ہجرت

677

تنویر فاطمہ
ہجرت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔ اس کی ابتدا حضرت آدم و حوّا علیہم السلام کے جنت سے اتارے جانے سے ہوئی۔ لیکن یہ شعوری ہجرت نہیں تھی، بلکہ ایک نافرمانی کی سزا کے طور پر ہوئی۔
دوسری ہجرت جو شعوری اور قابلِ تحسین و تحمید تھی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت تھی جو انہوں نے اپنے وطن بابل سے کنعان کی جانب کی۔ تیسری ہجرت جو حکمِ خداوندی پر سر جھکاتے ہوئے کی گئی وہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی تھی، انہوں نے اپنے رب کے حکم اور شوہر کی فرماں برداری کے لیے ایک بیابان میں رہنا گوارا کیا جس کا انعام رب کریم نے یہ دیا کہ اس سرزمین کو مرجع خلائق بنادیا۔ پھلوں اور رزق کی ایسی فراوانی ہوئی کہ پوری قوم غنی ہوگئی۔ ان کے صبر اور سعی کو حج کے ارکان میں شامل کردیا۔ چوتھی ہجرت بنی اسرائیل کی مصر سے نکلنے اور فرعون سے نجات حاصل کرنے کی تھی۔ فلسطین میں آباد ہونے کے بعد اللہ کریم نے انہیں قوموں پر فضیلت عطا فرمائی۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف ہوئی جس میں ربِّ ذوالجلال و الاکرام نے وہ خیروبرکت فرمائی کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ گو کہ مدینہ منورہ کی آب و ہوا مہاجرین کے لیے زیادہ سازگار نہیں تھی لیکن دارالکفر کے مقابلے میں دارالاسلام میں رہنا باعثِ عز و شرف ہوا۔
مدینہ طیبہ کی ہجرت کے بعد سب سے بڑی ہجرت 1947ء کی ہجرت ہے۔ ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان آنے والوں نے اپنے دین کے لیے جان و مال، وطن، سب قربان کردیا۔ اپنے پرکھوں کی قبریں چھوڑ کر صرف اس لیے یہاں آئے کہ دارالکفر میں رہنا گوارا نہ تھا۔
جب بھی کسی قوم یا فرد نے اللہ کے لیے ہجرت کی تو آخرت کے اجر کے علاوہ رب کریم نے اِس دنیا میں بھی اُس پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیے۔ جنت سے زمین پر آئے تو اللہ نے ہر قسم کی آسانی اور سوجھ بوجھ عطا فرمائی کہ اس دنیائے رنگ و بو میں اپنی جنتیں تعمیر کریں اور نسلِ انسانی کے شرف کے لیے عمدہ سے عمدہ بودوباش اختیار کریں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت فرمائی تو رب ذوالجلال و الاکرام نے کنعان میں بہترین مقام عطا فرمایا اور ابوالانبیا کے مقام پر فائز فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو دوسری قوموں پر فضیلت عطا فرمائی اور امامت کا شرف دیا گیا۔ اب یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ مسلسل نافرمانیوں سے وہ مقام کھو دیا۔ ہجرتِ مدینہ مسلمانوں کی زندگی میں ایک انقلاب لے کر آئی۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن سے نکلے تو بے حد دل گرفتہ تھے، اپنوں کی شقاوت قلبی کا صدمہ اور دیارِ غیر کے سفر کے ہزاروں اندیشے، لیکن اپنے رب کے حکم اور دین کی بقا کے لیے جب قدم اٹھا لیا تو مڑ کر نہیں دیکھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اہلِ مدینہ کی وسعتِ قلبی نے وہ استقبال کیا کہ رب کی رحمتیں اور برکتیں امڈ آئیں، اور وہ جو سب کچھ لٹا کر بے یارومددگار گھر اور وطن سے نکلے تھے، اللہ رب العزت نے انہیں غنی کردیا، اور اسلام کی یہ چھوٹی سی ریاست چند برسوں میں ساری دنیا پر چھا گئی، یعنی ہجرت کا ثمر مل کر رہا۔
ہندوستان سے پاکستان کی جانب ہجرت بھی انوکھی ہجرت تھی۔ انصار نے حقِ میزبانی ادا کیا اور لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ وطن چھوڑ کر آئے تھے اس مملکتِ خداداد میں سما گئے۔ شروع کے چند سال میں تو یہ جذبہ قائم رہا لیکن شیطان کی چالیں رفتہ رفتہ لوگوں کو بددل کرنے لگیں۔ وہ حکم جو رب کریم نے اپنے کلامِ پاک میں دیا ہے کہ ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو‘‘ کو ذاتی مفاد کی خاطر پسِ پشت ڈالنے لگے۔ ہجرت کے صلے میں اللہ رب العزت نے اس ملک کو انعامات تو بہت دیے اور ممکن تھا کہ یہ قوم دنیا میں سربلند اور باوقار ہوتی، اور ہونا بھی یہی تھا، مگر تعصب کا جن بوتل سے نکل آیا اور اتحاد اور اعتماد کے ٹکڑے اڑا دیے۔ قومِ واحد جو مسلم اور پاکستانی تھی، کئی قومیتوں میں بٹ گئی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے بے حد و بے حساب نعمتوں سے نوازا، کسی شے کی کمی نہیں تھی، بہترین ذہن اور بہترین صلاحیتوں والی محنت کش اور جفا کش قوم کے لوگ صرف اپنے اپنے حقوق کی بات کرنے لگے، پھر فرائض کہاں یاد رہتے! انصار ہوں کہ مہاجر، ہر کسی کو اپنے استحصال کے مخمصے میں پھنسا کر شیطان مسرور و محظوظ ہونے لگا اور خلقِ خدا پریشان و سرگرداں۔ جدھر دیکھو تعصب اور تفرقہ… جس قوم کو ہجرت اور محبت کے ثمرات سمیٹنا تھے اور دین و دنیا میں سربلند ہونا تھا وہ ذاتی منفعت کے چکر میں پستیوں میں لڑھکنے لگی۔ وہ امت جس پر ربِ عظیم نے امامتِ عالم کا تاج رکھا تھا، آج کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ آفاتِ دُنیوی و سماوی کی تنبیہ بھی ہوش مندی پر مائل نہیں کرتی، پڑھے لکھے دین دار اور اہلِ شعور بھی جب اشتعال میں آتے ہیں تو متعصبانہ بات کہنے سے نہیں چوکتے، حالانکہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید ہے کہ تعصب سے بچو۔ لیکن آج ہماری قوم جو ایک اللہ، ایک قرآن اور آخری نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ماننے والی ہے، صوبے، برادری، قبیلے کے تشخص پر نازاں ہے، اور ہر فرد دیگر قوموں کی تذلیل کرتا نظر آتا ہے۔
اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ ہم سب کو ان تعصبات سے نجات دے کر ہجرت کے ثمرات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

حصہ