آزادی کا قرض ہے تم پر

602

ریحانہ
۲۳ مارچ کا دن ہمیں اس قراد کی یا دلاتا ہے جو بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کی نوید بن گئی۔۔۔وہ آزادی جو مسمانان ہند کا دیرینہ خواب اور زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ اس قرار داد نے گویا مسلمانوں کے لیے رستہ کا تعین کردیا ۔اور پھر ہمارے اسلاف نے بے شمار قربانیوں کے بعد آزادی کی نعمت حاصل کرلی۔۔۔آج ہم ایک آزاد فضا میں سانس لے رہیں ہیں۔ آج اس مقام پر ہمیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو ضرور یاد رکھنا چاہئیے۔ ساتھ ہی ہمیںسب سے پہلے آزادی کے اصل معنی ومفہوم کوسمجھنا چاہئیے کہ کیا وہ آزادی ہمیں حاصل ہوسکی جو مطلب اس کے نام میں پوشیدہ ہے؟آزادی ہوتی ہے اصل میںشخصی آزادی عمل کی خود مختاری کسی جبر کے بغیر عمل کرنے کا اختیار کسی عیب یا بوجھ سے بیگانہ ہونے کی کیفیت سہولتوں اور آسائشوں تک کھلی رسائی نجات اور عمل آزادی کا نام ہے ۔آزادی دیکھنے اور سننے میں ایک لفظ ہے ۔مگر یہ زندگی کا حاصل ہے ۔اس مفہوم پر غور کرنے کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ ہم آزاد ہیں۔

مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری

آزادی کے ۷۰سال بعد آج بھی جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو آزادی کا صرف نام دکھائی دیتاہے حقیقتاً آزادی موجود نہیں ہے۔پہلے ہم بر طانوی گوروں کے غلام تھے اب کالے انگریزوں کے غلام ہیں ۔ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا ۔مگر مغربی تہذیب کی غلامی پر اظہار تفاخر کرتے ہیں طبقاتی طفاوت سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے ۔مساوات کہیں دکھائی نہیں دیتی امیروں کی باندیاں ریشم کے انباروں میں ہیں۔اور غریبوں کی بیٹیاں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔یہ وہ ملک جو اسلام کے نام پروجود میں آیا ہو۔مگر آج اس کی حالت کو دیکھ کر خون کے آنسو رونے کو دل چاہتا ہے ماہ مبارک کی ۲۷ویں شب جس میں رب کائنات نے مسلمانوں کو آزاد ریاست کی صورت میں نعمت ِعظمیٰ سے نوازا تھا ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں انگریزوں کی غلامی اور ہندو اکثریت کی بالادستی سے آزادی اللہ کا معجزہ تھا ۔کیونکہ بر صغیر کے مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مسلمان جن کمزوریوں کا شکار تھے اس وقت ایک آزاد مسلم ریاست کی بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف تھا لیکن اللہ کا احسان عظیم کہ اس نے ۱۷۵۷سے شروع ہونے والی آزادی کی تحریک سے ۱۸۵۷ تک ناکام آزادی تک شہیدوں کی قربانیوں کا صلہ مملکت خداداد کی صورت میں دیا اور برصغیر کے بکھرے ہوئے اور منتشر مسلمانوں کو قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت نے ایک لڑی میں پرودیا۔مسلمانوں کے اتحاد کا سبب وہ روح پرور نعرہ پاکستان کا مطلب کیالااِلہ اِلااللہ جس کو بلند کرکے مسلمانوں نے اپنے رب سے عہد کیا تھا کہ الگ خطہ زمین پر حکم الہی کے مطابق اسلامی نظام حکومت تشکیل دیں گے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو ایک آزاد مسلم ریاست پاکستان کے وجود میں آتے ہی وطن عزیز کے مسلمانوں کا امتحان شروع ہوگیا کہ وہ مسلم ریاست کو اسلامی ریاست میں تبدیل کرتے ہیں یا نہیں ۔آج پاکستان کے ۷۰ برس اس امتحان میں ناکامی کا ثبوت ہیں ایک ایک لمحہ ایک ایک ساعت اس نعمت ِعظمیٰ کے ناقدری و نا شکری کی داستان سنا رہا ہے ۔آزادی کے پہلے ۲۴ سالوں میں سقوط ڈھاکہ کا المیہ رونما ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور ہمارے دشمن نے اس وقت ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں غرق ہوگیا ہے۔۔۔۔
یہ وطن عزیز پاکستان ہمیں دل و جان سے زیادہ عزیز ہے ۔یہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا دنیا کا واحد ملک ہے اگر اپنی بنیاد کے مطابق اس کی تعمیر کی جاتی تو آج ہم دنیا کی قیادت کر رہے ہوتے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم پست ترین مقام پر گر چکے ہیں ۔اس کی ذمہ داری بنیادی طور پر ارباب عقل پر ہے ۔تاہم اس سے انکار ممکن نہیں کہ کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی حیثیت کے مطابق اس کا ذمہ دار ہے۔

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیںہے

اگر یہی عالم رہا تو کہاں کا گھر اور کہاں کی آزادی ؟بس غلامی ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی ۔ہاں مسلمان اگر آج بھی زندہ وبیدار ہوجائیںتو یقیناً ہم اقبال کا وہ خواب پورا کرسکیں گے اور قائد کی کاوشوں کا صلہ دے پائیں ۔جن کے ہم مقروض ہیں ۔ اس کے لیے ہرپاکستانی شہری خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا عورت ہو یا مرد پٹھان ہو یا پنجابی ،سندھی ہو یا بلوچی ،استاد ہو یا شاگرداسے وطن عزیز کے گلی گلی کوچے کوچے امن و عامہ اور استحکام کو پارہ پارہ کرنے والی منفی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا ۔اس جہادمیں تن من دھن لٹانا ہوگا ۔ جو جس مقام پر ہے اپنی ذمہ داری پوری فرض شناسی، خلوص اور تن دہی سے ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم حقیقی آزادی کا حاصل کرکے اس آزادی کے ثمر سے بہرہ مند ہوسکیں گے۔ ان شاء اللہ

بدلتے موسم

ثناء بتول
سورہ زمر کی آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد ہے ۔
’’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کو سورتوں اور چشموں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا ۔پھر اس پانی کے ذریعے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑگئیں پھر آخر کار اللہ ان کا بھس بنا دیتا ہے ۔درحقیقت اس میں سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے۔‘‘
زمین کی سطح پر ایک خاص معتدل درجہ حرارت کی ضرورت ہے ۔اسی لیے زمین سورج سے خاص فاصلے پر ہے یہ فاصلہ سورج سے زمین تک پہنچنے والی گرمی کی توانائی کی مقدار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔زمین کی خلاء میں سورج کے گرد گردش میں ذرہ برابر فرق آجائے اور اس کی وجہ سے زمین سورج کے زیادہ قریب آجائے یا اس سے دور ہوجائے تو زمین کے درجہ حرارت بہت فرق آجائے گا ۔ایک اندازے کے مطابق اگر اس درجہ حرارت میں ۱۳ فیصدکی کمی آجائے تو اس پر برف کی تہہ جمع ہوجائے جو ہزار میٹر موٹی ہوگی دوسری طرف درجہ حرارت میں معمولی سا اضافہ جانداروں کو جھلسا کر رکھ دے گا پورے کرہ ار ض پر درجہ حرارت یکساں ہونا چاہئیے ۔اس لیے زمین کو اپنے محور کے گرد خاص رفتار کے ساتھ گردش کرنی ہوگی ۔ اسی طرح اگر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے خط استوا پر زمین کی گردش کی رفتار حد سے بڑھ گئی تو تو کرہ ارض کی کرہ ہوائی بے حد گرم ہوجائے گی اور خلاء میں منتشر ہوکر غائب ہوجائے گی جس کی بدولت کسی ذی روح کا زمین پر زندہ رہنا ممکن نہیں ہوگا۔(یاد رہے سائنسی تحقیق کے مطابق چاند پر کوئی جاندار اسی لیے زند نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس کے گرد کرہ ہوائی موجود نہیں ہے)
سورہ ملک کی آیت نمبر ۳سے ۴ میں ارشاد ہے
’’جس نے تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے (تو اے دیکھنے والے) رحمٰن کی تخلیق میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا۔دوبارہ (نظر ڈال کر )دیکھ ۔ کیا کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے۔پھر دہرا کر دودو بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل ( و عاجز) ہو کرپلٹ آئے گی ۔‘‘
اس آیت کے مطابق ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے نظام میں کسی طرح کی کمی اور خلل نہیں ہے اس لیے ہر موسم اپنے وقت پر آتا ہے اور جاتا ہے نہ گرمی سردی سے پہلے آسکتی ہے اور نہ سردی گرمی سے پہلے آسکتی ہے ۔بلکہ دونوں کا ایک وقت مقرر ہے اسی طرح خزاں اور بہار کا وقت مقرر ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔ یہ رواںدواں کارخانہ قدرت ربِ کائنات کی عظمت اور کبریائی کی گوہی دیتاہے اور ہمیں غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے ۔۔۔تو کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے۔۔۔

حصہ