مزاحمتی اصطلاحیں جموں و کشمیر کے تناظر میں

660

ہلال احمد تانترے
لسانیات کی دنیا اَن گنت لفظوں سے بھری پڑی ہے۔ ہر ایک زبان کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے، جو اُسے باقی زبانوں سے ممیز کر دیتی ہے۔ لسانیات انسانی دنیا کی تہذیب و تمدن کی غمازی بھی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر برِصغیر ہند و پاک کو اُردو سے جانا جاتا ہے، عرب دنیا کو عربی سے موسوم کیا جاتا ہے یورپ کو انگریزی کی نظر سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح سے کسی تہذیب کا معیار اِس پیمانے سے بھی جانا جاتا ہے کہ اُس کی لسانی چاشنی اور طویل العمری کا کیا حال ہے۔ یہ صورت حال تہذیبوں کے ساتھ ساتھ اقوام، قبائل، صوبوں اور جرگوں سے بھی وابسطہ ہے۔ ہر ایک انسان کو اس کی ایک مخصوص زبان سے ذہن کے اندر پرویا جارہا ہے۔
بعینہ یہی صورت حال دنیا کے اندر چل رہی مزاحمتی تحریکوں کے اندر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں کی زبان گو کہ باقی ملکوں میں بھی بولی جاتی ہے، لیکن مزاحمتی عمل کے دوران یہاں پر کچھ ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں یا کہیں خود معرض وجود میں آئے جاتے ہیں جن کا براہِ راست تعلق مزاحمتی عمل سے ہوتا ہے۔ ایسے الفاظ جو ایک خاص اصطلاحی نقطہ نگاہ سے دیکھے جاتے ہیںگو کہ لسانیات کی دنیا میں پہلے سے وجود میں آچکے ہوتے ہیں، لیکن اُن کا تعلق اُس زبان کے عام بول چال سے نہیں ہوتا، بلکہ ایک خاص مزاحمتی عمل سے ہوتا ہے۔ اِن اصطلاحات کی خصوصیت اس لحاظ سے بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ باقی ملکوں میں اِن کو استعمال کرنا گویا کسی بڑی مصیبت کی بات کرنے کے مترادف ہوتا ہے، لیکن مسلسل مزاحمت کے دوران یہاں اِن کا عام بول چال ہوتا ہے، کیوں کہ لوگوں کی زندگیاں اس سے ہر روز مسابقہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اگر فلسطین کے تنا ظر میں بات کی جائے تو وہاں پر انتفاضہ، نبلس، جبل النار، اولاد النار، غوث الزیتون، اطفال الہجرہ، مواجہات وغیر اصطلاحات کو مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم جموں و کشمیر کی مزاحمتی تحریک سے اخذ کردہ کچھ اصطلاحات کی بات کریں گے۔ ان اصطلاحا ت کو سمجھنا اُس ایک شخص کے لیے بھی ضروری ہے جو متعلقہ تحریک کے ساتھ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ کر کوئی دلچسپی رکھتا ہو۔ یہ فہرست حتمی نہیں ہے۔
۱۔ کال: کال (call) ایک انگریزی لفظ ہے جس کا مطلب کسی چیز کی طرف بلانا ہے۔ کشمیر میں اس لفظ کو مزاحمتی قیادت کی طرف سے کسی مزاحمتی عمل کی طرف بلانے کے معنیٰ میں بولاجاتا ہے۔ یہ کال کبھی ہڑتال کی طرف لوگوں کو اپیل کرتی ہے، کبھی احتجاج، کبھی ریلیف جمع کرنے، کبھی ریلی نکالنے، کبھی قنوت نازلہ کا اہتمام کرنے کے تناظر میں بولا جاتا ہے۔ اِس کال کا اثر اتنا ہوتا ہے کہ لوگوں کو صبح گھر سے نکلنے سے پہلے یہ معلوم کرنا پڑتا ہے کہ آیا آج کسی کی کال تو نہیں ہے۔ لوگ من و عن کال کی پابندی کرتے ہے، بلکہ بھارت کی پارلیمنٹ میں 2014ء میں ایک دفعہ اسد الدین اویسی نے اُس وقت کی کانگریس سرکار پر یہ طعنہ بھی دیا تھا کہ کشمیر میں اصل میں حکومت وہاں کی علٰحید گی پسند قیادت کر رہی ہے، کیوں کہ وہ لوگ جس دن ہڑتال کی کال دیتے ہیں، ہڑتال کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر ہڑتال کی کال اگر آدھے دن کی ہو، لوگ برابر آدھے دن کے بعد ہی اپنے اجتماعی کام کاج میں جیسے عبادت کی طرح منہمک ہو جاتے ہیں۔
۲۔ چلو: چلو کا مطلب لوگوں کو کسی خاص مقام کی طرف کسی خاص زماں میں جمع ہونے کے معنیٰ میں لیا جاتا ہے۔ مزاحمتی قائدین کی طرف سے اکثر اِس بلاوے کا اہتمام اُس وقت کیا جاتا ہے، جب کہیں کچھ غیر معمولی واقع رونما ہوا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کہیں کوئی بے گناہ شہری مارا گیا، کہیں کوئی عسکریت پسند جاں بحق ہو جاتا ہے، وغیرہ۔ 2008ء میں ’چلو‘ کی کال بہت مشہور و معروف ہوئی، جب آئے دن مزاحمتی قیادت کی طرف سے ’چلو‘ کی کال پر لوگوں نے بڑے موثر اندار میں اپنی شرکت متعلقہ مقاموں پر یقینی بناتے ہوئے حکومتی سطح پر براجمان لوگوںکے ہوش ہی اڑا دیے۔
۳۔ بندشیں: بندشین یعنیٰ restrictions اب جس دن ہڑتال، چلو یا احتجاج کی کال دی جاتی ہے، یہاں کی بھارت نواز انتظامیہ کو بندشیں لگانی پڑتی ہیں۔ بندشوں سے مطلب اُن علاقوں کی طرف لوگوں یا گاڑیوں کی آمدورفت پر پاپندی لگانا ہوتا ہے جہاں پر اُن کو احتجاج کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ مسجدوں اور عام قیام گاہوں پر علی الصباح پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری جمعیت بھیجی جاتی ہے، تاکہ لوگوں کو ایک جگہ نہ ملنے دیا جائے۔ خاردار تاریں، حکومتی فورسز کی بھاری تعداد اور بکتر بند گاڑیوں کو راستہ روکنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
۴۔ خشت بازی: اب جب کہ بندشیں لگائی جاتی ہیں اور عبور و مرور پر قدغنیں عائد کی جاتی ہیں، نوجوان اپنی اپنی گلیوں میں سے نکل کر جمع ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں پولیس اُن کا پیچھا کرتی ہیں اور یہ عمل مسلسل دن بھر چلتا رہتا ہے۔ اس عمل کو خشت بازی سے جانا جاتا ہے۔
۵۔ پتھرائو: پتھرائو کشمیر ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ایک شہرہ آفاق مزاحمتی عمل ہے، جس کو انگریزی میں stone pelting سے ترجمہ کیا جاتا ہے۔ اس کو کشمیری میں ’’کنئہ جنگ‘‘ یعنی پتھروں کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اب جب کہ خشت بازی کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے چلتا ہے اور لوگوں کو مساجد تک یا بازار تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی، تو نوجوانوں کو پتھرائو کا سہارا لینا پڑتا ہے یا اگر لوگوں کو پُرامن احتجاج کرنے سے جبراً روک دیا جاتا ہے، یا اگر پر امن احتجاج کرنے کے دوران شلنگ کی جاتی ہے۔ پتھروں کو ہاتھ میں لیے حکومتی فورسز پر پھینکا جاتا ہے۔ نوجوان پتھروں کو پھینکنے کے لیے غلیلوںکا بھی استعمال کرتے ہیں۔ پتھرائو کے مزاحمتی عمل میں نوجوانوں کے اندر ایک جنونی کیفیت کی شکل اختیار کی ہے۔ ایک پتھر پھینکنے سے جیسے نوجوان کے دل کی ساری بھڑاس نکل جاتی ہے۔ اور اب اگر اُس ایک پتھر سے کوئی فورسز اہل کار زخمی ہوجائے، تو یہ اس نوجوان کے لیے کسی عید سے کم نہیں ہے۔ پتھرائو کے عمل میں نوجوان کو ٹیکنیکی مہارت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ کیوں کہ حکومتی فورسز اپنے دفاع کے لیے ہر طرح کے سامان سے لیس ہوتی ہیں۔ اس طرح انہیں پتھرائو سے اُس حد تک پریشان کرنا کہ وہ اپنا راستہ ہی پیچھے کریں، یہ پتھرائو کے عمل میں ٹیکنیکی صلاحیتوں کی دَین ہوتی ہے۔ پتھر پھینکتے سمے پتھر کی جسامت اور خدو خال کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ پتھر ایسا ہونا چاہیے جو زمین پر گرنے کے باوجود بھی آگے کی طرف مار کرے۔ یہاں پر ایک عجیب صورت حال وقوع پزیر ہوجاتی ہے کہ جس گلی میں کچھ دیر پہلے کسی پتھر کا نام و نشان تک نہیں ہوتا، اچانک وہاں پر ڈھیر سارے پتھر جیسے زمین کے اندر سے اُگل آتے ہیں۔ نوجوان اس کو خدائی کرامت سے تعبیر کرتے ہیں۔
۶۔ ہوائی فائرنگ: ہوائی فائرنگ یعنی کہ لوگوں کو ڈرانے کی خاطر ہوا میں فائرنگ کرنا۔ گو کہ یہ حکومتی فورسز کا بہت پرانا حربہ ہے، لیکن کشمیر کی موجودہ مزاحمتی عمل میں اِس کا کوئی خاص اثر نہیں ہے۔ یہاں کے لوگ مزاحمتی عمل کے دوران اتنے سنگ دل ہو چکے ہیں کہ ہوائی فائرنگ سے کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔
۷۔ پیلٹ: ہوائی فائرنگ سے کچھ حاصل نہ ہونے کے بعد 2010ء سے بھارت نے ایک انسان کش ہتھیار استعمال میں لایا ہے، جس کو پیلٹ (pellets) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پیلٹ چھروں کی گولیاں ہوتی ہیں، جنہیں جنگلی جانوروں کا شکار کرتے وقت جانور کو زخمی کرنے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ بھارتی Standard Operations Procedure کے مطابق پیلٹ کے بندوق کا استعمال مظاہرین کے ٹانگوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ہی ہے، لیکن اکثر اِس مہلک ہتھیار کا استعمال براہِ راست مظاہرین کے چہروں کو ہدف بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، جس سے اکثر کی بینائی چلی جاتی ہے۔ 2016ء میں انشاء مشتاق ایک 14 سالہ ننھی کلی کا اپنی بینائی سے پوری طرح محروم ہو جانا اس مہلک ہتھیار کی سب سے بڑی مثال ہے۔
۸۔ کرفیو: کرفیو کا لغوی مطلب ’آگ کا پردہ‘ ہے۔ یہاں اِس کا مطلب اُس ایک سرکاری اہتمام سے ہے، جس میں لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ چناںچہ جب حکام کے لیے صورت حال آپے سے باہر ہو جاتی ہے، فورسز مختلف ذرائع سے اعلانات کر دیتی ہے کہ لوگوں کو ایک مخصوص وقت کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ یوں مکینوں کو اپنے ہی گھروں میں مقید کر دیا جاتاہے۔ 2016ء کی ایجی ٹیشن میں یہ صورت حال بدستوں کئی ایک مہینوں تک پورے کشمیر پر مسلط کر دی گئی۔
۹۔ نیٹ بندی: آج کی دنیا میں مظلوم انسان اپنی آس و صدائیں کئی ایک ذرائع سے لگا دیتا ہے۔ اِ ن میں انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کا خاصا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک دوسرے تک بہت ہی کم وقت میں انفار میشن ویڈیوز و آڈیوز کی صورت بھیجنے کا ایک مفید آلہ کار ثابت ہو رہا ہے۔ اب جب کہ مزاحمت کے دوران اس آلہ کا مفید سے مفید تر استعمال کیا جاسکتا ہے، یہ صورت حال حکومت کے لیے ایک بڑی مشکل کے طور پر ثابت ہو تا ہے۔ اس طرح سے مواصلاتی کمپنیوں سے کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ کی سروس کو معطل کیا جائے۔ اس طرح سے اسے اِی کرفیو (e-curfew) سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
۱۰۔ سول کرفیو: سول کرفیو کا استعمال بھی مزاحمت کے دوران کیا جاتا ہے۔ لوگ خود گھروں سے باہر نکل نہیں آرہے ہیں۔ یوں یہ صورت حال مظلومانِ کشمیر کی آواز کا باقی دنیا تک پہنچانے کا ایک اور ذریعہ ثابت ہو تا ہے۔
۱۱۔ شبانہ احتجاج: لوگوں کو جب دن میں احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، تو شبانہ احتجاجوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
۱۲۔ کریک ڈائون: کریک ڈائون کا لفظی مطلب کسی کو نیچے دبانا ہے۔ حکومتی فورسز کو جب کہیں خدشہ ہو جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے کسی خاص مقام پر پناہ لی ہے، تو اس علاقے کے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ سبھی ایک جگہ جمع ہو جائیں، یو ں فورسز کو عسکریت پسند ڈھونڈنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔
۱۳۔ شناختی پریڈ: کریک ڈائون کے دوران ہر کسی کا شناختی پریڈ کیا جاتا ہے۔ شناختی پریڈ اُس ایک مخصوص عمل کا نام ہے جس میں بھارتی فورسز ہر کسی کے شناختی دستاویز کی تفتیش کر تے ہیں، کبھی کبھار کپڑے بھی اتار دیے جاتے ہیں، کہ کہیں ہتھیار کپڑوں کے اندر چھپایا نہ گیا ہو۔ یہ ہر کشمیری کے لیے ایک اذیت ناک عمل ہوتا ہے، کیوں کہ جب اپنے ہی گھر میں کسی سے اُس کی شناخت پوچھ لی جائے، تو یہ کسی نفسانی ہنگامہ آرائی سے کم نہیں ہوتا ہے۔ اس عمل کا نفاذ کریک ڈائون کے علاوہ کہیں پر بھی ہو سکتا ہے۔ گاڑیوں میں، اسکولوں میں، راستے میں، بازاروں میں، وغیرہ۔
۱۴۔ انکائونٹر: جب عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز کے درمیاں کہیں مدبھیڑ ہو جاتی ہے، تو اسے انکائونٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج کل یہ عمل کشمیر میں ایک شدت اختیار کر چکی ہے، کیوں کہ نوجوان اپنے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑوں کا انبار دیکھ کر عسکریت کی راہ اختیار کر رہے ہیں۔
۱۵۔ کراس فائر نگ: عسکریت پسندوں اور حکومتی فورسز کے درمیان جب جھڑپ شروع ہو جاتی ہے تو کئی ایک مرتبہ بیچ میں عام شہریوں کو نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ یوں اُس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ مذکورہ شخص کراس فائرنگ میں مر گیا۔ کراس فائرنگ سے یوں مراد دونوں جانب سے فائرنگ کے تبادلے میں ایک بے گناہ شہری کا لقمہ اجل بن جانا ہے۔
۱۶۔ اُس پار: مملکت خداداد، پاکستان کا نام یہاں پر عام حالات میں بھی لینا ممنوع ہے۔ اس طرح سے پاکستان کا نام براہِ راست لینے کے بجائے ’اُس پار‘ کا لفظ استعمال میں کیا جاتا ہے۔ ’اُس پار‘ کے لفظ کا استعمال کرتے ہی ہر کوئی سمجھ جاتا ہے کہ اِس سے کیا مراد ہے۔
اس ساری صورت حال کے باوجود یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ کشمیر کے لوگ پھر بھی اپنی زندگی پوری آن و بان کے ساتھ جی رہے ہیں۔ یہاں کے ہر کسی شہری کے پاس کم سے کم روٹی کپڑا اور مکان کی سہولیت میسر ہے۔ کوئی بھوکا نہیں مرسکتا۔ بھارت کے باقی حصوں کی طرح یہاں کوئی بے گھر نہیں ہے۔ لوگ اپنا کاروبار بحمدللہ کررہے ہیں۔ کشمیری لوگوں کے اِس دگرگوں کے صورت حال کے باوجود چاق و چوبند و تندرست رہنے پر بھارت کے ایک ٹی وی اینکر نے کہا تھا کہ ’ایسی صورت حال میں کیسے کشمیریوں کے گال لال لال ہوتے ہیں‘، جس پر انہیں خاصی ہزیمت کا سامنا کر نا پڑا۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ اِس بات پر بھی تحقیق کی جائے، شاید کوئی پسِ پردہ انہیں من و سلوٰی تو پہنچا نہیں رہا ہے۔ اصل میں یہ اللہ تعالیٰ کی کسی کرامت سے کم نہیں ہے کہ جب لوگ اپنے حق کے لیے لڑیں، انصاف کی علم کو بلند کرنے کے لیے قربانیاں دے دیں، الٰہی فرمودات کو زمیں پر نافذ کرنے کی سعی کریں تو بالکل واضح طور اُس کی مدد آن پہنچ جاتی ہے، جس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی عقل سے ماورا ہوتی ہے۔

حصہ