بہتان

581

قدسیہ ملک
“کھانا خود گرم کرلو،میراجسم میری مرضی”ان جملوں کی تشہیر کرنے والے بنیادی طور پر مغربی تہذیب کی مرعوبیت کا شکار ہیں۔یہ اس تہذیب کی بات کرتے ہیں جنکی اپنی تہذیب نے ان کے اپنے ہی خنجر سے خود کشی کی ہے اب وہ تمام مضمرات سے اپنے نوآیادیاتی اذہان کو بھی بہرہ مند کرنا چاہتے ہیں۔مغرب میں عورت کا کیا مقام ہے یہ ان روز مرہ جملوں سے بخوبی سمجھ آجاتا ہے۔
When you can get milk from market, you do not need to have a cow in your house.
جب تمہیں مارکیٹ سے دودھ مل جاتا ہے تو تمہیں گھر میں گائے پالنے کی کیا ضرورت ہے۔
Women are just like buses, if you miss one, take an-other.
عورتوں کی مثال بسوں کی مانند ہے، ایک بس مس کر بیٹھو تو دوسری بس لےلو۔
مغربی تہذیب عورت کے آسان حصول کو مقاصد حیات میں سے ایک بہت بڑا مقصد قرار دیتی ہے۔ جس میں عورت عام بازاری اشیاء کی طرح ہر قیمت پر ہر کام کے لیے میسر ہوتی ہے، جبکہ دوسری طرف اسلامی تہذیب ہے، جس میں عورت جنس بازار نہیں ہے، وہ اشرف المخلوقات انسان ہی کی ایک صنف ہے۔اسلام كے بابركت ظہور سے قبل حىات انسانى مىں حد درجہ كجى، انحراف اور بے راہ روى كے ساتھ ساتھ اىك زبردست المىہ ىہ بھى تھا كہ وہ عورتوں كے حوالے سے عجىب وغرىب اور انسانىت سے بعىد تصورات ركھتے تھے، ان كے ساتھ زندگى بھى گذارتے، انھىں حصولِ اولاد كاذرىعہ بھى بناتے؛ بلكہ ان سے ہر ممكن خواہشات كى تكمىل كرتے، مگر ان كا مرتبہ ان كى نگاہوں مىں بس اتنا سا تھا كہ وہ عام حالات مىں شہوانى تسكىن كا ذرىعہ ىا بىوى ہونے كى صورت مىں حصول اولاد كى مشىن تھى۔راہ دلیل کے مطابق قدیم یونان میں قدىم اقوام مىں سب سے زىادہ روشن اور شاندار تہذىب كے حاملىن اہل ىونان مانے جاتے ہىں، مگر اس قوم كے ابتدائى دور مىں صورت حال ىہ تھى كہ اخلاقى نظرىہ، قانونى حقوق اور معاشرتى برتاؤ ہراعتبار سے عورت كى حىثىت انتہائى گرى ہوئى تھى، ىونانى خرافىات (Mythology) مىں اىك فرضى عورت پانڈورا (Pandora) كو اسى طرح تمام مصائب وآفات كا موجب قرار دىاگىا تھا، جس طرح ىہودى خرافىات مىں حضرت حوا كو، حضرت حواؑ كے تئىں اس غلط افسانے كى شہرت نے جس طرح ىہودى ومسىحى اقوام كے قانونى معاشرتى اور اخلاقى روىوں پر زبردست اثر ڈالا ہے وہ كسى صاحبِ بصىرت اور اہلِ نظر سے پوشىدہ نہىں، قرىب قرىب اىسا ہى اثر پانڈورا كے حوالے سے اس ىونانى توہم كا اہل ىونان پر پڑا۔ ان كى نگاہ مىں عورت اىك ادنىٰ درجہ كى مخلوق تھى اور معاشرت كے ہر پہلو مىںاس كا مرتبہ گرا ہوا تھا، عزت وشرافت كے تمام حقوق صرف اور صرف مردوں كے ساتھ مخصوص تھے، عورتىں ان سے ىكسر محروم تھىں۔ىونانىوں كے بعد جس قوم كو تہذىب وتمدن مىں بامِ عروج نصىب ہوا، وہ اہل روم تھے، ۔رومى لوگ جب وحشت كى تارىكى سے نكل كر تارىخ كے روشن منظر پر نمودار ہوئے، تو ان كے نظامِ معاشرت كا نقشہ كچھ ىوں تھا كہ مرد اپنے خاندان كا سردار ہے، اس كو اپنى بىوى پر حقوقِ مالكانہ حاصل ہىں؛ بلكہ بعض حالات مىں وہ اپنى رفىقۂ حىات اور زندگى كے ہر نشىب وفراز مىں اس كى غم خوارى وغم گسارى كرنے والى بىوى كو قتل تك كردىنے كا مكمل اختىار ركھتا ہے۔ىونان وروم كے نىرِ اقبال كے گہنانے اور آفتابِ عظمت كے كجلانے كے بعد مسىحىت آئى اور اس نے عورت كى زبوںحالى اور اس كے حقوق كے استحصال كى روك تھام كا بىڑا اٹھاىا اور اوّل اوّل اس نے عمدہ خدمات انجام دىں، مگر افسوس كہ اس كا نظرىہ بھى صنف ِ نازك كے بارے مىں انتہاپسندانہ ہى واقع ہوا؛ چنانچہ آباءِ مسحىىن كا ابتدائى اور بنىادى نظرىہ ىہ تھا كہ عورت گناہوں كى ماں اور برائى كى جڑ ہے، معصىت كى تحرىك كا سرچشمہ اور جہنم كا دروازہ ہے، تمام انسانى مصائب كا آغاز اسى سے ہوا ہے،اس كا عورت ہونا ہى اس كے شرمناك ہونے كےلىے كافى ہے، اس كو اپنے حسن ومہ وَشى پر نازاں نہىں؛ بلكہ پشىمان ہونا چاہىے؛ كىوں كہ پىاسى نگاہوں كو دعوتِ نظارہ دىنے والا اس كا ىہ جمالِ جہاں آراء شىطان كا سب سے بڑا ہتھىار ہےوہ دنىا اور اہلِ دنىا ہر دو كے لىے مصىبتوں كى پىامبر اور آفتوں كى علم بردار ہے۔تردولىان (Tertulian) جو ابتدائى دور كے ائمہ مسىحىت مىں سے ہے، عورت كے متعلق مسىحى نظرىہ كى ترجمانى ىوں كرتا ہے كہ: ’’وہ شىطان كے آنے كا دروازہ ہے، وہ شجرِ ممنوع كى طرف لے جانے والى، خدا كے قانون كو توڑنے والى اور خدا كى تصوىر ’’مرد‘‘كو غارت كرنےوالى ہے‘‘، كرائىسوسسٹم (Chrysostum)جس كو مسىحىت كے اولىائے كبار مىں شمار كىاجاتا ہے، لكھتا ہے: ’’عورت اىك ناگزىر برائى، اىك پىدائشى وسوسہ، اىك مرغوب آفت، اىك خانگى خطرہ، اىك غارت گر دل ربا اور اىك آراستہ مصىبت ہے۔‘‘سى طرح ہندوستانى سماج كا نظرىہ بھى عورت كى بابت ماسبق اقوام سے مختلف نہ تھا، جوآج بھى ہندومعاشرے مىں بہت حد تك موجود ہے؛ چنانچہ عورت ان كے ہاں اىك داسى اور مرد اس كا سوامى اور پتى دىو ىعنى مالك ومعبود ہوتا، اس كو بچپن مىں باپ كى، جوانى مىں شوہر كى اور بىوگى مىں اولاد كى مملوكہ بن كر رہنا پڑتا،اسے شوہر كى چتا پر بھىنٹ چڑھا دىا جاتا، اس كو وراثت اور دىگر حقوقِ ملكىت سے محروم كىاجاتا، اس پر نكاح كے انتہائى سخت قوانىن مسلط كىے جاتے، جن كے زىرِ اثر وہ اپنى رضا اور پسند كے بغىر اىك مرد كے حوالے كردى جاتى،اور پھر تاحىنِ حىات كسى بھى صورت مىں وہ اس كى ملكىت سےنہىں نكل سكتى، ہندووں مىں عورت كو ىہودىوں اور ىونانىوں كى طرح گناہوں كى جڑ اور مصائب كا سرچشمہ سمجھا جاتا تھا اور اس كى مستقل حىثىت تسلىم كرنے سے انكار كىاجاتا تھا، دوسرى جانب جب اس پر محبت كى نگاہ ہوتى تھى تو خواہشات كا كھلونا بنالى جاتى، وہ مرد كے اعصاب پر اس طرح چھاجاتى كہ خود بھى ڈوبتى تھى اور مردوں كو بھى قعرِہلاكت مىں پہنچاكر دم لىتى تھى؛ چنانچہ ىہ لنگ اور ىونى كى پوجا، ىہ عبادت گاہوں مىں عرىاں اور جڑواں مجسّمے، ىہ دىوداسىاں، ىہ ہولى كى رنگ رلىاں اور ىہ درىاؤں كے نىم عرىاں اشنان انہی کی یادگار ہیں۔خود اہل عرب کا قبل اسلام حال کسی سے پوشیدہ نہیں زندہ درگور کرنا،جائیداد سے محرومی،ناپاک تصور عام سی بات تھی۔بالآخر صنف ِ لطىف كے درد كى كَسك اوراس كى پىہم سسكىوں نے رحمت ِ خداوندى مىں جولانى پىدا كى اور پھر اللہ تبارك وتعالىٰ نے حراء كى پہاڑى سے جہاں آپؐ كو بنى نوع انسان كے لىے بالعموم نسخۂ كىمىا اثر دے كر مبعوث فرماىا، وہىں آپؐ كى بعثت صدىوں سے دبى كچلى صنف عورت كے لىے بھى سراپا لطف ورحمت ثابت ہوئى، آپؐ نے خدائى تعلىمات اور اپنے شبانہ روز كے اعمال كے ذرىعے عورت كى حىثىت اور اس كى قدر ومنزلت كو واشگاف كىا، لوگوں كے قلوب پر اس كى كرامت وشرافت كا نقش بٹھاىا اور تاابد كے لىے عورت كو مقام ومرتبے كى اس معراج تك پہنچادىا ۔عورت ماں ہو تو قدموں تلے جنت رکھ دی،دو بیٹیوں کی بہترین تربیت پر جنت میں جانے کی ضمانت اور دوزخ سے بچاؤ کے لئے ڈھال بن گئیں۔اپنی عورتوں سے بہترین سلوک کرنے والا مرد اسلام کے نزدیک بہتریں شخص قرار دیا گیا۔سب سے زىادہ كامل اىمان اس شخص كا ہے، جس كے اخلاق عمدہ ہوں اور تم مىں بہترىن شخص وہ ہے جو اپنى بىوى كے حق مىں بہتر ثابت ہو(ترمذی)۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے ساری مخلوقات کے لیے ”نبی رحمت “ بنا کر بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی وکریمی اس ”صنفِ نازک“ پر بھی سایہ فگن ہوئی، جس کو دنیا اسلام ”آبگینہ “ جیسے لطیف ونازک شیء کے ساتھ تشبیہ دیتی ہے موجودہ دور کا اس صنف نازک کے ساتھ یہ المیہ ہے کہ اس نے عورت کو گھر کی ”ملکہ “ کے بجائے ”شمع محفل “ بنادیا ہے ، اس کی نسوانیت اور نزاکت کو تار تار کرنے کے لیے ”زینتِ بازار“ اور اپنی تجارت کے فروغ کا ”آلہٴ کار“ اور ”ذریعہ “ بنادیا۔جس کے باعث عورتوں پر مختلف آفات ان کی وجہ سے حملہ آور ہوتی ہیں۔
مظلوم کی داد رسی کرنے والے اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے مملکت خداداد پاکستان میں مظلوم جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتے ہیں اور ظالم آزادانہ گھومتے ہیں۔ہماری روزمرہ زندگیوں میں ہم ایسے لاتعداد واقعات کا مشاہدہ و مطالعہ کرتے ہیں جن میں معصوم لوگ اپنی ناکردہ گناہوں کا وبال لئے اپنی زند گی کے ایام جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گزارتے ہیں۔جماعت اسلامی کا واحد مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کی قولی عملی قلبی اور اصلاحی وہر ممکن کوشش کرنا ہے ۔سب سے اول جہاد ظالم حکمران کے آگے کلمہ حق بلند کرنے کا نعرہ لگانے والی جماعت اسلامی نے انہی مقاصد کے حصول کے لئے ویمن ایڈ ٹرسٹ کےقیام کو عملی جامہ پہنایا ہے۔تاکہ جیلوں میں موجود معصوم خواتین کی مدد کو یقینی بنایاجائے ۔انکی قانونی اسلامی و مالی معاونت کی جائے تاکہ وہ جیل سے رہائی پانے کے بعد معاشرے میں بہتر زندگی جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے گزار سکیں۔
آج سے قریبا” 20 سال پہلے پاکستان میں مقیم بنگلہ دیشی عورت “نور النساء”پراسکے سابقہ خاوند نے اس وقت بدکاری کا الزام لگایا جب وہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ مطمئن و پرسکون زندگی گزار رہی تھی۔الزام بہت شدید نوعیت کا تھا ۔اسوقت کی دفعات کے تحت اس مظلوم عورت کو فوری گرفتار کرلیا گیا جسکے بعداسےجیل کی سزا کاٹنی پڑی۔کاغذی دستاویزات ناہونے کے سبب نورالنساء کو جیل کی چکی میں پسنا پڑا۔وہیں اسکی ملاقات “WAT”کی خواتین کارکنوں سے ہوئی۔اسکا کیس ویمن ایڈ ٹرسٹ کے تعاون سے بغیر کسی روپے پیسوں کی لالچ کے،وفاقی شرعی عدالت میں لڑا گیا۔اس کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے ہر ممکن قانونی امداد کا سہارا لیا گیا۔زبانی طلاق اور مکمل پاکستانی قوانین کا شعور ناہونے کے باعث نور النساء کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔نور النساء کی “ویٹ”کے ایڈوکیٹ کے ذریعے قانونی مدد کی گئی۔اور عدالت کا یقین دہانی کروائی گئی کہ یہ مکمل دوسری شادی کا معاملہ ہے ناکہ “بدکاری” کا ،اسکے لئے ویٹ کی قانونی رہنمائی کے ذریعے نور ” کو عدالت لایا جاتا جہاں عدالت اس سے ضروری سوالات کرتی۔ویمن ایڈ ٹرسٹ کے قانونی امور پر عبور رکھنے والے وکلاء اور ایڈوکیٹ کی کوششوں سے بالآخر “نور” کاکیس 6 ماہ میں حل کرلیا گیا۔اسے باعزت بری کردیا گیا۔اور سابقہ شوہر کو غلط الزامات و بہتان لگانے کے باعث بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑااور اخروی سزا اس سے بڑھ کر ہوگی۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے “جو لوگ پاکدامن بھولی بھالی عورتوں پر الزام لگاتے ہیں۔ان پر دنیا و آخرت میں پھٹکار ہے ان پر زبردست عذاب ہوگا(سورہ النور:23)

حصہ