یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا کراچی چیپٹر کا مشاعرہ

578

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ادب محض حالات و واقعات کا ترجمان نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا نقاد بھی ہوتا ہے۔ عمومی ادب کا کام عمومی ذوق کی تسکین نہیں بلکہ اس کی تربیت کرنا ہوتا ہے۔ درست سمت کا تعین کرکے اندھیرے کو اجالے میں کیسے تبدیل کرنا ہے‘ یہ بتاتا ہے۔ صرف درست اور غلط کا تجزیہ نہیں کرتا۔ ادیب اپنے وقت کا سفیر ہوتا ہے‘ معاشرے کے سدھار کی بھاری ذمے داری اس پر عائد ہوتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عالیہ امام نے گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) کی جانب سے 11 مارچ 2018ء کو عالمی یوم خواتین کے حوالے سے منعقدہ خصوصی مشاعرے کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی پُروقار تقریب میں سلمیٰ خانم اور سحر علی نے جس خلوص محبت کے ساتھ صدارت کا اعزاز بخشا ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں کسی بھی عنوان ان کا شکریہ ادا کرسکوں۔ صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ جہاں محبت مفلس کے جنازے کی طرح رات کی تاریکی میں نکلنے پر مجبور ہے‘ جہاں چاروں طرف تشدد کا بازار گرم ہے‘ ایسے ماحول میں ایک طرف چمکتی ہوئی گاڑیاں‘ قہقہے ابلتے ایوان بالا اور تین طرف نا تراشیدہ آرزوئیں نارسیدہ امنگیں ہیں‘ جھلسے ہوئے ہونٹ اور شکستہ کمرے ہیں۔ ایسے حالات میںشاعری اور مشاعرے کے نام پر اتنی خوب صورت محفل کا انعقاد کرنا جہل کے ریگزار میںعلم و دانش کی شمع جلانا ہے۔
مہمان خصوصی محترمہ صبیحہ خان نے کہا کہ ہم فورم کے کراچی چیپٹر کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ آج کا خصوصی مشاعرہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ ج کے مشاعرے نے دبستان لکھنو اور دبستان دلی کے روایتی مشاعرعوں کی یاد تازہ کر دی۔ ہم اپنی تہذیب پر جتنا فخر کریں کم ہے۔ ہم کراچی چیپٹر کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر سلمیٰ خانم کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ جنہوں نی بے مثال ادبی شخصیت ڈاکٹر عالیہ امام کی صدارت میں مہمان خصوص بنا کر ہمیں توقیر دی۔ ادب میں مرد حضرات کے ساتھ ساتھ خواتین کا کردار بھی کم نہیں ہے۔ ادب میں گروپ بندی سے ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ فورم کی جانب سے سلمیٰ خانم نے خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی آمد ہمارے لیے باعث افتخار ہے اور کامیاب مشاعرے کی علامت ہے۔ عالمی یوم خواتین پر تہذیبی اور روایتی مشاعرے کا مقصد نئی نسل کو ادب کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب سے بھی قریب کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فورم کے سربراہ تسلیم الٰہی زلفی ادب کے فروغ میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ خواہش رکھتے ہیں کہ فورم کا کراچی چیپٹر شہر قائد میں ادب کی ترقی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرے۔
آج کی عورت بیک وقت زندگی کے کئے محاذوں پر اپنی ذمے داریاں خوش اسلوبی سے پوری کر رہی ہے یہ اس کے مضبوط ہونے کی دلیل ہے۔ آج کا مشاعرہ مشرقی تہذیب کی احیا کا منفرد تجربہ ہے جس میں ہم نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ خوب داد بھی وصول کر رہے ہیں۔ نظامت کے فرائض سحر علی نے انجام دیے جبکہ تلاوت و نعت کی سعادت صدارتی ایورڈ یافتہ سارہ معین کے حصے میں آئی۔ شریک محفل شاعرات نسیم نازش‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ ریحانہ احسان‘ ریحانہ روحی‘ پروین حیدر‘ سحر علی‘ آئرن فرحت‘ افروز رضوی‘ شاہین حبیب‘ فرحت عابدہ‘ سعدیہ سراج اور شاہدہ عروج نے اپنے کلام سے حاضرین محفل کو لطف اندوز کیا۔ مشاعرے کے اختتام پر تمام شاعرات کو ’’وثیقہ اعترافِ کمالِ فن‘‘ پیش کیا گیا جب کہ فورم کی جانب سے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر سلمیٰ خانم نے صدر محفل اور مہمان خصوصی کو یادگار شیلڈز پیش کی گئیں۔

پروفیسر سحر انصاری کے لیے استقبالیہ

ادبی و سماجی شخصیت اویس ادیب انصاری اور ان کی اہلیہ شگفتہ فرحت کی جانب سے پروفیسر سحر انصاری کے لیے استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا اس موقع پر ڈاکٹر پروفیسر پیر زادہ قاسم نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ پروفیسر سحر انصاری نے اس وقت پاکستان‘ ہندوستان اور دیگر اردو بستیوں میں ایک قد آور شخصیت ہیں یہ ہمارے لیے اعزاز ہے کہ آج ہم ان کے ساتھ بیٹھے ہیں جب کہ جوش ملیح آبادی‘ فیض احمد فیض‘ احمد ندیم قاسمی‘ عزیز حامد مدنی‘ اختر رائے پوری‘ سلیم احمد‘ مجنوں گورگھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے بڑے لوگوں کے درمیان سحر انصاری موجود تھے اس وقت ان کی علمی و ادبی قابلیت کے سب لوگ مداح تھے اور آج بھی ہم انہیں تسلیم کرتے ہیں۔ خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ پروفیسر سحر انصاری علم کا وہ روشن چراغ ہیں کہ جن کی روشنی سے زِمانہ فیض یاب ہو رہا ہے‘ ان کی تحریریں اردو ادب کا سرمایہ ہیں‘ ان کے نقشِ قدم ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے کہا کہ پروفیسر سحر انصاری نے اردو ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ انہوں نے پروفیسر سحر انصاری کو شائستہ اور شریف النفس انسان پایا۔ پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ انہوں نے پروفیسر سحر انصاری کو علم و ادب کے شعبے میں بے حد فعال پایا۔ انہوں نے جہالت کے اندھیروں میں علم و فن کے چراغ روشن کیے۔ شگفتہ فرحت نے کہا کہ پروفیسر سحر انصاری ہمارے قومی اثاثہ ہیں‘ ہم اس کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ ڈاکٹر جمال نقوی نے کہا کہ پروفیسر سحر انصاری نے درس و تدریس اور ادبی محاذ پر قلمی جہاد کیا ہے انہوں نے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس پروگرام میں ڈاکٹر مختار حیات‘ ناصر شمسی‘ نوشابہ صدیقی‘ راشد نور‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ فہیم برنی‘ فرحت اللہ قریشی اور نفیس احمد قریشی نے بھی پروفیسر سحر انصاری کی ادبی و علمی خدمات پر روشنی ڈالی۔ صاحبِ اعزاز پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ میں ان تمام احباب کا ممنون و شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے میرے لیے یہ تقریب سجائی وہ تو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں کیونکہ یہ ان کا فرض ہے۔ اردو زبان ہماری ثقافتی اقدار کی آئینہ دار ہے یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ابھی تک اردو سرکاری زبان نہیں بن سکی لیکن اس زبان کا مستقبل روشن ہے یہ اب عالمی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ تقریب کی نظامت اویس ادیب انصاری نے کی اس موقع پر صاحبِ اعزاز کو پھول اور دیگر تحائف پیش کیے گئے۔

ادبی تنظیم شاعراتِ پاکستان کراچی کا خواتین مشاعرہ

ادبی تنظیم شاعراتِ پاکستان کراچی نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے تعاون سے خواتین مشاعرے کا اہتمام کیا اس موقع پر شاعرات پاکستان کی چیئرپرسن افروز رضوی نے کہا کہ اسلام نے عورت کو بلند مقام و مرتبہ عطا کیا۔ معاشرے کو خواتین کے حقوق بتائے۔ اسلام کہتا ہے کہ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ اردو ادب میں بھی خواتین نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور عہد حاضر میں بھی خواتین قلم کار کسی بھی عنوان مرد حضرات سے کمزور نہیں ہیں۔ مشاعرے کی صدارت گلنار آفرین نے کی۔ رضیہ سبحان مہمان خصوصی تھیں‘ صبیحہ صبا مہمان توقیری اور صبیحہ خان مہمان اعزازی تھیں۔ ڈاکٹر نزہب عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت عشرت حبیب نے حاصل کی انہوں نے خوش الحانی سے نعت شریف بھی پیش کی۔ لائبریری کمیٹی کے چیئرمین سہیل احمد نے کہا کہ ہم ہر سال عالمی یوم خواتین پر مذاکرہ اور مشاعرہ منعقد کرتے ہیں آج یہ پروگرام ادبی تنظیم شاعرات کے اشتراک سے ہو رہا ہے۔ یہ سب ادبی سرگرمیاں زبان و ادب کے فروغ میں مددگار و معاون ہیں۔ حمیدہ کشش نے کہا کہ جو معاشرے خواتین کو برابری کا حقوق دیتے ہیں وہ ترقی کرتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عورت کا استحصال ہو رہا ہے اس طرف بھی ہم توجہ مبذول کریں اور معاشرتی ظلم و تشدد کے خلاف نبرد آزما ہوں۔ نزہت عباسی نے کہا کہ خواتین کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہیں خواتین نے ناانصافیوں کے خلاف قلم اٹھایا اور وہ آج بھی قلمی جہاد میں مصروف ہیں۔ صبیحہ خان نے کہا کہ آج کی عورت بہت مضبوط اور توانا ہے‘ وہ مردوں کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر اپنے حقوق کی بات کرتی نظر آتی ہے اس موقع پر نیاز مندانِ کراچی کے روح رواں رونق حیات نے کہا کہ گلنار آفرین ہمارے عہد کے معتبر قلم کاروں میں شامل ہے یہ ان دنوں کینیڈا میں مقیم ہیں لیکن یہ جب بھی کراچی آتی ہیں ان کے اعزاز میں محفلیں سجائی جاتی ہیں یہ ایک سینئر شاعرہ ہیں۔ اس پروگرام میں ادبی تنظیم شاعراتِ پاکستان کی جانب سے گلنار آفرین کی خدمت میں ادا جعفری ایورڈ پیش کیا گیا۔ وقار زیدی نے کلمات تشکر ادا کیے جب کہ گلنار آفرین‘ افروز رضوی‘ نزہت عباسی‘ تبسم جعفری طاہرہ سلیم جعفری‘ روبینہ ممتاز ادبی‘ لبنیٰ عکس‘ عشرت حبیب‘ حمیدہ گل تشنہ‘ ماہ نور خان زادہ‘ گل افشاں‘ ارم زہرہ‘ طاہرہ سلیم سوز‘ زینت لاکھانی‘ تبسم صدیقی‘ غزل جعفری‘ یاسمین یاس‘ سحر علی‘ تزئین راز زیدی‘ زیب النساء زیبی‘ فہمیدہ مقبول‘ انجم عثمان‘ حمیرہ راحت‘ ریحانہ احسان‘ عنبرین حسیب عنبر‘ حجاب عباسی‘ صبیحہ خان‘ رضیہ سبحان‘ صبیحہ صبا اور دیگر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سامعین میں ڈاکٹر اکرام الحق شوق‘ رونق حیات‘ وقار زیدی‘ ہارون رشید‘ صغیر احمد جعفری‘ رضوان احمد‘ الطاف احمد‘ اقبال افسر غوری‘ سجاد ہاشمی‘ نسیم شاہ ایڈووکیٹ‘ تنویر سخن کے علاوہ بھی بہت سے لوگ زینت محفل تھے۔

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کا مذاکرہ و مشاعرہ

ادکامی ادبیات پاکستان کراچی کے شمسیر الحیدری ہال میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے مذاکرہ و مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ پروگرام کی صدارت گلنار آفرین نے کی۔ راحیلہ ٹوانہ‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ صبیحہ خان اور ہما بیگ مہمانان خصوصی تھیں۔ نظامت کے فرائض قادر بخش سومرو نے ادا کیے۔ گلنار آفرین نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بین الاقوامی سطح پر خواتین نے ہر شعبۂ زندگی میں اپنی اہمیت و افادیت منوائی ہے اردو ادب میں بھی خواتین کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ اچھے ادب کی تخلیق میں تذکیر و تانیث کی تقسیم مناسب نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی طور پر عالمی شہرت یافتہ خواتین کے تذکرے ہوتے ہیں ان کی ادبی‘ علمی‘ سماجی اور سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ادب کے میدان میں خواتین نے ہر صنفِ سخن میں اپنے ادراک و شعور کا بھرپور اظہا رکیا انہوں نے خواتین کے مسائل کے ساتھ ساتھ ہر ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کی۔ شاعرات نے ہر زمانے کے تقاضوں کو برتا ہے معاشرتی رویوں کو شاعری میں ڈھالا ہے۔ راحیلہ ٹوانہ نے کہا کہ شاعروں اور ادیبوں نے مشاعرے کو زندہ رکھا یہ وہ طبقہ ہے جو معاشرتی ترقی و تنزلی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جرأت مند خواتین نے تاریخ ساز قربانیاں دی ہیں۔ قادری بخش سومرو نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ عورت کی اپنی ایک دنیا ہے‘ انسان کے عمومی مسائل کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے مسائل بھی ہیں جو صرف وہ جانتی ہے اور نسائی حیثیت کا کوئی فارمولا نہیں ہے کہ جس کو سامنے رکھ کر وہ ادب تخلیق کرے۔ وہ اپنی زندگی کے منفرد حادثات و مسائل پر قلم اٹھاتی ہے اور دوسروں کے جذبات بھی لکھتی ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ صدیوں تک عورت کو محکوم بنا کر رکھا گیا اس کو آزدیٔ رائے کی اجازت نہیں دی لیکن اسلام نے خواتین کے حقوق متعین کیے۔ اس پروگرام کے دو حصے تھے لہٰذا دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں گلنار آفرین‘ صبیحہ خان‘ ہما بیگ‘ عرفان عابدی‘ ظفر محمد خان ظفر‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ ڈاکٹر زینت کوثر لاکھانی‘ زیب النساء زیبی‘ پروین حیدر‘ نصیر سومرو‘ اظہربابنھن‘ ڈاکٹر حسین کھٹی‘ اقبال افسر غوری‘ عشرت حبیب‘ اوسط علی جعفری‘ عامرحسین راہو‘ صغیر احمد جعفری‘ دلشاد احمد دہلوی‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ طاہرہ سلیم سوز‘ سیما ناز‘ نیل امجد‘ فرح دیبا‘ نجیب عمر‘ محمد علی زیدی‘ نشاط غوری‘ اختر علی خان‘ عارف شیخ عارف‘امت الحی وفا‘ شکیل وحید‘ تنویر سخن‘ اقبال سہوانی اور قادر بخش سومرو نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔

حصہ