ایک چراغ اور گل ہوگیا

630

جاوید احمد خان
یہ1970کی بات ہے جب پورے ملک میں انتخابی مہم زور شور سے جاری تھی ۔جماعت اسلامی کی انتخابی مہم بڑے موثر انداز میں چل رہی تھی بڑی تعداد میں عوام جماعت کے ساتھ آرہے تھے ۔اس کا ثبوت 31مئی 1970کا یوم شوکت اسلام تھا جس میں ہر چھوٹے بڑے شہروں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے تھے ۔اس شوکت اسلام نے مخالفین کو سہما دیا اور ہر طرف یہ چرچا ہونے لگا اب جماعت اسلامی کی کامیابی یقینی ہے اور بالخصوص ملک کے سرمایہ دار طبقوں میں بہت زیادہ کھلبلی مچ گئی انھوں نے جماعت اسلامی کے خلاف سازشوں کے جال بننے شروع کردیے اور وہ اس طرح کے ملک کے مذہبی عناصر کو جماعت کے مد مقابل لا کر کھڑا کردیا ،دیو بندی علمائء تو پہلے ہی محاذ کھولے ہوئے تھے یوم شوکت اسلام کے بعد ملک کے سرمایہ داروں نے سکرنڈ میں میں پورے ملک سے بریلوی مکتبہ فکر کے علماء حضرات کا ایک اجلاس بلایا اور جمعیت علمائے پاکستان کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی اور پھر اس تنظیم نے بریلوی مسلک کی بنیاد پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا چونکہ جماعت اسلامی میں بریلوی مکتبہ فکر سے وابستہ لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہو رہی تھی ان کو روکنے کے لیے یہ پلیٹ فارم بنایا گیا تھا دیو بندی علماء حضرات تو پہلے ہی منبر و محراب سے جماعت کی شدید مخالفت کررہے تھے اور اب اس کے بعدبریلوی مساجد سے بھی جماعت اسلامی کی مخالفت ہونے لگی ۔
ہمارے محلے میں دیوبندی مکتبہ فکر کی ایک مسجد تھی جس میں ایک عالم جناب مولانا محمد حسین صاحب ہر جمعہ کو اپنی تقریر میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کا نام لے کر شدت سے مخالفت کرتے تھے اور یہاں ہی نہیں پورے ملک میں ہر جگہ یہ ہورہاتھا ۔یہ واقعہ مجھے ہمارے حلقے کے ایک مرحوم تحریکی ساتھی جناب اسلام اللہ صاحب نے سنایا تھا کہ مولانا محمد حسین صاحب جو ہر جمعہ کو جماعت کی مخالفت میں شدت سے تقریر کرتے تھے دلچسپ بات یہ تھی ان کے چار بیٹے تھے اور وہ چاروں جماعت اسلامی کی انتخابی مہم میں بڑے متحرک تھے اور پروفیسر غفور صاحب کے لیے کام کررہے تھے ۔جماعت کے ساتھیوں نے ان کے بیٹوں سے کہا کہ بھئی آپ اپنے والد صاحب کو کچھ سمجھائیں انتخابات کا زمانہ ہے اس سے ایک غلط تاثر جارہا ہے۔ بیٹوں نے کہا ہم خود پریشان اور فکر مند ہیں بہرحال کچھ کرتے ہیں ۔بیٹوں میں سے کسی کی یہ ہمت تو نہ تھی براہ راست اپنے والد سے اس مسئلے پر بات کرتے انھوں نے یہ ترکیب نکالی کہ ابا کے کچھ قریبی دوستوں سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ آپ ابا جی کو سمجھایے کہ ہم لوگ جماعت اسلامی کا کام کرتے ہیں اور ہمیں اپنے جماعت کے ساتھیوں کے سامنے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایسی تقریریں نہ کریں ،بہر حال ان کی کوششیں رنگ لائیں اور تقریر کا یہ سلسلہ رک گیا ۔
دوسرا بڑا دلچسپ واقعہ ان کے بڑے بیٹے نے خود مجھے سنایا کہ والد صاحب جماعت کے شدید مخالف ہیں میں نے سوچا کہ اگر یہ کسی طرح جماعت میں آجائیں تو پھر اتنی ہی شدت سے حمایت بھی کریں گے ۔میں نے یہ ترکیب نکالی کہ والد صاحب کے ایک قریبی دوست کو رسالہ ترجمان القران دینا شروع کیا اور ان سے کہا آپ اسے پڑھ کر کسی طرح ابا جی کو پڑھوادیا کریں اور یہ کوشش کریں اس میں شائع ہونے والے مضامین پر کوئی گفتگو یا بحث و مباحثہ ہوجائے تو زیادہ اچھا ہے ۔بڑے بیٹے بتاتے ہیں یہ سلسلہ کافی دن تک چلتا رہا ایک دفعہ والد صاحب کے دوست نے مجھے بتایا کہ اس دفعہ کے رسالے میں کوئی مضمون شائع ہوا ہے جس کے بارے میں تمھارے والد صاحب کہہ رہے تھے اس میں مولانا مودودی نے جو حوالہ جات دیے ہیں وہ غلط ہیں یا اسی طرح کی کوئی ملتی جلتی غلطی تھی اس کی تفصیل یاد نہیں ہے ،یہاں یہ بتاتے چلیں کہ مولانا محمد حسین صاحب وسیع المطالعہ اور قابل عالم دین تھے لیاقت آباد مارکیٹ میں ان کی کپڑوں کی دکان تھی ۔ان کے بڑے بیٹے بتاتے ہیں کہ میں نے والد صاحب کے دوست سے کہا کہ آپ ابا جی کو کہیں کہ وہ مولانا مودودی کو ایک خط لکھ کر اس غلطی کی نشاندہی کردیں۔چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا کہ والد صاحب سے کہا آپ جس غلطی کی نشاندہی کررہیں اس پر مولانا مودودی کو خط لکھ دیں دیکھیں وہ کیا جواب دیتے ہیں والد صاحب نے ایسا ہی کیا کہ مولانا مودودی کو اس حوالے سے خط لکھ دیا۔
کچھ دنوں بعد مولانا مودودی کا جواب آیا اور انھوں نے لکھا کہ آپ نے ہماری جس غلطی کی نشاندہی کی ہے وہ درست ہے اور آپ کی بات ٹھیک ہے اس کے لیے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہو ں اور اگلے شمارے میں آپ کے حوالے سے اس کی تصیح شائع ہو جائے گی ۔بس یہ مولانا مودودی کا دو لائن کا کیا خط آیا کہ اس نے کایا پلٹ دی وہ جو مولانا مودودی کے شدید مخالف تھے وہ اتنے ہی شدید ان کے حامی بن گئے ۔اور اس بات کا تو میں خود بھی شاہد ہوں کہ میں شریف آباد کی مسجد جامع الصفاء میں جمعہ کی نماز پڑھنے جایا کرتا تھا اور وہاں مولانا محمد حسین صاحب کی تقریر ہوتی تھی وہ تقریر کیا یوں سمجھ لیجئے کہ جماعت اسلامی کی پوری دعوت ہوتی تھی اس ہفتے کسی اشو پر جماعت کی طرف سے کوئی بیان یا مولانا مودودی کا کسی موضوع پر اخباری بیان شائع ہوتا تو وہ مولانا محمد حسین صاحب کی تقریر کا عنوان ہوتا وہ باقاعدہ جماعت اسلامی کا نام لے کر پرجوش تقریر کیا کرتے اور ہم دل میں ڈرتے رہتے تھے کہ کوئی صاحب اٹھ کر یہ نہ کہنے لگیں کہ آپ نے کیا مسجد کو سیاست کا اکھاڑا بنا رکھا ہے ۔لیکن کمیٹی بھی اس وقت اپنے ہی لوگوں پر مشتمل تھی اس لیے ایسا کوئی واقعہ ہو نہیں سکتا تھا ۔ان کی تقریر کا یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا پھر مولانا صاحب کا انتقال ہو گیا اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین
مولانا محمد حسین صاحب کے جن بڑے بیٹے کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ رکن جماعت جناب حافظ ادریس صاحب تھے جن کا 2مارچ بروز جمعہ کی شام کو انتقال ہو گیا نارتھ کراچی کے سٹی ہوم جہاں ان کی رہائش تھی کی مسجد میں رات دس بجے نماز جنازہ ہوئی اور منگھو پیر کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا وہ طویل عرصے سے بیمار تھے انتقال سے قبل تقریباَایک ہفتے تک وہ سرجانی کے فاطمہ ہسپتال کے آئی سی یو میں رہے ۔ حافظ ادریس صاحب رکن جماعت اور لیاقت آباد کے ایک حلقے کے ناظم تھے‘ وہ اپنے والدہ صاحب کا مدرسہ چلاتے تھے اور بچوں کو عربی پڑھانے گھروں کو بھی جایا کرتے تھے۔ حافظ ادریس صاحب بہت ہنس مکھ اور شگفتہ مزاج طبیعت کے مالک تھے اجتماعات میں بروقت شریک ہوتے تھے‘ درس قرآن بھی دیا کرتے تھے۔ 2005 میں ایک واقہ ہوا کہ ہماری ایک خاتون کونسلر نے فون کیا کہ ہمارے گھر قربانی ہوئی ہے گھر پر کھال رکھی ہے آپ آکر لے جائیں ہم کسی کو نہیں بھیج سکتے باہر ایم کیو ایم کے لڑکے گھوم رہے ہیں۔ قریب ہی اس حلقے کا کھالوں کا مرکز تھا جہاں حافظ ادریس صاحب تھے وہ ایک کارکن کو ساتھ لے کر ان کے گھر گئے اور کھال لے کر باہر آئے تو گلی کے کونے پر ایم کیو ایم کے کارکن نے ان کی کنپٹی پر ریوالور رکھتے ہوئے کہا کہ کھال ہمیں دو ورنہ گولی چلا دوں گا۔ انہوں نے جب کھال دینے سے انکار کیا تو اس نے ہوائی فائر کیا جس سے علاقے میں دہشت پھیل گئی اور کھال چھین کر لے گئے۔ ہم نے حافظ ادریس صاحب سے کہا کہ چلیے تھانے میں رپورٹ درج کراتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہاں کچھ نہیں ہوگا‘ رپورٹ لکھانا بے سود ہے اور میر اجوان بچوںکا ساتھ ہے اس لیے میں تھانے نہیں جائوںگا۔
ہم نے پھر اپنی طرف سے تھانے میں واقعے کی اطلاع تحریری طور پر جمع کروادی۔ تھوڑی دیر بعد جب ہم تھانے گئے اور ایس ایچ او سے اپنی درخواست کے سلسلے میں معلوم کیا کہ آپ نے کیا کارروائی کی تو اس نے مجھے دو تحریریں دکھائی ایک تو انہی خاتون کونسلر کی تھی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہمارے یہاں آج کوئی قربانی ہی نہیں ہوئی۔ ہم بڑے حیران ہوئے‘ دوسری تحریر ایم کیو ایم کے یونٹ انچارج کی طرف سے تھی جس میں ہمارے کچھ کارکنان کے خلاف شکایت کی گئی تھی کہ جماعت اسلامی کے ان کارکنان نے ہمارے ایک کارکن سے کھال چھینی ہے۔ پھر ایس ایچ او نے کہا کہ آپ اس معاملے کو یہیں ختم کر دیں کیونکہ اگر آپ کی درخواست پر کارروائی کریں گے تو ہمیں ان لوگوں کی درخواست پر بھی کارروائی کرنی ہوگی۔ مجبوراً ہمیں بے نیل و مرام واپس آنا پڑا۔
حافظ ادریس صاحب 2006 میں نارتھ کراچی شفٹ ہوگئے ۔ یہاں جس مکان میں تھے وہ وراثت میں تقسیم ہوگیا یہاں سے جانے کے بعد حافظ صاحب سے رابطہ کم ہوگیا پھر وہ بیمار بھی پڑ گئے‘ اپنی بیماری اور دیگر مصروفیات کے باعث نارتھ کراچی کے نظم سے بھی ان کا رابطہ قائم نہ ہوسکا۔ لیاقت آباد میں رکن جماعت حافظ ارشاد سے ان کا رابطہ تھا۔ غریب آباد کے دیرینہ رکن جماعت مرحوم سخاوت صاحب کے بیٹے سے حافظ ادریس صاحب کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی اس حوالے سے بھی ان کا اسحاق آباد میں حافظ ارشاد صاحب کی دکان پر آنا جانا رہتا تھا۔ حافظ ادریس صاحب نے سوگواران میں ایک بیوی‘ ایک بیٹی اور پانچ بیٹے محمد اقدام‘ محمد اکرام‘محمد انعام‘ محمد عدنان‘ محمد عمران ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حافظ ادریس صاحب کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔

سید یوسف بادشاہ حسینی

عبدالمالک قمر
سید یوسف بادشاہ حسینی کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ان کے انتقال کی خبر ملی تو یقین نہیں آرہا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ردِعمل ظاہر کروں۔ بہرحال موت ایک حقیقت ہے کہ اس سے کسی کو مفر نہیں اس لیے صبر کیا اور کیا کرسکتے ہیں۔سید یوسف بادشاہ حسینی یکم فروری 2018 کو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب جدہ میں انتقال کر گئے‘ جمعے کی صبح بعد نماز فجر حرم مکی میں نمازِ جنازہ اور جنت معلیٰ میں تدفین عمل میں آئی۔ یوسف بادشاہ حسینی 12 نومبر 1927ء کو بھارت کے شہر حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے یہ وہ شہر ہے جہاں مفکر اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودی پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک کے بعد کراچی آگئے جہاں نیو کراچی کے علاقے میں رہائش اختیار کی اور پوسٹ آفس میں ملازمت مل گئی۔ جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کا مطالعہ کر چکے تھے اس لیے 1953ء میں جماعت اسلامی کے کارکن بن گئے۔ جماعت اسلامی نیو کراچی کے کافی عرصے تک ناظم اعلیٰ رہے۔ 1985ء میں ملازمت سے فارغ ہو کر رکن بنے۔ بحیثیت ناظم اعلیٰ نیو کراچی آپ کی خدمات مثالی ہیں۔
سید یوسف بادشاہ حسینی بتاتے تھے کہ 11-D نیو کراچی میں پہلا مکان تیار ہوا‘ 22 نومبر 1962ء کو شام سات بجے اس مکان کی چابی فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھ سے مولانا عبدالغفور صاحب کو دلوائی۔ یوسف بادشاہ حسینی نیو کراچی آباد کاری بورڈ کے سربراہ تھے آپ کی قرعہ اندازی کے ذریعے مکان کی چابی مولانا عبدالغفور صاحب کو ملی۔ ایوب خان نے حسینی صاحب سے اصرار کیا کہ آپ ایک سے زیادہ پرچیاں لے لیں لیکن اللہ کے اس نیک بندے نے اپنے حق سے زیادہ لینے سے انکار کر دیا۔ یوسف بادشاہ حسینی صاحب کی زبان پر یہ شعرا اکثر رہتا تھا:

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں کردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

جماعت اسلامی کے ناظم اعلیٰ کے طور پر کئی نامور رکن بنائے ان میں قمرالاسلام صاحب بعد میں نیو کراچی کے ناظم اعلیٰ بنے۔ ایک اور قابل ذکر نام ڈاکٹر زاہد حسین کا ہے جو اب امیر تحریک اسلامی پاکستان ہیں۔
قاضی حسین احمد صاحب کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے 1994ء میں جلیل خان صاحب نے تحریک اسلامی بنائی۔ پہلے یہ فکرِ مودودی تھی بعد میں تحریک اسلامی بنی۔ اس میں ڈاکٹر اطہر قریشی سابق ایم پی اے‘ اسلام الدین شیخ‘ ڈاکٹر زاہد حسین‘ ڈاکٹر اختر حسین‘ قمر الاسلام اور سید یوسف بادشاہ حسینی شامل تھے۔ جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق کوئی شخص جمات اسلامی کا رکن رہتے ہوئے کسی اور جماعت کا رکن نہیں ہو سکتا۔ خیر یوسف بادشاہ حسینی تحریک اسلامی کے رکن تو نہیں بنے لیکن ہمدردیاں تحریک اسلامی کے ساتھ بھی تھیں۔
جناب ممتاز سہتو صاحب نے چھ دیگر افراد کے ساتھ ان کو جماعت سے فارغ کر دیا۔ شوکاز کے جواب میں حسینی صاحب کا مؤقف تھا کہ میں اس ضعیفی میں کسی اور جماعت میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن وہ بھی میرے بچے ہیں‘ میرے لوگ ہیں‘ ان سے تعلقات بھی نہیں توڑ سکتا بہرحال آپ کے حکم کا تابعدار ہوں۔ نعمت اللہ خان امیر جماعت اسلامی کراچی نے آپ سے نظر ثانی کی درخواست کی مگر بات نہیں بنی۔ پھر مرحوم قاضی حسین احمد خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ کچھ بھی ہو میں آپ کو جماعت نہیں چھوڑنے دوں گا‘ چاہے مجھے جِماعت سے سبکدوش ہونا پڑے۔ آپ جیسے بزرگ ہمارا سرمایہ ہیں۔ آپ کو کہیں جانے نہیں دیں گے۔ دونوں بزرگ آبدیدہ ہو گئے اور گلے ملے… یوں جماعت میں رکنے پر قائل کرلیا۔ اب دونوں بزرگ اپنے رب کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اطہر قریشی اور یوسف بادشاہ حسینی کے ساتھ سفر کے چند ایک مواقع ملے‘ دونوں بزرگ انتہائی شفیق اور پیار کرنے والے تھے۔
ایک دل چسپ واقعہ یاد آرہا ہے کہ شادی کی ایک تقریب میں سید یوسف بادشاہ حسینی سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ اس تقریب میں سید منور حسن بھی موجود تھے جو اس وقت جماعت کے جنرل سیکرٹری تھے۔ منور صاحب سے سامنا ہوا تو انہوں نے ازراہِ تفنن یوسف حسین صاحب سے پوچھا کہ ’’آغا حسینی آپ نے کب سے سوٹ پہننا شروع کیا؟‘‘ حسینی صاحب نے برجستہ جواب دیا ’’جب سے آپ قیم سے جنرل سیکرٹری بنے ہیں۔
میں 2006ء میں ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم تھا۔ گھر سے فون آیا کہ بڑی بیٹی کے لیے رشتہ آیا ہے آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے فوراً کہا کہ لڑکے والوں کی یوسف بادشاہ حسینی سے نشست کروا دو۔ میرے بھائی نے میری بات یوسف بادشاہ حسینی تک پہنچائی تو انہوں نے بلا تردد کے بھائی کو کہا جب لڑکے والے آئیں تو میری ملاقات کر وا دینا۔ چند روز بعد مقررہ وقت پر لڑکے والوں کا پروگرام طے ہوا۔ میرے بھائی نے یوسف بادشاہ صاحب کی لڑکے والوں سے ملاقات کروا دی۔
دوران گفتگو بات یہ ہوئے کہ لڑکی کے والد عبدالمالک قمر موجود نہیں ہیں وہ سعودی عرب میں ہیں آپ لڑکی کا ہاتھ میرے ہاتھ سے لے جائیں‘ جب تک زندہ ہوں میں جواب دار ہوں۔ وہ چونکہ یوسف بادشاہ حسینی سے واقف تھے اس لیے انتہائی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا اور الحمدللہ یہ رشتہ بخیر و خوبی طے پا گیا۔
2002 کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے معروف شاعر اعجاز رحمانی کو ناظم اور نائب ناظم کے لیے یوسف بادشاہ حسینی کو نامزد کیا۔ بدقسمتی سے دونوں ہار گئے اور جمعیت علمائے پاکستان کے ضمیر صدیقی کامیاب ہوگئے۔ ضمیر صدیقی صاحب اخلاقی طور پر یوسف بادشاہ حسینی کی شکست تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ وہ حسینی صاحب سے اصرار کرتے رہے کہ آپ میرے دفتر میں میرے ساتھ تشریف رکھیے تب ہی میں سکون سے کام کرسکوں گا‘ نہیں تو میرا ضمیر مجھے کچوکے لگاتا رہے گا اور مجھے چین نہیں آئے گا۔ لیکن یوسف صاحب اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ بالآخر ایک سال تک ضمیر صدیقی ناظم دفتر میں نہیں بیٹھے اور بالآخر اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔
ان تمام حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے اس نیک بندے کو اپنے انعام سے نوازے گا۔

حصہ