جنس ، حیا اور بے حیائی

928

؎ حیا کیا ہے اور یہ کہ اسلام میں حیا کا کیا تصور ہے نیز یہ کہ کیا اسلام حیا کے احکامات کے متعلق محدود ہے یا اس کا دائرہ وسیع تر ہے؟، یہ ہیں وہ بنیادی باتیں جن کا تعین جب تک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک شاید اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو نہیں کی جا سکے گی۔
آج کل مسلمانوں میں ایک بیماری اور بھی عام ہو چلی ہے جس کا نام بے سوچے سمجھے اور بے جانے بوجھے تقلید اختیار کرنا ہے۔اس کا تعلق خواہ مغربی تہذیب سے ہو یا اسلام کے دائرے سے باہر کے مذاہب کی بہت ساری روایتوں کو کچھ اسطرح منانا جیسے وہ باتیں اور روایتیں یا تو اسلام کی پسندیدہ ہیں یا (نعوذباللہ) ان کو اختیار کرلینا یا ان کو انھیں اقوام کی طرح منانا جس طرح دین و مذہب سے ناآشنا اقوام منایا کرتی ہیں کوئی خلاف اسلام بات نہیں۔ بسنت، ہولی، ویلنٹائن ڈے اور اسی طرح کی بیشمار رسومات جن کو ہم شادی بیاہ اور منگنی کرتے ہوئے کسی بھی تکلف کے بغیر اپنے معاشرے میں نافذ کئے ہوئے ہیں اور نہ صرف ان کو منالینے میں کبھی کوئی عار محسوس ہی نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی سمجھدار، پڑھالکھا، دین کی فہم رکھنے والا، والدین، بہن بھائی، بزرگ یا کوئی دانشور ان رسومات کو منانے سے رک جانے کا کہے تو منانے والے نہ صرف طیش میں آجاتے ہیں بلکہ بات اکثر اوقات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ سمجھانے والوں کی عزت و آبرو اور جان و مال تک خطرے میں پڑجاتا ہے۔
آج سے بیس تیس سال قبل تک کسی کی اتنی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ اگر سمجھانے والے کسی فعلِ بد پر معترض ہوں تو لوگ منھ کو آئیں لیکن اب معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہو گیا ہے اور گھر کے بڑے، آبرومند لوگ، دین کا علم رکھنے والے اتنا حوصلہ ہی نہیں پاتے کہ کسی بھی خلاف اسلام وشرع بات پر بولیں اس لئے کہ وہ اس بات کو خوب اچھی طرح جان چکے ہیں کہ سوائے عزت گنوانے کے اور کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ اب ایسے لوگوں کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ ہی نہیں بچا ہے کہ وہ یا تو ایسی کسی بھی تقریب میں شرکت ہی نہ کریں جہاں ایسی خرافات ہوتی ہوں یا اگر معاشرتی جکڑبندیوں اور تعلقات کے بگڑجانے کا احتمال مجبور کر رہا ہو کہ شرکت کی ہی جائے تو خاموش شیطان کی طرح شریک ہوں، ایک حرف شکایت اپنے ہونٹوں پر نہ سجائیں بلکہ پیشانی پر گرہ تک نہ ڈالیں کہ پیشانی یہ گراہ بھی نہ جانے کتنے دلوں ، رشتوں اور تعلقات کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن جائے گی۔
اس سے پہلے کہ گفتگو کو مزید آگے بڑھایا جائے اور اس بات کا احاطہ کیا جائے کہ اسلام “حیا” کے دائرے کو کہاں کہاں تک وسیع کرتا ہے، جدید دور کے ایک فتنے کی جانب اہل عقل شعور کی توجہ مبذول کرانا بہت ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ سے لیکر عید بقرہ عید اور دیگر تقریبات کے اہتمام میں کیا کیا ہندوانہ و جاہلانہ رسومات کی کمی تھی کہ “ویلنٹائن ڈے” بھی ہمارے معاشرے میں نہ صرف مروج ہوتا جا رہا ہے بلکہ اگر اس کے خلاف کوئی آواز اٹھائی جاتی ہے تو آواز اٹھانے والوں کے خلاف کس کس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں اس کی ایک ہلکی سے جھلک ذیل میں ملاحظہ ہو۔ میں صاحب مضمون کا نام اس لئے درج کرنا نہیں چاہ رہا کہ ان کی طرز تحریر اس بات کی کم از کم مجھے اجازت نہیں دیتی کہ ان کے نام کی تشہیر ہو اور یوں بھی میں نام کو پوشیدہ رکھنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ بات صرف سمجھ میں آجائے کہ وہ لوگ جو ہر دین و مذہب سے باہر کی بات کو اس طرح اپنا لیتے ہیں جیسے وہ (نعوذباللہ) جز و دین ہو یا دین اس پر کوئی قدغن ہی نہ لگا تا ہو، وہ سمجھانے والوں اور سیدھی سچی راہ دکھانے والوں کو کس کس انداز میں ملامت کا نشانہ بناتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ
“فروری کا مہینہ طلوع ہوتا ہے تو موسمِ سرما اپنے اختتام کو پہنچتا ہے اور چند روز کے لیے بہار اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ ایسے میں یار لوگ اگر محبت کا دن منانا چاہتے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟۔ گزشتہ کئی سال سے 14 فروری کو محبت کا دن منانے والوں کے خلاف ایک طوفان بد تمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ یہ شور و غوغا کرنے والے حضرات اور خواتین خود کو چادر اور چار دیواری کے ٹھیکے دار گردانتے ہیں۔ اس دفعہ بھی ہر دوسری شاہراہ پر بینر اور بل بورڈ آویزاں ہیں جو ویلنٹائن کے خلاف فتاویٰ سے مزین ہیں۔ پاکستان بڑا دلچسپ ملک ہے۔ یہاں آپ کو ہر چیز کے ٹھیکے دار مل جائیں گے، خصوصاًملک میں سب سے سستی اور منافع بخش اشیاء مثلاً مذہب اور شدت پسندی کے۔ 14 فروری کے خلاف ’تحریک‘ کے یہ سرخیل، مولوی اسرار احمد کی ’تنظیم‘ اور خواتین کو ازسرِ نو مسلمان بنانے کے ذمہ دار ’الہدی/النور‘ سے تعلق رکھتے ہیں”۔
آپ اندازہ لگائیں گستاخی کا کہ صاحب مضمون دین و مذہب کو “اشیا “کہہ رہے ہیں اور وہ بھی “سستی” اور”منافع بخش”۔ دین و مذہب کی اب اس سے زیادہ کیا توہین ہو سکتی ہے لیکن کوئی بھی بولنے والا نہیں۔ وہ مزیدکہتے ہیں
“تنظیم کے جاری کردہ پمفلٹ کا عنوان ہے ’ویلنٹائن، ایک مشرکانہ اور کافرانہ رسم‘ اور اس میں کہا گیا ہے کہ یہ رسم ہماری بے حسی، بے غیرتی اور دین سے دوری کا مظہر ہے۔ مزید برآں ویلنٹائن کی تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کو ’عیسائیوں‘ کا تہوار بتایا گیا ہے (جو کہ تاریخی طور پر درست نہیں)۔ اسرار احمد صاحب ساری عمر خلافت کے از سر نو اجرا کا درس دیتے رہے۔ مرحوم اسرار احمد طب اور تفسیر کا علم تو ضرور رکھتے تھے لیکن تاریخ کا علم نہ جانے انہوں نے کس درس گاہ سے حاصل کیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ اپنے مرشد مودودی صاحب سے یہ علم انہیں نہیں ملا۔ منصورہ والوں کی حالت تو یہ ہے کہ ہمارے ایک استاد محترم تاریخ کی کوئی کتاب ڈھونڈتے ڈھونڈتے منصورہ جا پہنچے جہاں انہیں صاف جواب دے دیا گیا کہ میاں فقہ یا حدیث پر کوئی کتاب چاہیے تو حاضر ہے، یہ تاریخ واریخ کی کتب کا یہاں کوئی کام نہیں۔ اسلامک پبلی کیشنز جو کہ جماعت کا اپنا قائم کردہ ادارہ ہے سیرت، تفسیر، حدیث، عبادات، اصول و احکام دین اور قانون فقہ پر تو کتابیں چھاپتا ہے، تاریخ یا فلسفہ پر کوئی کتاب ان کے ہاں میسر نہیں”۔
آگے چل کر مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں
“اسی طرح مکتبہ خدام القرآن تنظیم کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور ان کے ہاں بھی اسرار احمد صاحب کی کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ قارئین کی سہولت کے لیے عرض ہے کہ جس خلافت کے خواب مودودی اور اسرار احمد دکھاتے رہے، وہ خلافت کی وہ شبیہہ تھی جو تاریخی طور پر کبھی بھی عملی شکل میں سامنے نہیں آئی”۔
ویلنٹائن ڈے کی خرافات اپنی جگہ، عالم یہ ہو گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنت اور ہولی کو بھی اس طرح منایا جاتا ہے جیسے یہ سارے دن مسلمانوں کے لئے (خدانخواستہ) اتنے ہی معتبر ہیں جتنے ہندومت میں ہیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھے کہ ایسا وہ مسلمان کرتے ہونگے جو ان پڑھ اور جاہل ہونگے تو معاملہ اس کے برعکس ہے اس لئے کہ پاکستان کے بہت ہی مقتدر افراد ان تقاریب میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی اس تقریب میں کچھ اس طرح شریک ہوتے ہیں جیسے وہ خود بھی ہندو ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ ان کی نیت (ان کی سوچ کے مطابق) مثبت ہی ہو اور ان کی خواہش ہو کہ ہمارے پاکستان میں بسنے والے ہندو ہم سے خوش رہیں۔ میں ایسے لوگوں کیلئے اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ بیشک پورے قرآن کو نہ پڑھیں صرف “سورۃ الکافرون” ہی کا مطالعہ کرلیں اور اس کے پس منظر میں جھانک لیں۔ اگر ایسا اسلام میں جائز ہوتا تو مکہ کے کافر مسلمانوں کے دشمن ہی کیوں بنتے۔ وہ بھی تو یہی چاہتے تھے کہ آپ ﷺ ان سے سمجھوتا کرلیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ تو آپ ﷺ کو اپنا سردار تک ماننے کیلئے تیار تھے اسی لئے فرمایا گیا کہ “تم کو تمہاری راہ مجھ کو میری راہ” ۔
کہنے کو تو یہ ملک، ملکِ خداداد کہلاتا ہے لیکن اس میں اللہ کی سننے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ ایک زمانہ تھا جب خبر کا ذریعہ اخبارات ہوتے تھے یا پھر پاکستان بننے کے 20 سال بعد ٹیلیویژن آیا جس کو PTV کہاجاتا ہے۔ دونوں ہی اتنی جکڑ بندیوں کا شکار تھے کہ لوگوں تک حقیقی خبریں پہنچتی ہی نہیں تھیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خبروں کی حقیقت تک پہنچنا ناممکن تھا لیکن یہ بات ضرور تھی کہ لوگوں تک وہ ساری بیہودگیاں، فحاشیاں، عریانیاں اور دین و مذہب سے باغیانہ باتیں بھی جو اب آزاد چینلوں کی باعث معاشرے میں عام ہوگئی ہیں اور جس کا پھیلاؤ نہایت برق رفتاری سے بڑھتا جارہا ہے، وہ اس پابندی کے دور میں کہیں سے کہیں تک بھی نہیں تھا۔ ایک جانب تو ہر وہ بات جو خلاف دین و مذہب ہے نہایت تیزی کے ساتھ عام ہوتی جارہی ہے دوسری جانب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ عوام الناس تک حقیقی خبریں پہنچا رہا ہے تو یہ بات بالکل غلط اور لغو ہے۔ خبروں کی اشاعت اب بھی بہت سارے مقتدر اداروں کی مٹھی میں ہے جیسی پہلے تھی البتہ خرافات پھیلانے پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی سرے سے ہے ہی نہیں۔ اسی لیئے موصوف ایک جگہ یوں لب کشا ہیں کہ
“اب چینل آزاد ہیں اور سوشل میڈیا اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ وہ ان خدائی ٹھیکیداروں کی احمقانہ باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا اور ان کے فتوے معاشرے میں بے حقیقت ہو کررہ گئے ہیں۔ جب میڈیا آزاد نہیں تھا اس وقت ان کے فتوں کے آگے کوئی سر اٹھا کر نہیں چل سکتا تھا”۔
اگر غور کریں تو یہ وہی طرز گفتگو ہے جس کا ذکر سورہ البقر میں ہے اور جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ “جب یہ اہل ایمان میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب یہ اپنے ساتھیوں میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ان کے (مسلمانوں) ساتھ مذاق کر رہے تھے”۔

(جاری ہے)

حصہ