وہ اک چھوٹی سی غلطی

539

افروز عنایت
گرچہ یہ بہت چھوٹا سا واقعہ ہے جو میرے ساتھ نوجوانی کی عمر میں پیش آیا لیکن اس بظاہر چھوٹے نظر آنے والے واقعہ نے مجھے بہت کچھ سیکھا دیا۔ یہ اس زمانے کا واقعہ ہے جب میرے میٹرک کے امتحانات ہورہے تھے، پرچہ دے کر سب لڑکیاں (ہم جماعت) کلاس روم سے باہر آئیں تو ایک دوسرے سے پرچے کے بارے میں پوچھا، پھر اگلے پرچے کی تیاری کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ جتنی ہم جماعت موجود تھیں سینٹر سے نکلتے نکلتے بھی یہی کہتی رہیں کہ اگلا پرچہ سائنس کا ہے جو بہت مشکل ہے۔ اس کی تیاری تو جاتے ہی شروع کردیں گے۔ لہٰذا نمازِ عصر سے فارغ ہو کر بغیر ٹائم ٹیبل دیکھے میں نے بھی سائنس کے پرچے کی تیاری شروع کردی کیوں کہ بائیلوجی، فزکس اور کیمسٹری تینوں کی تیاری مکمل کرنی تھی۔ (میرا ہوم اکنامکس گروپ تھا) غرض کہ دونوں میں مس نے صرف سائنس کی پڑھائی کی، اگلے دن پرچہ دینے سینٹر پہنچی تو سب لڑکیوں کے ہاتھوں میں اسلامیات کی کتاب اور نوٹس بک تھیں، دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بیشک اسلامیات کا پرچہ کافی طویل ہوتا ہے لیکن آج تو سائنس کا پرچہ ہے جو تمام پرچوں سے زیادہ محنت طلب ہے۔ خیر جی معلوم ہوا کہ آج تو اسلامیات کا پرچہ ہے، اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے ساتھیوں سے کہا کہ میں نے سوچا اگلا پرچہ سائنس کا مشکل ہے اگر وقت ملا تو ایک دوسرے سے ڈسکس کرلیں گے اور اندر سے دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ الٰہی اب کیا ہوگا، ہم بہن بھائیوں کی پڑھائی کے معاملے میں پورے خاندان میں دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ خدانخواستہ اگر پرچہ صحیح نہ کرپائی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گی، اماں تو تو صبح ہم سب بہن بھائیوں کو قرآنی آیات کے ورد میں خدا حافظ کہتی تھیں اور اسکول کالج کے لیے ہمیں روانہ کرتی تھیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کی تعلیمی کارکردگی سے مطمئن اور خوش رہتی تھیں۔ اللہ کا کرم ماں کی دعائیں تھیں اور کلاس روم میں استانی کا بغور لیکچر سننے اور اہم نکات کو کاپی میں اور ذہن کے پردوں میں نوٹ کرنے کی وجہ کہ پرچہ نہایت اچھا ہوگیا اور اسلامیات میں اضافی نمبروں کی وجہ سے فرسٹ ڈویژن (1st) آئی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
بظاہر آپ سب کے نزدیک یہ چھوٹا اور معمولی واقعہ ہوگا لیکن یہ ایک بظاہر چھوٹا نظر آنے والا واقعہ میری زندگی میں مثبت اثرات مرتب کرنے کا باعث بنا۔ اس واقعہ کے بعد ہر کام کے لیے احتیاط برتنے لگی، اپنے ربّ پر ایمان پختہ ہوگیا کہ اگر اپنے معاملات اپنے ربّ پر چھوڑیں کوشش ضرور کریں لیکن اُمید خدا پر رکھیں وہ اپنے بندے کو ضرور کامیابی دیتا ہے۔ تیسری بات جو اس چھوٹی عمر میں ذہن پر منقش ہوگئی کہ ماں کی دُعائیں ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیتی ہیں جس سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔ چوتھی اور اہم بات یہ کہ انسان غلطیوں سے ہی سیکھتا ہے، انسان کی اصلاح اس کی غلطیوں کی نشاندہی کی بناء پر ہی ممکن ہے، اگر زندگی میں کہیں کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو نہ صرف اس کا اعتراف کرنا لازمی ہے بلکہ یہ کوشش بھی لازمی ہے کہ آگے یعنی دوبارہ ایسی غلطی ہم سے سرزد نہ ہو جو ہمارے لیے نقصان کا باعث بنے۔
ہر بندے کو اپنے معمولات زندگی، دینی امور کی انجام دہی کے معاملات، معاشرتی معاملات، رشتوں ناطوں کو استوار کرنے کے معاملات کے سلسلے میں اپنا اپنا محاسبہ کرنا لازمی ہے کہ کہیں کسی جگہ کسی موقع پر مجھ سے کوئی غلطی یا کوتاہی تو سرزد نہیں ہوئی ہے جو میرے لیے دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث بنے اگر ہوئی ہے تو اس کا ازالہ کرلیں تا کہ دوبارہ وہ غلطی، غلطی سے بھی نہ ہوپائے کہ جس کی وجہ سے آپ کو شرمندگی اُٹھانی پڑے۔
لیکن اپنے اردگرد بعض لوگوں کو دیکھتی ہوں کہ مسلسل غلطیاں کرتے رہتے ہیں لیکن اس سے کچھ سیکھنے کی نوبت نہیں آتی اور بار بار نقصان اٹھاتے ہی چلے جاتے ہیں بلکہ ان کی غلطیوں کا خمیازہ آس پاس والوں کو بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔ ربّ العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے، عقل و شعور کی نعمتوں سے نوازا ہے، اسی عقل و شعور ذہانت کا تقاضا ہے کہ انسان سوچ سمجھ کر اگلا قدم اُٹھائے اگر لاشعوری طور پر غلطی ہوجائے تو غور کرے کہ یہ غلطی میری کوتاہی کی بدولت ہوئی ہے اب آئندہ اس کوتاہی کو مجھے دہرانا نہیں۔ اگر غلطی کرنے پر نقصان سے بچ بھی جائیں جیسا کہ میرے ساتھ ہوا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پھر سے اُسی غلطی سے دوچار ہوجائیں میں نے اس ایک غلطی کی بدولت بہت کچھ سیکھا۔ گرچہ میں نقصان سے بچ گئی کیونکہ نقصان ہوسکتا تھا لہٰذا اپنے بچوں کی تربیت میں بھی اسباب کو ملحوظ رکھیں کہ جو کام بھی کرنے جائیں پہلے اس کا بھرپور جائزہ لیں مطمئن ہو کر پھر قدم اٹھائیں اور اگر غلطی ہوجائے تو اس غلطی کو ذہن میں رکھیں تا کہ دوبارہ وہ نہ ہو۔ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور اپنی اصلاح کریں اور ہر کام سے پہلے منصوبہ بندی کریں اور منظم طریقے سے اپنے کاموں کا آغاز کریں۔ بے شک شہسوار ہی گرتے ہیں میدان جنگ میں۔ لیکن گرنے کے بعد وجہ ضرور تلاش کرتے ہیں اور اگلی مرتبہ اس شہسوار کی کوشش ہوتی ہے کہ مخالف شہسوار کو گرائے نہ کہ اگلی بار بھی خود ہی گرے۔ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں پر نظر رکھنے سے انسان اپنے معمولات زندگی میں بھی کم سے کم اُلجھنوں اور مسائل کا شکار ہوتا ہے بعض لوگ اپنی بار بار کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی بناء پر ایک جگہ ٹک کر ملازمت کرنے سے اور رشتے داروں اور دوستوں سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ یعنی اپنی ساکھ گنوا بیٹھتے ہیں اور بعض افراد کی ہٹ دھرمی کی انتہا کہ اپنی غلطی کو مانتے ہی نہیں، ایسے لوگ بھی معاشرے میں اپنی عزت اور مقام کھو بیٹھتے ہیں اگر ملازمت سے نکالے جاتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ ’’ہمیں کیوں نکالا‘‘ ہمارے ساتھ یہ ظلم کیوں ہوا، ہم تو بے گناہ اور بے قصور ہیں جبکہ ان کی وجہ سے ادارے کو کتنا ہی نقصان ہوا ہو یا ادارے کی بدنامی ہوئی ہو وہ اپنی غلطیوں کو ماننے کو ہی تیار نہیں ہوتے۔ دیکھا جائے تو ایسے کردار و عمل کے لوگ زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے ضد اور ہٹ دھرمی روا رکھنے کے بجائے ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے، اپنے دل و دماغ سے اپنے عمل کی گواہی لینی ضروری ہے تا کہ خود کو بھی اور دوسروں کو بھی مسائل اور پریشانیوں سے بچایا جاسکے۔

حصہ