارے اسکول کھا گئے، ڈیٹا جو کی مجھے میرے لہجے میں بات کرنے دو، بلیک فٹ کی افسوس، زندگی ایک کایاک ہے، لے قؤٹ کی سارے رنگ تمہارے ہیں، اجبوا کی کیا کریں؟ایک سوال، میں ابنِ آفتاب ہوں، اوپرنگ ایلک کی میں ٹوٹی ہمتوں کو جوڑنے کا گیت گاؤں گا، اس لڑکی کا گیت جو پتھر میں تبدیل ہو گئی، مردہ آدمی کا گیت، ،لنڈاہیگن کی زمیں پیروں سے کھینچ کرکہہ رہے ہیں خوشحال کررہے ہیں، بالا کولا کے ستاروں کا گیت اور Alootook Ipellieوہ اک حسیں رات تھی شامل ہیں جواپنی تمام روایات کے ساتھ ادب میں زندہ ہیں۔
گیتوں کے یہ تراجم آدم کی بیٹیوں کے نوحے ہیں۔ان نوحوں میں کم سن بچیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی داستانیں رقم ہیں جن کے ساتھ بد سے بدتر سلوک کیا جاتا رہا۔ذہنی جسمانی اور روحانی تشدد برداشت کرنے والے ان ایب اوری جنز نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے قلم کو نیزے اور ڈھال میں بدل دیا۔ایبوریجنل کے پاس جب تک آباد کار حکمرانوں کی زبان بات کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی تب تک وہ سب سہنے پر مجبور تھے ۔قوتِ گویائی ملتے ہی خاص کر عورتوں نے اپنی سوانح حیات فکشن اور شاعری میں نہ صرف احتجاج کا دوہری کاٹ والا لہجہ اختیار کرکے ایک ایک ظلم ،زیادتی اور استحصال کو تصویر کردیا۔نسیم سید اردو ادب کی اہم فرد ہیں جنھوں نے ان ایشوز میں دلچسپی لی،تاریخ کے بوسیدہ اوراق کھنگالے اور پوری دیانت داری اور تحقیق کے بعدنظموں اور گیتوں کے خزانے کو ’’یورپین نو آبادیات کے ایبوریجنل ادب پر اثرات‘‘کے عنوان سے اردو میں تحریر کیا اور انھیں ہم تک پہنچایا۔
نسیم سید صاحبہ سے ملاقات پچھلے دنوں معروف شاعر جناب احمد نوید کے گھر پر رکھی گئی ایک نشست میں ہوئی۔ اس تقریب میں امریکا سے ایک اور مہمان شاعر جناب مجید اختر صاحب بھی موجود تھے۔ مشاعرے کے اختتام پر نسیم سید نے جب اپنی کتاب مجھے دی تومیں یہ توقع کر رہا تھا کہ اتنی اچھی شاعرہ کا مجموعہ کلام ہوگا اور میں ظاہر ہے کہ انھیں پڑھنا بھی چاہتا تھا مگر کتاب دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ ایبوریجنل ادیبوں کی نظموں اور گیتوں کا ترجمہ ہے۔کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ تو بہت بڑا خزانہ ہے جو ہاتھ لگاہے۔ اب تک ہم لوگ ان بے شناخت باسیوں سے متعلق تاریخ کی حد تک ہی واقف تھے۔ا س نوعیت کی شاید یہ واحد کتاب ہے جو اردو میں ترجمہ ہو ئی۔کتاب میں گو کہ پروف کی غلطیاں ہیں لیکن انھیں دور کیا جاسکتا ہے۔اس کتاب کی تقریب رونمائی پریس کلب میں رکھی گئی جس کی صدارت جناب ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صاحب نے کی۔ڈاکٹر شاداب احسانی، محترمہ شاہدہ حسن ،جناب احمد نوید ،جناب انیق احمد ،جناب اجمل سراج اور جناب علاؤالدین خانزادہ نے اظہار خیال کیا۔ مجھے افسوس ہوا کہ اتنی اچھی کتاب کی تقریب میں خاص کر ادبی حلقوں میں سے کم ہی لوگوں نے شرکت کی۔ شاید اس کی جگہ مشاعرہ ہوتا تو شعرا کی ایک لمبی قطار ہوتی۔بہر حال نسیم سید صاحبہ کی محنت داد طلب ہے اور مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ آخر میں شہناز شورو صاحبہ کی چند سطروں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔سچا ادب بے ریا ہوتا ہے۔اپنی زمین اور اس کے باسیوں کے دکھ سکھ ، آنسوؤں،آہوں اور سسکیوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔مصلحت کے نام پر جھوٹ اور دروغ گوئی سے دور ہوتا ہے۔اس کتاب میں موجود شاعری پڑھ کر تیسری دنیاکے بے شمار شاعر ہمیشہ زندہ رہنے والی نظمیں لکھیں گے جو دھرتی کے اصل وارثوں کو انصاف دلوائیں گی۔وقت قریب آیا چاہتا ہے کہ دنیا بھر کے مظلوم و محکوم عوام مرثیے نہیں،نوحے نہیں…اب بغاوت کے گیت گائیں گے۔

حصہ