علم والوں سے پوچھ لو

322

سیدہ عنبرین عالم
جمعہ کا خطبہ جاری تھا، مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، عبداللہ آج 4 جمعے بعد مسجد آیا تھا اور پھر خطبے کے متن سے بے چینی محسوس کررہا تھا۔
مولوی صاحب نہایت خوش لباس اور خوش شکل تھے اور نہایت مہذب انداز میں گفتگو کررہے تھے۔ پچھلے امام صاحب کی طرح سُر میں تقریر نہیں کررہے تھے۔ ’’میرے محترم بھائیو!کیا آپ کو معلوم ہے آپ کی ذرا سی بے احتیاطی آپ کو کیسے جہنم میں لے جا سکتی ہے، ٹخنے پر اُڑنے والے پیشاب کے ایک قطرے کے بدلے میں آپ سو سال تک جہنم میں اپنے ٹخنے پر گرم لوہے کے داغ لگوائیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، پھر آپ کیسے اس گندگی کو ہونے دیتے ہیں؟‘‘ انہوں نے فرمایا۔
عبداللہ کی نظروں میں فوراً اپنی بھابھی کی شکل گھوم گئی، جو روز رات کو ایک بڑا سا پلاسٹک بچھاکر اپنے ایک سالہ بیٹے اور دو سالہ بیٹی کے ساتھ سوتی تھیں۔ پیمپرز کا خرچا اٹھانا عبداللہ کے بھائی جان کے لیے ممکن نہ تھا۔ روز صبح وہ دونوں بچوںکے پیشاب میں تَر اٹھتی تھیں۔ اُسی حالت میں عبداللہ کی امی کی صفائی روز صبح کرتیں جوکہ فالج کے باعث اٹھنے بیٹھنے سے معذور تھیں۔ پھر پورے گھر کی صفائی کرتیں، کپڑے دھوتیں اور ظہر سے پہلے غسل کرتیں، فجر تو وضو سے ہی پڑھتی تھیں۔
عبداللہ کانپ اٹھا، کیا میری فرشتوں جیسی بھابھی جہنم میں ڈال دی جائیں گی؟ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھا کہ مولوی صاحب بول اٹھے ’’میرے بھائیو! کیا آپ جانتے ہیں، اللہ کا عذاب کس قدر سخت ہے، آپ کا ایک گناہ پوری زندگی برباد کرسکتا ہے۔ وہ رحمن ہے، رحیم ہے، مگر ایک بار اس کو جلال آگیا تو پوری کائنات بھی اس پاک رب کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ جہنم میں بڑے بڑے کڑھائو چڑھے ہیں جو گناہ گاروں کے لیے ہیں۔‘‘ مولوی صاحب بولتے رہے اور عبداللہ لرزتا رہا۔ آخرکار وہ اٹھ کر گھر کی طرف چل پڑا۔ وہ خاصا ڈرا ہوا تھا اور دھیمے قدموں سے چل رہا تھا۔
گھر پہنچ کر وہ اپنی امی کے کمرے میں جاکر بیٹھ گیا۔ امی نے اس کے چہرے کی اداسی نوٹ کرلی اور پوچھا ’’کیا ہوا عبداللہ! میرا بیٹا جلدی آگیا مسجد سے؟‘‘
وہ کچھ دیر چپ رہا، پھر بولا: ’’امی اللہ کون ہے؟‘‘
’’پاگل ہوئے ہو کیا! اللہ ہمارا خالق ہے، ہمارا پالنے والا ہے، ہمارا آقا ہے۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ہاں وہ تو ہے، مگر مجھے اللہ سے ڈر کیوں نہیں لگتا؟ مجھے جہنم سے اور جہنم کے بڑے بڑے ظالم داروغوں سے خوف کیوں نہیں آتا؟ امی! مجھے تو اللہ کے نام سے ہی اپنے اندر ٹھنڈی برسات اترتی محسوس ہوتی ہے، مجھے تو لگتا ہے کہ ساری دنیا بھی اگر میرے اوپر ظلم کرے تو ایک اللہ ہی ہے جو مجھ پر رحم کرے گا۔ میں نماز پڑھتا ہوں تو اس لیے نہیں کہ نہ پڑھی تو جہنم میں جائوں گا، بلکہ اس لیے کہ میرا سوہنا رب مجھ سے ملاقات کررہا ہے، میں بات کررہا ہوں، وہ سن رہا ہے۔‘‘ عبداللہ نے اداسی سے کہا۔
’’بیٹا ڈر ہو یا محبت، یہ ایمان ہے۔ بس تعلق ہونا چاہیے، بھولنا مت۔ جہاں سے تم اپنے رب کو بھول گئے وہیں سے کفر شروع… بیٹا ہمارے پاس صرف دو اختیار ہیں: یا اللہ کو چنو، یا شیطان کو۔ جہاں اللہ نہیں وہاں شیطان ہے۔ خلا نہیں ہوسکتا۔ یا تو اللہ ہوگا یا شیطان… یہی اصول ہے۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’امی! ایک بار رابعہ بصریؒ ایک ہاتھ میں چراغ اور ایک ہاتھ میں پانی کی بالٹی لے کر جارہی تھیں۔ لوگوں نے پوچھا کہاں جارہی ہو؟ تو فرمایا ’’جنت کو آگ لگا دوں گی اور جہنم کو پانی سے بجھا دوں گی، اس کے بعد لوگ صرف میرے رب سے، رب کی خاطر محبت کریں گے۔ جنت جہنم کو خدا بننے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ عبداللہ نے ایک قصہ سنایا۔
’’ماشاء اللہ!‘‘ امی نے مسکرا کر کہا ’’بیٹا! رب کو رب کے لیے چاہنا بہت اونچا درجہ ہے۔ ایسا ابراہیمؑ کرسکتے ہیں کہ آگ میں کود پڑے، یا موسیٰؑ جو ایک لاٹھی کے زور پر سپر پاور کو چیلنج کرنے چل پڑے۔ ہم انبیاء جتنے پاک نہیں ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہِ راست پر لانے کا یہ طریقہ منتخب کیا ہے کہ ہمیں جہنم سے ڈرایا جائے اور جنت کا لالچ دیا جائے۔ یہ طریقہ اللہ کا ہے، مولوی صاحب کا نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا۔
عبداللہ چند لمحے بات سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ ’’آپ نے کہا کہ اللہ کو مت بھولنا، لیکن اس طرح تو ہم اللہ کو بھول جائیں گے اور ہمارے ذہن میں صرف جہنم اور جنت ہوں گی، یہ تو اپنا فائدہ اور نقصان ہوگا، اللہ سے محبت تو نہیں ہوگی۔‘‘ وہ پھرسوال کر بیٹھا۔
’’ہاں…‘‘ امی نے اپنے بستر پر کروٹ لینے کی کوشش کی، مگر نہ لے سکیں۔ ’’بیٹا! جب تم چھوٹے تھے تو ہر جماعت میں فیل ہوجاتے تھے، ایک بار تمہارے ابو نے تم سے وعدہ کیا کہ تم پاس ہوگئے تو تمہیں سائیکل دیں گے۔ پتا ہے کیا ہوا، تم پاس تو پاس، اوّل آگئے اور تمہارے ابو نے تمہیں سائیکل ہی نہیں دلائی بلکہ سب کو کلفٹن بھی لے گئے اور سب جھولوں پر بھی بٹھایا۔ بیٹا! اس سب میں تمہارے ابو کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ تمہارا اوّل آنا، سائیکل لینا اور سمندر پر جانا… سب تمہارا فائدہ تھا، مگر تم یہ سمجھتے رہے کہ تم نے ابو پر کوئی احسان کیا ہے جس کے بدلے میں وہ تمہیں خوش کررہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا۔
’’نہیں امی!‘‘ عبداللہ فوراً بول اٹھا ’’مجھے سب یاد ہے، مجھے تو یہ بھی یاد ہے کہ سمندر پر ابو نے سب کو ایک ایک آئس کریم دلائی، مگر جب میری آئس کریم ختم ہوگئی تو اپنی بھی انہوں نے مجھے دے دی۔ مجھے سب یاد ہے، میرا کوئی احسان نہیں، سب اُن کے احسان ہیں۔ وہ دنیا کے سب سے اچھے ابو تھے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
امی نے قہقہہ لگایا ’’جی بیٹا جی! یہ تو تم اب کہہ رہے ہو، مگر بچپن میں تم ہر کام اپنے ابو سے اسی ایک دھمکی سے کراتے تھے کہ اگر یہ نہ دلایا تو میں پھر فیل ہوجائوں گا، اور تمہارے ابو ڈر کے مارے تمہاری بات مان لیتے تھے، حالانکہ تمہاری بات ماننے اور ضدیں پوری کرنے میں ان کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ یہ محبت تھی بیٹا محبت! اور اب جب تم بڑے ہوگئے تو تمہیں اس محبت کی اتنی قدر ہے کہ تمہارے ابو کا نام بھی لو تو تمہاری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔‘‘ امی نے کہا۔
عبداللہ نم آنکھوں کے ساتھ بیٹھا تھا، چونک پڑا ’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ میرے بیٹے کہ ایمان کے ابتدائی مدارج میں چھوٹے بچوں کی طرح جنت جہنم کے ڈراوے دے کر صحیح اعمال پر راغب کیا جاتا ہے، پھر صحیح اعمال اور قرآن سے لی گئی مسلسل ہدایت کے بعد جب ایمان پختگی اور بلوغت پر پہنچ جاتا ہے تو پھر انسان کو اپنے رب کی محبت اور عنایت کی قدر ہونے لگتی ہے۔ پھر اس کا ایمان جنت اور جہنم پر منحصر نہیں ہوگا بلکہ عشق کی بالیدگی نصیب ہوگی، پھر رسول ہونے کی ضرورت نہیں رہتی، عام انسان بھی عمر فاروقؓ اور طارق بن زیادؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ بن جاتا ہے، اس کو موت کا ڈر نہیں رہتا کہ محبوب کے پاس ہی تو جانا ہے، اس کو غربت نہیں ڈراتی کہ محبوب کو راضی رکھنا ہے، وہ روح کی پاکی کو مانتا ہے، جسم بھلے بلالؓ کا ہو، اسے آقا مانتے ہیں۔‘‘ امی نے سمجھایا۔
’’ٹھیک‘‘ عبداللہ افسردگی سے بولا ’’تو پھر بات کو یوں سمجھا جائے کہ امتِ مسلمہ اب تک ایمان کے اس درجے میں نہیں پہنچی جسے عشق کہا جاتا ہے۔ ہمارے علماء اب تک گاجر اور چھڑی کی پالیسی سے امت کو سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب عشق نہیں ہے تو کوئی عمر فاروقؓ نہیں، کوئی طارق بن زیادؒ نہیں، کوئی صلاح الدین ایوبیؒ نہیں اور امت ذلیل و خوار۔‘‘
’’بات تمہاری بھی صحیح ہے۔‘‘ امی نے سر ہلایا ’’اور اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ علما ہی آپس کے جھگڑوں اور یاعلیؓ، یاغوثؒ کے نعروں میں پڑ کر امت کی صحیح رہنمائی نہ کرسکے۔ وہ پائنچے چڑھانے، حلیے بنانے اور کھجور کھانے کی اس قدر تبلیغ کرتے رہے کہ انہیں یاد نہ رہا کہ Big Bang theory قرآن میں موجود ہے جسے انگریزوں نے قرآن اترنے کے 1300 سال بعد دریافت کیا مگر ہمارے علما یہ دریافت نہ کرسکے۔ قرآن میں لکھا تھا کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا۔ ہمارے علما نے اس آیت کی یہ تفسیر کی کہ شادی کرنا سنت ہے۔ انیسویں صدی میں انگریز دریافت کرتے ہیں کہ نباتات کے جوڑے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ایٹم کے اندر نگیٹو، پازیٹو جوڑے ہوتے ہیں۔ اس واحد دریافت سے وہ سینکڑوں ایجادات کرلیتے ہیں اور ہمارے علما میلاد النبی اور محرم کے جلوس نکالتے رہے۔ یہ سب قرآن میں تھا تو ہمیں کیوں نہیں بتایا! صرف سُر میں گا گا کر تقریرکرنا کیا علم ہے!‘‘ انہوں نے کہا۔
’’بالکل، اگر یہ حقائق کھل جاتے تو ایمان پختہ ہوتے۔ پھر اس عظیم علم کے منبع سے جو معاشی اور معاشرتی فائدے ہوتے وہ امتِ مسلمہ کو مستحکم اور متحد کرتے، قرآن کے احکامات پر یقین اور عمل بڑھ جاتا، پھر عشق ہوجاتا۔‘‘ عبداللہ نے کہا۔
’’میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرو، چاہے چین جانا پڑے۔ اب فکر کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجوید، نعتیں اور وظیفے سیکھنے کے لیے تو چین جانے کا مشورہ نہیں دیا۔ اس کا مطلب وہ علم ہے جو علم الاشیا کے نام سے حضرت آدم علیہ السلام کو دیا گیا، جو دُنیوی اسباب اور معاشرت کی بہتری کے لیے ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہارے لیے کائنات بنائی، اسے تسخیر کرو۔ اللہ فرماتا ہے: سوچو، سمجھو، غور کرو۔ ہم اللہ کے نائب ہیں اور اللہ خالق ہے، تو کچھ تو تخلیق کی صلاحیت ہم میں بھی ہونی چاہیے، ورنہ ہم نیابت کے لائق نہیں۔ یہی تو مؤقف شیطان کا ہے کہ انسان نیابت کے لائق نہیں۔ ہمارا رویہ اور تخلیق سے بے پروائی شیطان کو کامیاب کررہی ہے۔ ہم ہار رہے ہیں، اللہ کی شکست کا سبب بن رہے ہیں۔‘‘ امی نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’انگریز تو تخلیق کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں، کیا وہ عاشق ہیں؟‘‘ عبداللہ نے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا! جہاں اللہ نہیں ہوتا وہاں شیطان ہوتا ہے۔ وہ تخلیق تو کررہے ہیں، وہ دریافت تو کررہے ہیں، مگر ان کی ہر محنت صرف شر کا باعث بن رہی ہے۔ چرچ کی مداخلت نے وہاں کے سائنس دانوں کو مذہب سے اتنا متنفر کردیا کہ وہ سب کچھ شیطان اور یہودیوں کی رہنمائی میں کررہے ہیں۔ مومن جب اللہ کے راز کھولے تو خیر، کافر جب اللہ کے معاملات میں گھسے گا تو بگاڑ پیدا کرے گا، وہ اللہ کی رضا نہیں دیکھے گا، بلکہ مالی فائدہ، قومی فائدہ اور تعصب کو دیکھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب مومن مسجدوں میں بند ہوگئے تو دنیا پر شیطان قابض ہوگیا اور ظلم ننگا ناچ رہا ہے۔‘‘ امی نے بتایا۔
’’لعن طعن تو ہر ایک ہی کرتا ہے، حل کیا ہے؟‘‘ عبداللہ نے بے چینی سے پوچھا۔
’’دلوں پر دستک دینی ہے بیٹا، تم اللہ کا ہاتھ اور زبان بن جائو، ہر ایک کو اللہ کے قریب لانے کی کوشش کرو۔ جمعہ جمعہ ایک گھنٹے کا خطبہ ناکافی ہے، دن رات اللہ کی محبت میں ڈوب جائو، اس کی کتاب پڑھو، فکر کرو، غور کرو، ہر سانس وہی کرو جو اللہ کی کتاب میں حکم ہے۔ تم اللہ کی ایسی لاٹھی بن جائو جو کسی فرعون کے آگے نہ جھکے۔ بیٹا یہ عمر فاروقؓ، طارق بن زیادؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ کیا تھے؟ کچھ نہیں، بس ان کا عشق انہیں نشانِ منزل بنا گیا۔ وہ بھی ہمارے جیسے انسان تھے، مگر جو انسان اللہ کا ہاتھ اور زبان بن جائے وہ کبھی نہیں ہارتا۔‘‘ امی نے کہا۔
’’شکریہ امی! آج آپ نے میری بہت مدد کی۔‘‘ عبداللہ نے مسکرا کر کہا اور بھابھی کی مدد کرنے کچن کی طرف چل پڑا۔

حصہ