ہم ایک ہیں

281

عرشمہ طارق
’’السلام علیکم امی جان…!‘‘ عمر نے اسکول سے آکر امی کو سلام کیا اور اُن کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
’’بیٹا! آج آنے میں دیر کردی!‘‘ امی نے اس کا سر سہلاتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
’’جی ہاں امی جان، ہمارے اسکول میں 23 مارچ کے موقع پر ایک پروگرام منعقد کیا جائے گا، اُس میں تقریری مقابلے بھی ہوں گے، بس اسی کی تیاری کے سلسلے میں ہمارے پرنسپل صاحب نے سب بچوں کو جمع کیا تھا۔ میں نے بھی اس میں حصہ لیا ہے اور میری تقریر کا عنوان ہے ’’قراردادِ پاکستان‘‘۔ عمر نے امی کو تفصیل بتائی۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے، بچوں کو ایسی سرگرمیوں میں ضرور حصہ لینا چاہیے، اس سے ان میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے اور معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ امی نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا۔
’’امی جان میں اپنی تقریر کی تیاری میں کس سے مدد لوں؟ باجی اور بھائی تو اپنی ہی پڑھائی میں اتنے مصروف ہوتے ہیں۔ ابو کے پاس بھی ٹائم نہیں ہوتا، اور آپ ہر وقت گھر کے کاموں میں لگی رہتی ہیں۔‘‘ عمر نے ماں کو پریشانی بتائی۔
’’یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، تم اپنے نانا جان کی مدد سے تقریر کی بہت اچھی تیاری کرسکتے ہو۔ وہ تو اکثر ہمیں قیام پاکستان کے وقت کی باتیں بتاتے تھے کہ کس طرح انہوں نے اور اُن کے آبا و اجداد نے وہ مشکل وقت گزارا، اور ہجرت کرکے پاکستان آئے۔‘‘ عمر امی کی بات پر ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کیا واقعی امی جان! میں آج ہی نانا جان سے اپنی تقریر کی تیاری میں مدد لوں گا۔‘‘
شام کو عمر کاپی پینسل لے کر نانا جان کے سامنے بیٹھ گیا اور ان سے قراردادِ پاکستان کے بارے میں پوچھا۔ نانا جان کی آنکھوں میں یک دم چمک آگئی اور انہوں نے بتایا ’’بیٹا میں اُس وقت بہت کم عمر تھا لیکن پھر بھی جذبۂ حب الوطنی کے تحت اپنے والد صاحب کے ساتھ جلسے جلوسوں میں جایا کرتا تھا۔ والد صاحب اکثر ہم سے ان تحریکوں اور پُرجوش اور باہمت رہنمائوں کا ذکر کرتے تھے، اس لیے بھی مجھے یاد ہے کہ لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں بروز جمعہ 23 مارچ 1940ء کو مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں ایک لاکھ سے زائد افراد جمع تھے۔ محمد علی جناح کی آمد پر پورے مجمع نے ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس اجلاس کی صدارت قائداعظم نے خود فرمائی اور بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرارداد پیش کی جسے ’’قراردادِ لاہور‘‘ یا ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس قرارداد کے بعد نیا جوش و جذبہ اور ولولہ حاصل ہوا۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہندو اور مسلمانوں کا مذہب الگ، ان کی طرزِ معاشرت الگ، رسم و رواج الگ، اور ان کا ادب الگ۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرسکتے ہیں، نہ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔ قرارداد میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ ’’ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اس طرح کی مسلم مملکتیں قائم کی جائیں جو خودمختار اور آزاد ہوں۔‘‘
’’نانا جان، ہندوئوں کا کیا ردعمل تھا؟‘‘ عمر نے دل چسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ نانا جان نے بتایا ’’اس قرارداد سے ہندو سراسیمہ ہوگئے اور گھبرا گئے۔ انہوں نے انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کے مطالبے کو نامنظور کردیا جائے۔ لیکن مسلمان قائداعظم کی قیادت اور رہنمائی میں متحد ہوچکے تھے اور وہ اپنے اعلیٰ مقصد کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دینے کو تیار تھے، قراردادِ لاہور ہی دراصل پاکستان کی اصل بنیاد بنی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا نانا جان؟‘‘ عمر ساری باتیں کاپی میں نوٹ کرتا جارہا تھا۔ نانا جان نے مسلمانوں کے جوش و جذبے سے متاثر ہوتے ہوئے بتایا کہ ’’اس قرارداد کا منظور ہونا تھا کہ کانگریسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔ ہندو اخبارات نے قرارداد کی مذمت میں ان گنت اداریے لکھ ڈالے۔ لیکن ہندوئوں کی ہر کوشش ناکام ہوگئی اور مسلم لیگ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ مسلم لیگ بڑی تیزی سے ایک جماعت بن گئی۔ اس کا لائحہ عمل بالکل صاف اور واضح تھا، یعنی یہ کہ تمام مسائل کا حل برصغیر کی تقسیم ہے۔ آزاد مسلم ریاست کا تصور مسلم عوام کے لیے اس قدر خوش آئند تھا کہ ان میں جوش و خروش کی انتہا نہ رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف سات سال کے قلیل عرصے میں ہم نے ایک آزاد مملکت حاصل کرلی جس کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے اور جو ہماری پہچان ہے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے نانا جان نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں۔
’’کیا ہوا نانا جان؟‘‘ عمر نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’بیٹا آج کل ملک کے جو بگڑے ہوئے حالات ہیں، انہیں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ یہ وہ پاکستان تو نہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، قائداعظم اور ان کے ساتھیوں نے انتھک محنت کی، اتنی جدوجہد کی، ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں۔ بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں پامال کی گئیں، خاندان کے خاندان اجڑ گئے تب کہیں جا کر ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔ ہمیں ان قربانیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ بیٹا تم اپنی تقریر میں سب پاکستانیوں کو مخاطب کرکے یہ پیغام ضرور دینا کہ ’’ہم سب ایک ہیں، ہمیں مل کر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ پاکستان کی ترقی و تعمیر کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، پڑھ لکھ کر اچھے انسان بنیں اور اپنے ملک پاکستان کا نام روشن کریں۔‘‘
نانا جان کی باتوں نے عمر کو بہت متاثر کیا۔ ’’شکریہ نانا جان، آپ نے اتنی اچھی باتیں بتائی ہیں۔ مجھے امید ہے میری تقریر سب کو پسند آئے گی۔‘‘
’’ان شاء اللہ …‘‘ نانا جان نے عمر کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

حصہ