دہری شہریت اور کالے انگریز

304

سید اقبال چشتی
ہمارے بہت اچھے دوست نے جو مستقل طور پر امریکا منتقل ہوگئے تھے، ایک سرکاری نوکری حاصل کرنے کا واقعہ سنایا کہ نیویارک پولیس میں ملازمت کا اشتہار پڑھا تو دل میں آیا کہ کیوں ناں پولیس اور وہ بھی سرکاری ملازمت کے لیے قسمت آزمائی کی جائے۔ درخواست دینے کے تقریباً پندرہ دن بعد انٹرویو کے لیے بلاوا آگیا، وقتِ مقررہ پر نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ کے دفتر پہنچ گئے۔ اپنی باری پر انٹرویو والے کمرے میں داخل ہوئے۔ وہاں موجود افسران نے جو آخری سوال کیا وہ دہری شہریت کے حوالے سے تھا کہ آپ دہری شہریت تو نہیں رکھتے؟ دوست نے کہا کہ میں پاکستان کے حوالے سے تمام شناخت ختم کرچکا ہوں اور اب میں امریکی قانون کا وفادار اور شہری ہوں۔ اس پر ایک آفیسر نے کہا کہ ہم تحقیقات کریں گے۔ دوست کہتے ہیں کہ ایک مہینے کے بعد دوسرے انٹرویو کا لیٹر ملا اور انٹرویو کے دوران بتایا گیا کہ آپ واقعی صرف امریکی شہریت رکھتے ہیں، آپ کو نیویارک پولیس ڈپارٹمنٹ میں ملازمت مبارک ہو۔
یہ امریکا کا ایک ادارہ ہے جہاں ملازمت کے لیے دور تک سوچ رکھنے والے افراد نے اپنے ملک کو پہلی ترجیح دی اور صاف بتادیا کہ دہری شہریت قانوناً جرم ہے، اور اگر دہری شہریت ہے بھی تو آپ کو سرکاری ملازمت نہیں مل سکتی۔ لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر ادارے میں سرکاری ملازمت رکھنے والے گریڈ 17 تا 21کے اعلیٰ افسران درجنوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق وزارتِ داخلہ کے اہم اور حساس عہدوں پر دہری شہریت رکھنے والے اعلیٰ افسران کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یعنی جب جونکیں سارا خون چوس چکی ہیں تب ہمیں اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا ہے۔ خیر دیر سے آئے درست آئے کے مصداق جو فیصلہ ہوا ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے یا نہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں سیاست بھی باہر بیٹھ کر ہوتی ہے۔ شوکت عزیز کی طرح جس کے پاس ملک کا شناختی کارڈ بھی نہ ہو وہ پاکستان کا وزیراعظم بن جاتا ہے۔
جب سے سپریم کورٹ نے دہری شہریت والے سرکاری افسران کی فہرست حکومت سے مانگی ہے، اب تک کئی اہم اور حساس نوعیت کے اداروں میں جہاں دہری شہریت رکھنے والے اعلیٰ افسران کے نام سامنے آئے ہیں وہیں یہ بھی خبر پڑھنے کو ملی کہ ان افسران میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ نادرا جیسا ادارہ جہاں پورے پاکستان کا ڈیٹا ہوتا ہے، اس حساس ترین معلومات رکھنے والے ادارے میں درجن بھر گریڈ 17 اور اس سے اُوپر کے افسران دہری شہریت کے حامل ہیں۔ اندازہ لگایئے جن افسران نے نئے یا مدت پوری ہونے والے شناختی کارڈ کو renew کرانے کی کڑی شرائط رکھی ہیں، وہ اپنے ہی ملک کے شہریوں سے ملک کے شہری ہونے کا ثبوت مانگتے ہیں اور ہر دستاویز دکھانے کے باوجود پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کے حصول کے لیے تنگ کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ دادا کا شناختی کارڈ مانگا جاتا ہے۔ یعنی کرپشن کے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں۔ یہ کھیل کالے انگریز اور دہری شہریت والے افسران کے بنائے گئے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کرپشن کی منڈی ہے، جتنا چاہو اسے لوٹ لو اور ملک سے باہر جائدا د بنائو، کیونکہ یہ ملک بنا ہی لوٹ مار کے لیے ہے… اور یہ جھوٹ بھی نہیں ہے۔ صرف دبئی میں 14 ہزار پاکستانیوں کی اربوں ڈالر کی جائدادیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ اس کے علاوہ فرانس، امریکا اور برطانیہ میں پاکستانیوں کی جائدادیں الگ ہیں۔ ملک سے باہر جائدادیں بنانے والوں میں بیورو کریٹس، جنرل، جج اور سیاست دان، سبھی شامل ہیں۔ پاکستان کی سیاست کی نشانیاں یورپ اور امریکا میں ہر جگہ نظر آئیں گی، کیونکہ جب تک یہاں اقتدار ہے ملک بہت اچھا ہے… اور جہاں اقتدار ختم، ملک کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ اس لیے اہلِ اقتدار اور اعلیٰ سرکاری افسران فراغت کے بعد ملک سے باہر جا بستے ہیں۔ اس فہرست میں جنرل پرویزمشرف ہوں یا شوکت عزیز، یا پھر باہر بیٹھ کر ملک بالخصوص کراچی کا بیڑا غرق کرنے والے سیاسی لوگ ہوں، یا الطاف حسین… سب کی خواہش ہے کہ عوام ان کو ایک بار پھر موقع دیں۔
الطاف حسین مہاجروں کی قسمت بدلنے کا نعرہ لگاکر آئے، لیکن جن مہاجروں کے لیے وہ آنسو بہایا کرتے تھے انہیں چھوڑ کر برطانوی شہریت اختیار کرلی اور حلف اٹھالیا کہ میں ملکۂ برطانیہ کا وفادار رہوں گا۔ قائد تحریک اپنی قسمت تو بدل لیتے ہیں لیکن جس کراچی کی بنیاد پر وہ اس مقام پر پہنچے اُسے آگ اور خون کی نذر کردیتے ہیں۔ کراچی میں جس طرح انسانوں کا قتل عام کیا گیا اور انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا اُس کی نظیر کسی اور ملک میں ملنا مشکل ہے۔ انسانی حقوق اس ملک میں کیوں نہ پامال ہوں جہاں سیکریٹری انسانی حقوق بھی دہری شہریت رکھنے والی شخصیت ہو! کیونکہ یہاں حلف اُٹھایا جاتا ہے مال بنانے اور کھانے کا… وفاداری صرف دوسری شہریت والے ملک سے کی جاتی ہے۔ ملک اور عوام مرتے ہیں تو مرجائیں، ان افسران کی بلا سے… ان کی تو قسمت بدل گئی… اور جب چاہیں یہاں سے نکل جائیں گے۔ ان اعلیٰ افسران کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ کھاتے پاکستان کا ہیں اور گاتے باہر کا ہیں۔ کیوں نہ گائیں، اپنے آقائوں کی وفاداری کا حلف جو لے رکھا ہوتا ہے۔ شعبہ تعلیم اُٹھا لیں یا شعبہ صحت… بلدیاتی ادارے دیکھ لیں یا پھر خارجہ و داخلہ کے محکمے، پاکستان ہر شعبے میں سو سال پیچھے نظر آئے گا۔ اس کی وجہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا قائم نہ ہونا ہے۔ اور اس کے ذمے دار پاکستان کے اپنے ادارے اور ان میں موجود کرپٹ افسران ہیں۔ اسی لیے یہاں کرپشن کا بازار لگا رہتا ہے۔ 20گریڈ کا ایک پروفیسر پرانی گاڑی میں یونیورسٹی آتا جاتا ہے، جو تیس پینتیس سال کے بعد بھی اپنا گھر نہیں بنا پاتا، لیکن حساس اداروں سے لے کر اہم اداروں تک کے اعلیٰ افسران ملک اور ملک سے باہر کروڑوں، اربوں کی جائداد کے مالک ہوتے ہیں، اور جیسے ہی ملازمت ختم، ملک سے یہ جا وہ جا…
ملک کو پیرس اور لندن بنانے کی باتیں کرنے والے باہر سے آکر ملک کی اسمبلیوں اور سینیٹ کے رکن بن سکتے ہیں۔ ابھی حالیہ سینیٹ الیکشن میں منتخب ہونے والے ارکان جن کے نام اخبارات میں بھی شائع ہوئے، پہلے ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک لیا گیا مگر بعد میں ان دہری شہریت والے ارکانِ سینیٹ کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ اس دہری پالیسی کا نتیجہ پورے پاکستان نے دیکھا کہ سینیٹ الیکشن میں کیا ہوا۔ کرپشن کے بازار میں ارکان کی بولیاں لگیں، وفاداریاں تبدیل ہوئیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ جن کا نظریہ ملک اور قوم کو ترقی دینا نہیں بلکہ مال بنانا ہو، وہ کیوں ایسی قانون سازی کریں گے جس سے کرپٹ عناصر کا راستہ رکتا ہو؟ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس ملک سے انگریز تو چلا گیا لیکن اپنے وفادار کالے انگریز چھوڑ گیا۔ یہ کالے انگریز ہی ہیں جو اس ملک کو آگے کی طرف لے جانے کے بجائے پیچھے لے جاتے ہیں۔ ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، محرومیاں ہی محرومیاں نظر آئیں گی۔ اس میں قصور پاکستان کے عوام کا بھی ہے جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے بعد بھی اُن ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور پھر اس کا انجام بھی خود ہی بھگتتے ہیں۔
ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جہاں دریا، سمندر، صحرا، پہاڑ اور تین موسم اس ملک کو اللہ کی توفیق سے میسر آتے ہیں، لیکن کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے ستّر سال بعد بھی محرومیاں عوام کا مقدر ہیں۔ اگر ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے دہری شہریت والے سرکاری افسران کے خلاف ایکشن لیا ہے تو اس کا کوئی منطقی نتیجہ بھی سامنے آنا چاہیے۔ ملک کے وزیروں، مشیروں، عدلیہ کے ججوں اور ملک کے تمام اداروں کے اعلیٰ افسران کے، ریٹائرمنٹ کے بعد، ملک سے باہر جانے پر پانچ سے دس سال کی پابندی ہی لگا دی جائے تو پاکستان کے تمام اداروں کے افسران اپنے آج اور کل کے لیے کام کریں گے، کیونکہ جب ان کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہوگا تو ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے کام کریں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور کوئی قانون سامنے نہ آیا تو جس طرح کالے انگریزوں نے ملک اور قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے، اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ عدلیہ نے نوٹس لیا ہے تو فہرستیں بھی تیار ہورہی ہیں اور کسی دوسرے ملک سے وفاداری رکھنے والوں کو ہٹایا بھی جارہا ہے۔ لیکن صرف ہٹانے سے معاملات درست نہیں ہوں گے، اس حوالے سے عدلیہ ایسا فیصلہ سنائے کہ کسی کو اپنے ملک سے غداری کرنے کی جرأت نہ ہو، کیونکہ یہ ملک سے وفاداری کا معاملہ ہے ۔

حصہ