اُسوۂ صحابیاتِ رسولؐ ہر دور کے لیے قابلِ تقلید

361

افشاں نوید
خانوادۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی روایات محفوظ ہیں ان میں ایک روشن سبق ہے ہمارے لیے۔ حضرت زینبؓ کا اسلام کے لیے قربانیاں دینا، شوہر سے ان کی بے مثال رفاقت۔ جب حکم دیا کہ علیحدگی اختیار کرلو کیوں کہ شوہر ایمان نہیں لائے تو انہوں نے صبر و رضا کا پیکر بن کر علیحدگی اختیار کرلی۔ جب ان کے شوہر اسیر بن کر دربارِ نبویؐ میں حاضر ہوئے وہ بیٹی ہونے کی حیثیت میں ایک جذباتی دبائو ڈال سکتی تھیں کہ ان کے شوہر کو رہا کیا جائے، لیکن انہوں نے مروجہ طریقہ اختیار فرمایا، اور فدیہ میں دینے کے لیے کچھ نہ تھا شوہر کے پاس، تو اپنی ماں کی نشانی ہار خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھجوا دیا۔ پھر دوسری بار شوہر اسیر ہوتے ہیں اور تب آپ کے خلقِ عظیم کے باعث اسیرِ اسلام ہوجاتے ہیں۔ حضرت زینبؓ کو دوبارہ ان کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے، وہ برضا دوبارہ ان کی زوجیت قبول کرتی ہیں۔ قابلِِ غور بات یہ ہے کہ مسلمانوں پر جتنی آزمائشیں پڑتی تھیں اُن کا رشتہ اسلام سے اتنا ہی مضبوط ہوتا تھا۔ خواتین نے شوہر اور بچے راہِ خدا میں پیش کردئیے اور ان کی شہادت کی خبروں پر کوئی شکوہ نہ شکایت کہ گھر کے تنہا کفیل تھے، یا چھوٹے بچے یتیم چھوڑے ہیں، ان کی کفالت کا کیا ہوگا؟ بلکہ ہمیشہ اللہ کی رضا میں راضی رہیں۔ اگر ایمان کی یہ استقامت نہ ہوتی تو مٹھی بھر مسلمان کیسے دنیا پر غالب آکر اس کا تمدن بدل سکتے تھے؟
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری نورِ نظر حضرت رقیہؓ ہیں۔ حضرت عثمان غنیؓ سے ان کا عقد مکہ میں ہوگیا تھا۔ حضرت رقیہؓ وہ خوش نصیب ہستی ہیں جنہیں تین بار راہِ خدا میں ہجرت کا شرف نصیب ہوا۔ جب مکہ میں مظالم شدت اختیار کرگئے اور مسلمان ہجرتِ حبشہ پر مجبور ہوئے تو اس پاکیزہ جوڑے نے حبشہ ہجرت کا فیصلہ کیا۔ وہاں جاکر کچھ عرصے بعد اطلاع ملی کہ مکہ کے حالات میں بہتری آگئی ہے لہٰذا وہ مکہ واپس چلے آئے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ خبر غلط ہے، مسلمانوں کے لیے تو اسی طرح ظلم وستم کا بازار گرم ہے۔ لہٰذا یہ دونوں دوبارہ حبشہ ہجرت کرگئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت ابراہیمؑ کے بعد عثمانؑ پہلے شخص ہیں جنہوں نے راہِ خدا میں اپنی اہلیہ سمیت ہجرت کی‘‘۔ تیسری ہجرت مدینہ کی طرف تھی۔ روایات میں ہے کہ آپؓ کا انتقال غزوۂ بدر کے فوراً بعد ہوگیا، آپؓ کو اللہ نے ایک بیٹا عبداللہ عطا فرمایا جو ماں کے دو برس بعد اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اپنی لختِ جگر کی نشانی کے بچھڑنے پر آپؐ بہت مغموم ہوئے۔ آپؐ نے حضرت رقیہ ؓ کی وفات کے بعد اپنی دوسری بیٹی حضرت اُم کلثومؓ کو حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دے دیا۔ اسی مناسبت سے آپؓ ذوالنورین (دو نور والے) کہلائے۔
ہمارا یہ المیہ ہے جس کا جتنی بار ذکر کیا جائے کم ہے کہ ان عظیم ہستیوں کی زندگیوں پر ہمارے تعلیمی اداروں میں کوئی روشنی ڈالی جاتی ہے نہ ہمارے گھروں میں ان موضوعات پر بات ہوتی ہے۔ رہا میڈیا، تو وہ وہی کچھ دکھاتا ہے جو عوام دیکھنا پسند کرتے ہیں اور جس سے اسے اشتہارات ملتے ہیں۔ اخبارات ثواب و برکت کے لیے جو اسلامی صفحات شائع کرتے ہیں اُن میں ان ہستیوں پر مضامین شائع ہوتے ہیں لیکن وہ اتنے خشک انداز میں ہوتے ہیں کہ قاری کی توجہ حاصل نہیں کرپاتے۔ نصاب میں اسلامیات محض رٹنے رٹانے کے لیے ہے۔ استاد اس کو عملی زندگی سے نہیں جوڑتے۔ روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تینوں صاحبزادیاں نوجوانی میں وفات پاگئیں۔ اب آپ تصور کریں اتنی کم عمری میں حضرت رقیہ تین بار ہجرت کی صعوبت برداشت کرتی ہیں۔ اس ہجرت کو آپ ہماری مروجہ اصطلاح میں ’’پوسٹنگ‘‘ یا ’’شفٹنگ‘‘ کے معنی میں نہیں لے سکتے۔ اُس وقت اونٹوں کے سفر ہوتے تھے اور مکہ کی شدید ترین گرمی۔ ہجرت کرنے والے خفیہ طور پر اپنی جانوں کو بچاکر کس طرح سفر کے مشکل مراحل طے کرتے ہوں گے! جہاں ہجرت کرکے جاتے تھے وہاں کی الگ سنگین مشکلات ومسائل۔ ایک انسانی وجود کس حد تک مصائب برداشت کرسکتا ہے! لیکن انسان کے اندر حوصلہ اس کا ’’مشن‘‘ پیدا کرتا ہے۔ وہ وقت تھا ’’امامت کی تبدیلی کا‘‘۔ اس مختصر گروہ کا ہر فرد ایک قائد کا کردار ادا کررہا تھا۔ کسی سے ذرا سی بھی غفلت صدیوں کی خطا بن سکتی تھی۔ اس لیے ہر ایک اپنی جگہ ایک مضبوط چٹان تھا، عزم وہمت کا پہاڑ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے جو غیر معمولی ہمت و شجاعت کے مظاہرے ہر موقع پر کیے اس کی ایک وجہ ان کے گھروں کا سکون اور خاندان میں ان کی پشت پر اس اعلیٰ کردار کی خواتین کی موجودگی تھی۔ وہ خواتین جو انہیں کسی قربانی سے نہ روکتیں بلکہ اپنی استقامت اور اولوالعزمی سے ان کے جذبوں کو مہمیز دیتیں۔
عرب کا وہ معاشرہ جہاں بیٹی پیدا ہونا باعثِ شرم سمجھا جاتا تھا، اللہ نے اپنے فضل سے آپؐ کو تیسری بیٹی عطا کی۔ آپؐ نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور اس کا نام اُم کلثوم رکھا۔ آپؐ اپنی بیٹیوں سے انتہائی محبت کرتے تھے۔ اُم کلثوم کی پیدائش کے وقت آپؐ کی عمر مبارک 33 برس تھی۔ ابولہب بھی آپؐ کی اولادوں پر بہت شفقت کرتا۔ اس نے آپؐ کی دو بیٹیوں کا رشتہ مانگا اور آپؐ نے دونوں بیٹیاں اُم کلثوم اور رقیہ ؓ بخوشی اپنے چچا ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے نکاح میں دے دیں۔ کم سنی کے باعث رخصتی عمل میں نہ لائی گئی۔ آپؐ منصبِ رسالت کے لیے منتخب ہوتے ہیں، وہی شفیق چچا سب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو مجبور کرکے آپؐ کی صاحبزادیوں کو طلاق دلوا دیتے ہیں۔ ایمان سے منور یہ وجود اس دارالکفر سے دور رکھے گئے، یہ بھی حکم ربی تھا۔ حضرت رقیہ کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنیؓ تنہا ہوگئے اور محبوب بیوی کی جدائی میں آزردہ رہنے لگے۔ اِدھر حضرت عمر فاروقؓ کی بیٹی حضرت حفصہ ؓ کے شوہر انہیں داغِ مفارقت دے گئے۔ حضرت عمر فاروقؓ ان کے عقدِ ثانی کی خواہش لے کر ابوبکر صدیقؓ کے پاس جاتے ہیں، ان کی معذرت پر حضرت عثمان غنیؓ کے پاس جاتے ہیں۔ وہ شدتِ غم سے نڈھال کوئی جواب نہیں دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے ہیں۔ آپؐ فرماتے ہیں اللہ کریم حفصہؓ کو ابوبکرؓ وعثمانؓ سے بہتر شوہر عطا کرے گا اور حضرت عثمانؓ کو حفصہ ؓ سے بہتر بیوی عطا کرے گا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یوں صادق ہوا کہ حضرت عثمانؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری لختِ جگر حضرت اُم کلثوم نکاح میں دے دیں، اور حضرت حفصہ ؓ آپؐ کے عقدِ مبارک میں آگئیں اور اُم المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کے بارے میں بہت روایات محفوظ نہیں کی جاسکی ہیں، کیوں کہ آپؐ کے اصحابؓ جس مشن میں تمام زندگی سرتاپا مصروف رہے وہ غلبۂ دین کا مشن تھا جس کا انہوں نے کماحقہٗ حق ادا کردیا۔ یہ تو صحابیات کا احسان ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کی باتیں خود بیان کیں تاکہ امت کو ہدایت کی روشنی پوری طرح پہنچ جائے۔ پھر ان روایات میں بھی محدثین نے انتہائی احتیاط اور چھان پھٹک سے کام لیا ہے۔ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں اُن سے ہم نے کیا سبق لیا اور ان اقدار کو اپنے سماج میں کتنا زندہ کیا جو ہمارے اسلاف کی عظیم اقدار تھیں…!!
حضرت رقیہ ؓ کے بعد حضرت اُم کلثومؓ کا حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دینا اُس وقت کی کتنی خوبصورت معاشرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلامی سماج کا کتنا مثالی ماحول ہوگا، کوئی باپ ایک بیٹی کی وفات کے بعد دوسری بیٹی اسی داماد کو دے تو ہم داماد پر بھی رشک کرتے ہیں کہ اس کا کس قدر حُسنِ سلوک ہوگا اپنی پہلی بیوی کے ساتھ کہ سسرال والے دوسری بیٹی بھی دینے پر راضی ہوگئے۔ اس سے ایک طرف آپؐ یہ روایت قائم کرکے گئے کہ یہ مسلم معاشرے کی پاکیزہ روایت ہے، اس پر کسی کا دل تنگ نہیں ہونا چاہیے اگر اللہ ایسی آزمائش میں ڈال دے۔ دوسرے یہ حضرت عثمانؓ کی عظمت پر دال ہے کہ ان کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں کتنا بلند مقام تھا۔ انہوں نے جس طرح سیدہ رقیہ ؓ کو محبت اور دلجوئی کے ساتھ رکھا اسی طرح انہوں نے حضرت اُم کلثوم کی بھی قدر کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راہِ خدا کی تکالیف کے ساتھ اپنے پیاروں کی جدائی کے غم بھی یکے بعد دیگرے انتہائی حوصلے کے ساتھ برداشت کیے۔ آپؐ کی یہ تیسری لختِ جگر بھی آپؐ کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں۔ آپؐ نے اپنی بزرگ پھوپھی سے درخواست کی کہ وہ مرحومہ کے غسل کے فرائض انجام دیں۔ اپنی ذاتی چادر بھی عنایت فرمائی کہ اس چادر میں لپیٹ کر کفن کی چادروں میں لپیٹیں۔ کتنی خوش نصیب تھیں حضرت اُم کلثوم کہ سردارِ دوجہاں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی آخری آرام گاہ میں اتارا۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی اور سب سے چھوٹی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓہیں جو جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور ان کا روشن اسوہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کو جنت بنا سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپؓ کا لقب بتول ہے لیکن بہت کم جانتے ہیں کہ آپ ؓکا لقب بتول کیوں ہے؟ قرآن میں سورۂ مزمل میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:’’وتبتل الیہ تبتیلا ‘‘… (آیت نمبر 9) ترجمہ: ’’سب سے کٹ کر اسی کے ہورہو۔‘‘
چونکہ سیدہ نے دنیا، اس کی لذتوں اور خواہشوں سے قطع تعلق کرکے رب کریم سے اپنا رشتہ استوار کرلیا اور اپنی پوری زندگی سے اس کی گواہی پیش کی کہ ’’بتول‘‘ کا لقب اسی کے لیے سزاوار ہے جو مادی دنیا کا اسیر نہ ہو، جو مخلوقات کے ساتھ خواہشات اور امیدیں وابستہ نہ کرے، اور دنیا اور اس کی لذتوں کی کشش اس کو اسیر نہ کرسکے۔
حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓ نے بچپن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راہِ حق میں صعوبتیں برداشت کرتے دیکھا تھا، اس لیے وہ ان پرپیچ راستوں سے خوب واقف تھیں جن پر حق کے راہیوں کو چلنا پڑتا ہے۔ وہ بچپن سے اپنے بابا کی غم گسار تھیں۔ روایات میں ہے کہ جب سختیاں حد سے زیادہ بڑھ جاتیں، حضرت فاطمہؓ آزردہ ہوجاتیں تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے ’’میری بچی گھبرائو نہیں، اللہ تمہارے باپ کو تنہا نہ چھوڑے گا‘‘۔ سیدہ کے ننھے ہاتھ کبھی باپ کی گردن سے اونٹ کی اوجھ ہٹاتے تو کبھی زخموں کی مرہم پٹی کرتے۔ آپؓ جتنی اچھی بیٹی تھیں اتنی ہی اچھی شریکِ حیات ثابت ہوئیں۔
سولہ برس کی سیدہ جب حضرت علیؓ کے ساتھ بیاہ کر گئیں تو ان کے معاشی حالات ایسے تھے کہ مہر میں دینے کو بھی ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: علی! تمہارے پاس مہر کے لیے کیا ہے؟ بولے: ایک زرہ اور ایک گھوڑا۔ فرمایا: گھوڑا تو میدانِ جنگ کے کام آتا ہے، زرہ بیچ دو۔ حضرت عثمان غنیؓ نے جو دیکھا کہ نکاح کی غرض سے بازار جارہے ہیں زرہ بیچنے، تو انہوں نے راستے میں روک کر مہنگے داموں خرید لی اور پھر زرہ تحفتاً انہیں لوٹا دی۔ انہوں نے اسی رقم سے کچھ پیسے ولیمہ کے لیے اور کچھ سامانِ گرہستی کے لیے خرچ کردئیے۔ حضرت علیؓ کی نکاح کی درخواست کی ہمت نہ پڑی کہ ان کے معاشی حالات اس قابل نہ تھے۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح کرتے ہوئے حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا ’’اس وقت روئے زمین کے بہترین فرد کا انتخاب کیا ہے میں نے تمہارے لیے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی ایک قول کی روشنی میں ہم اپنے سماج کا تجزیہ کریں تو سامنے آتا ہے کہ ہم رشتے ناتے کرتے ہوئے معاش کو سرفہرست رکھتے ہیں اور دوسری خوبیاں اس کے ذیل میں تلاش کرتے ہیں۔
روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہؓ ایک رات سخت بخار میں مبتلا رہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی ساتھ جاگتے رہے۔ فجر کی اذان سن کر فاطمہ ؓ ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے نماز میں مشغول ہوجاتی ہیں۔ حضرت علی ؓ نماز ادا کرکے واپس آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ چکی پیس رہی ہیں۔ فرماتے ہیں ’’فاطمہ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر بخار، صبح ٹھنڈے پانی سے وضو اور اب چکی پیسنے بیٹھ گئی ہو‘‘۔ سیدہ جواب دیتی ہیں: (یہ جواب ہمیں بتاتا ہے کہ آپؓ کو کیوں جنت کی عورتوں کی سردار کہا گیا) ’’اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جائوں تو کوئی پروا نہیں ہے، وضو اور نماز رب کی اطاعت تھی۔ یہ آپ کی اور بچوں کی خدمت ہے۔‘‘
یہ درس قیامت تک مسلمان عورتوں کے لیے کافی ہے کہ رب کریم کے عائد کردہ فرائض سے جس طرح غفلت نہیں برتی جاسکتی اسی طرح خاندان کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک عورت کی قربانی ’’عبادت ‘‘کا درجہ رکھتی ہے۔ شوہر اور اولاد کے حقوق مسلمان عورت اس لیے ادا نہیں کرتی کہ وہ مجبور ہے یا وہ ظلم کی چکی میں پس رہی ہے، مرتی کیا نہ کرتی… یا مسلم سماج میں بیوی کو باندی بناکر رکھا جاتا ہے خدانخواستہ۔

حصہ