سرد سمندر میں

236

قاضی مظہر الدین طارق
اس وِیک اینڈ پر، ہم تین دوست ایک بار پھر، آبدوز’اَیلوِن‘ میں بیٹھے ’نورتھ پول‘ کے سرد سمندر کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔
وہاں پہنچ کرہم کبھی اُوپر جاتے ہیں،کبھی گہرایوں میں اترجاتے ہیں… تفریح کرتے پھر رہے ہیں…کاش ہم آپ کو بھی اپنے ساتھ لے جاسکتے مگراس میں صرف تین افراد کے بیٹھنے کی کنجائش ہے ۔
’’محمد بھائی !یہ دیکھیں یہاںتو ایک ’مائیکروسکوپ ‘ بھی لگا ہوا ہے۔‘‘
’’ہاںشجی!اب تو ہم نظر نہ آنے والی مخلوق کو بھی دیکھ سکیں گے۔‘‘
سمندر میں نیچے گئے تو دیکھا کہ یہاں بہت سے جاندار ہیں…پھراُوپر آئے تودیکھا پانی پر برف تیر رہی ہے،اور اس برف کے اُوپر بھی ’پولر بِیئر‘،’سیل‘، ’والرس ‘اور بہت سے پرندے رہ رہے ہیں،پرندوں میں سے اُڑنے والے’ سیگلز‘ بھی ہیں اور ’پنگوینز‘ کی طرح زمین پر چلنے والے بھی۔
برف سے نیچے آئے توعمرچونک کربولا،’’واہ! برف اور پانی کے بیچ میں بھی زندگی نظرآرہی ہے ،شائدیہ ’ایلگی‘ہیں،کائی ہے توسنگل سَیل والی ہوتی ہیں، پھر بغیر ’خُردبین‘کے یہ کیسے نظر آرہی ہیں؟‘‘
میں نے کہا،’’ کیوں کہ بہت سارے مل کریہ ایک لڑی بناتی ہیں، اس لئے ساری دنیا کے پانی ہری ہری نظر آتی ہیں۔‘‘
ان کے ساتھ ہم نے دیکھا، پانی کے پودے بھی ہیں جو کچھ توپانی میں ڈولتے رہتے ہیں اور کچھ کی جڑیں پانی کی تہہ میں جمی ہوتیں ہیں،یہاںسورج کی روشنی سے’فوٹوسنتھے سس‘ کرکے یہ دونوں غذا اور آکسیجن بنارہی ہیں۔
شجی نے ’مائیکروسکوپ‘سے آنکھ لگا کر کہا،’’زبردست !یہاں تواِن دونوں کے علاوہ بنیادی غذا بنانے والے اور بھی ہیں،جوآنکھوںسے تو نظر نہیں آرہے تھے۔مگر!اب…‘‘
ؑعمرچیخنے لگا،’’شجی ہٹو!ہٹو! میں بھی دیکھوں گا۔‘‘
شجی بیچارہ ابھی دیکھ نہ پایا تھا کہ اُس کو ہٹنا پڑا،وہ عمر کی لڑائی والی طبیعت سے ڈر گیاتھا۔
جب عمر اچھی طرح دیکھ چکا، تو میں نے شجی سے کہا،’’آئو !تم نہیں دیکھ سکے تھے۔‘‘
شجی خوشی سے دَمک اُٹھا،اور ’’شکریہ محمد بھائی !‘‘کہہ کر’مائیکروسکوپ‘ میں دیکھنے لگا۔
’’بھائی!گر میں بھولا نہی تو یہ ’سنگل سیلیولر‘ بکٹیریا’فائیلو پلینکٹنز‘ ہیں نا؟‘‘
میں نے کہا،’’ہاں! تمیں بالکل صحیح یاد ہے۔‘‘
’پانی کے پودے‘،’کائی‘ اور’فائیلوپلینکٹن‘ ، اللہ کی ایسی نعمتیں ہیں، جو اگربنیادی غذائیں نہ بناتیں ،توسمندر کی باقی ساری مخلوق بھوکی مرجاتی، سمندرکی تاریک گہرائیوں میں تو کوئی بھی اپنے غذا نہیں بنا سکتا تھا۔
’’ارے !ارے !‘‘شجی خُرد بین میںدیکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میںبولا،’’اِن ’فائیلو پلینکٹنز‘ کو ’زُو پلینکٹنز‘کھا رہے ہیں ،کیوں؟ اُف!یہ کیسا ظلم کررہے ہیں!!!‘‘
’’نہیں! ‘‘میں نے کہا،’’یہ ہرگز ظلم نہیں کررہے، یہ تو ربّ العٰلمین نے ہی ’فائیلو‘ کو ’زُوپلینگٹنز ‘ کا رزق بنایاہے ،اور اُن کو کھا کر اِن کو زندہ رہنے کا حق دیاہے،مگر اللہ نے یہ حق صرف بھوک مٹانے کی حد تک دیا ہے،انسان کی طرح ظلم اور تفریح کیلئے ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے نہیں۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘ وہ اَب بھی اُلجھا ہوا تھا،’’کیا وہ بھی’ فائیلو‘ کی طرح بے جان چیز نہیں کھا کر زندہ نہیں رہ سکتے؟‘‘
’’سب جانوراپنی غذاخودتو نہیں بنا سکتے،‘‘میں سمجھانے لگا،’’خود ربّ تعالیٰ نے سورج کی اِنرجی سے اُن کوہوا، پانی ،کاربن اور مختلف ’مِنرلز‘کو ملا کر’کاربوہائیڈریٹس‘ بنانے کی صلاحیت ہی نہیں دی،اگر دیتے بھی تو سب دن میں ہر وقت دھوپ میں کھڑے ہوکر یہ کام تو نہیں کر سکتے تھے،پھر بہت سے ایسے بھی تو ہیں جو اپنی ساری زندگی میں سورج کی روشنی دیکھ ہی نہیں سکتے،وہ کیسے زندہ رہتے؟‘‘
عمر پھر چِلانے لگا،’’اُدھر دیکھو!کیسا طوفان اُٹھ رہا ہے!‘‘
’’ارے باپ رے!‘‘شجی بھی گھبراکر بولا،’’ یہ تو ہماری طرف ہی آرہا ہے!!‘‘
’’گھبرائو نہیں!‘‘میں بتانے لگا،’’یہ تو غذا کو سمندر کی گہرائیوں میں اُتارنے کا اِلٰہی انتظام ہے،دیکھو تو !کیسا دلچسپ منظر ہے!‘‘
اللہ ،رازق اور رحیم ہے، اُس نے ہی اِن زُو پلینگٹنزکی یہ ذمہ داری لگائی ہے ۔یہ جیلی جیسا ایک گھر بناتیں ہیں،جو مکڑے کے جال جیسا ہوتا ہے، اِن کے ایک جال میں ہزاروں ’فائیلوپلینگٹنز‘کی اپنی بنائی ہوئی غذا کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور یہ اُن کو لے کر گہرائی کی طرف اُترنے لگتے ہیں،یہ کیونکہ ایک وقت میں کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں،ایک زُو پلینگٹن اپنی مختصر زندگی میں، چالیس چالیس ایسے جال بناتا ہے،جب یہ ان سب کوایک ساتھ پانی میں چھوڑتے ہیںتوایسا لگتا ہے جیسے سمندر میں زبردست طوفان آرہا ہے۔
’’اِدَھرتو دیکھئے! ‘‘شجی نے توجّہ دلائی،’’فائیلو پلینکٹنز، زُو پلینکٹنر،پودوںاور کائیوں سب کو کھانے ان سے بڑے ’کوپوڈ ‘اور ’کِرلز‘آگئے ہیں،ربّ کی طرف سے یہ اِن کا رزق ہے،یہ بھی ظلم تو نہیں کرتے ہیں۔‘‘
’’واہ میرے مولا! ‘‘عمر کو بھی ہوش آیا،’’کوپوڈاورکِرلز کوکھانے کیلئے ،جیلی مچھلیاں،لاروا مچھلیاں،چھوٹی مچھلیاں،اورحتیٰ کہ بڑی وہیل مچھلیاں تکبھی آگئے ہیں،کیا یہ بھی ظالم ہیں؟‘‘
’’نہیں!یہ تو ربّ ہی کی طرف سے اِن کا حلال رزق ہے۔‘‘
پھرہم اور نیچے چلے تودیکھا،یہاں مُردہ کائی،مختلف جانداروں کے مُردہ اجسام اور فضلے سمندر کی تہہ میں بیٹھتے جارہے ہیں،ان کویہاں بسنے والے جاندارجیسے:’ارچن‘،’سٹار فیشز‘اور سیپیاں کھارہی ہیں۔واپس مُڑے تو دیکھا کہ برف کے اُوپر رہنے والے’ سیل‘ اور’ والرس‘ اِن مچھلیوں کو کھارہے ہیں اور برفانی رینچ ان سب کو کھارہا ہے۔
’’یااللہ!رحم کر!‘‘ شجی فریاد کرنے لگا،’’اس طرح تو سب ختم ہو جائیں گے،پھر کیا ہوگا؟‘‘
’’نہیں!یہ ربُّ العٰلمین کایہ نَپا تُلا حساب کتاب ہے،‘‘میں پھر سمجھانے لگا،’’ اس طرح یہ خیرُ الرّازق کی طرف سے ’پولز‘کے قریب سمندر میں غذا کی فراہمی کا نظام ہے ،اس کو ’فوڈ وَیب‘ کہتے ہیں، اس میں نہ کھانے والے بھوک مرتے ہیں،نہ ہی کھائے جانے والوں کی نسل ختم ہوتی ہے۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ اللہ ربِّ تعالیٰ نے اِن سب کو پیدا کیا ہے،سب کو زندہ رہنے کیلئے رِزق کا انتظام کیا ہے اور ایک ایسا’ بیلینس‘ قائم کیا ہے کہ غذائی جال کے شروع میںبنیادی غذا بنانے والے پھر ایک کے بعد ایک ان کوشکار کرنے والے ’کنزیومر‘ کھانے والے ہیں،سمندر میں وہیل اور دیگر جاندار بڑوں کے ساتھ چھوٹے غذا بنانے والے ’فائیلوپلینکٹنز‘ اور ان کو کھانے والے ’زُوپلینگٹنز‘ کو بھی کھاتے ہیں،برف کے اُوپر برفانی رینچ ،سیل ،وارس کے ساتھ مچھلیوں کو بھی کھا تے ہیں۔
یہ ایک ایسا جال ہے جس سِرے والے یا درمیان والے کسی کو بھی کسی طرح ہٹا دیا جائے تو یہ ’بایولوجیکل بیلینس‘ قائم نہیں رہے گا،اس’حیاتی میزان‘ کی ہر وقت نگرانی سوائے ربِّ قادرِ مطلق کے سواکوئی کرسکتا ہے؟
’’بے شک ! نہیں کرسکتا!‘‘شجی بولا،’’چلیں !واپس چلتے ہیں،اب تھک گئے ہیں۔‘‘

حصہ