شریکِ مطالعہ

315

نعیم الرحمٰن
پاکستانی معاشرے میں مطالعے کارحجان کم ہوتاجارہاہے۔ہمارے بہت سے مسائل کی وجہ بھی یہ ہے کہ عوام ادب اورمطالعے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ کتابوں کی مہنگائی اورعدم دستیابی بھی بڑی وجہ ہے۔عوام تک ان کی پسند کی کتب وجرائد کے بارے میں معلومات نہیں پہنچ پاتیں۔مرحوم حمیداختراپنے کالموں میں نئی شائع ہونے والی کتابوں کاذکرکرتے رہتے تھے۔لیکن ان کے انتقال کے بعد ایساکوئی کالم شائع نہیں ہورہا۔ظفراقبال صاحب کبھی کبھار موصولہ کتب کاذکرکرتے ہیں۔ لیکن ان کے کالم میں محض کتابوں کے نام ہی شائع ہوتے ہیں۔ اگرنثروشعر کے مختلف موضوعات پرشائع شدہ کتابوں کے بارے میں شائقین کوعلم ہوسکے توکچھ لوگ ضروران میں سے بعض اپنے مطلب کی کتب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔قاری جب بھی کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے۔ تو اس کا دل کرتا ہے کہ وہ اس لطف میں کسی کوشامل کرے۔ اسی نکتہ نظر سے میں موقر اخبار جسارت میں ’’شریک مطالعہ ‘‘ کے نام سے کالم کاآغاز کر رہا ہوں۔ میرا کالم پڑھ کر کوئی ایک کتاب بھی کسی قاری نے حاصل کی۔ تو میرا مقصد حاصل ہو جائے گا۔
دوست پبلشرز نے حال ہی میں فاروق عادل کی خاکوں کی کتاب ’’جو صورت نظر آئی‘‘ شائع کی ہے۔ فاروق عادل نے چند سال قبل امریکا کا منفرد سفرنامہ ’’ایک آنکھ میں امریکا‘‘ تحریر کیاتھا۔ جو بہت عمدہ کتاب تھی۔ جو صورت نظر آئی کے دوسو انسٹھ صفحات میں پینتیس خاکے شامل ہیں۔ انہوں نے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد کے دلچسپ خاکے لکھے ہیں۔جن میں بانی ٔ پاکستان قائد اعظم سے لے کر میاں طفیل محمد، ائر مارشل اصغر خان، نصرت بھٹو، بے نظربھٹو اور دیگر کے خاکے شامل ہیں۔ چند صفحات کی تحریر کا فاروق عادل نے جو عنوان دیا ہے۔ انہیں سے صاحب تحریر کا پرتو نظر آ جاتا ہے۔
معروف ادیب رضاعلی عابدی نے کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’’ مقبول اورکم مقبول لوگوں کی زندگی پرلکھناآسان نہیں۔قلم جب کاغذپرچلتاہے توحقیقت یہ ہے کہ وہ پل صراط پرچل رہاہوتاہے۔ہرہرسطر میں آبگینوں کوٹھیس لگنے کاامکان نہیں ،خطرہ ہوتاہے۔فاروق عادل نے بڑی مہارت سے کہیں کسی دل آزاری کاخطرہ مول نہیں لیا۔‘‘
خاکا نگارکے منفرد اسلوب کی بناپرقاری پہلی لائن سے ان کی تحریرکی گرفت میں آجاتاہے۔قائداعظم کاخاکا ’’دوراندیش‘‘ کے نام سے کتاب کے آغاز میں ہے۔جس میں قائد کی شخصیت کے بعض پہلووں کی نشاندہی کی گئی ہے۔اس خاکے کاابتدائیہ دیکھیں’’ باراک اوبامہ صدرمنتخب ہوئے توریاض اینڈی نے انکشاف کیاکہ قائداعظم نے تویہ پیش گوئی 1948میں کردی تھی۔ وہ کیسے؟۔احباب کوحیرت نے آلیا،ریاض لحظہ بھرپرُسکون رہاپھریادوں کوٹٹولتے ہوئے کہا: قائد اعظم نے فرمایا!ینگ مین !سیاہ فام امریکی پہلے کھیلوں میں نام پیداکریں گے پھروہ سیاست پرچھاجائیں گے۔‘‘
تحریک پاکستان کاایک منفردکردارمرزاجوادبیگ کاخاکہ ’’نواب موسیٰ کانواسا‘‘ کے نام سے ہے۔خاکے کاآغازکچھ یوں ہوتاہے’’ایک شخص ٹرین سے اُترا،تانگے میں بیٹھااورسیدھاتھانے جاپہنچا،کیا کہ قیدی ہوں، مجھے پکڑ لیجیے۔‘‘ کیا اس جملے کے بعد کوئی قاری خاکا ادھورا چھوڑ سکتا ہے۔ خاکے میں بانیان پاکستان کے کردار اور شخصیت کھل کرسامنے آتی ہے۔
سابق امیرجماعت اسلامی محترم میاں طفیل محمد کے خاکے کا عنوان ہے۔ ’’درویش‘‘۔ سید علی مردان شاہ پیر پگارا مرحوم کو ’’ستارہ شناس‘‘ کا نام دیا۔ ائرمارشل اصغر خان ’’عمر اصغر کے والد۔‘‘ پروفیسر غفور احمد کا خاکا ’’ہر دل عزیز۔‘‘ کے زیرعنوان ہے۔ بیگم نصرت بھٹو کو ’’دکھیاری‘‘ غلام مصطفٰی جتوئی کو ’’بارہواں کھلاڑی۔‘‘ نیر خداداد خان لک کو ’’ڈیرے دار۔‘‘ ترکی کے سربراہ رجب طیب ایردوان کو ’’صورت گر۔‘‘ اور بے نظیربھٹو کے خاکے کو’’ عملیت پسند۔‘‘ کا نام دیا ہے۔ قاضی حسین احمد کا خاکا ’’مہم جُو۔‘‘ اجمل خٹک کو ’’مارکسی صوفی۔‘‘ سردار فاروق احمد خان لغاری کو ’’نرم گرم وڈیرا۔‘‘ جاوید ہاشمی کو’’پروانہ۔‘‘ آصف علی زرداری کو ’’مردِ اوّل‘‘۔ مشاہد اللہ خان کو’’بھائی جی۔‘‘ شیخ رشید احمد کو ’’کاریگر۔‘‘ بشیر احمد بلور کو ’’کالا انگریز۔‘‘ الطاف حسین کو’’عزیز آباد کا پیر۔‘‘ جاوید احمد غامدی کو’’راہرو۔‘‘ اور محمد صلاح الدین کے خاکے کو’’جانباز۔‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ صحافی الطاف حسین قریشی ’’جادوگر۔‘‘ شاعر و ادیب عطا الحق قاسمی’’جامع الکمالات۔‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا ’’ صاحب اوراق۔‘‘ حکیم محمود احمد سروسہارن پوری ’’گرم دم جستجو۔‘‘ جنرل حمیدگل ’’حمید رومانی۔‘‘ حسین حقانی کو’’ اسٹریٹ اسمارٹ۔‘‘ ایئرکموڈورایم ایم عالم کو ’’شاہین۔‘‘ سید ذاکر علی کو’’خادم قرآن۔‘‘ عبد الحمید شیخ کو بلبلہ۔‘‘ اور نعیم اخترخان کو’’ صاحب ِدل۔‘‘ مہرحبیب الرحمن ملک کو ’’ترقی پسند وڈیرا۔‘‘ خالد محمود مرحوم کو ’’معمہ۔‘‘ اور عبدالصمد سرکار کا خاکہ’’بے وطن۔‘‘ زیرعنوان ہے۔اوران تمام عوانین سے خاکے کانفس مضمون کااندازہ ہوجاتاہے۔ پانچ سوپچیس روپے کی کتاب قاری کی توجہ شروع سے آخر تک قائم رکھتی ہے۔
محترم راشدحبیب نے کچھ عرصہ قبل نایاب اوراچھی کتابوں کی کم قیمت اشاعت کابیڑہ اٹھایاتھا۔ اورزندہ کتابیں کے نام سے انہوں نے کئی بہت اچھی ،عمدہ اوربرسوں سے نایاب کتب شائقین کے ذوقِ مطالعہ کے لیے پیش کیں۔ جن میں مشہور کالم نگار نصراللہ خان کی خاکوں کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا رہا۔‘‘ بھی شامل ہے جس کی اشاعت نوکسی کارنامے سے کم نہیں۔ ادارے سے تازہ اشاعت اردوکے مشہورومعروف ادیب اخلاق احمد دہلوی کی آپ بیتی ’’یادوں کاسفر۔‘‘ ہے۔یہ بھی اپنے دورکے معروف ادیب کے نایاب سرگزشت ہے۔ تاہم اس کتاب میں اگلے کتابوں کی اشاعت کے بارے میں کوئی ذکرنہیں ہے۔جس سے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیازندہ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہے گا۔یہ ایک بہت اچھا اشاعتی سلسلہ ہے۔جن کے ذریعے قاری کوگمنام اورنایاب کتب کے مطالعے کا موقع مل جاتاہے۔اس سلسلے کوجاری رہنا چاہئے۔
اقبال نظرکے ادبی جریدے ’’کولاژ۔‘‘ کا تاز ہ اور آٹھواں شمارہ بھی حال ہی میں منصہ شہود پرآیاہے۔ اقبال نظرنے پرچے کا پانچواں شمارہ گلزارنمبرکی صورت شائع کیاتھا۔یہ منفرد اوربھرپور شمارہ جہلم بک کارنر نے ’’گلزارنامہ۔‘‘کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیاہے۔ جو مستقل اہمیت کا حامل ہے۔ گذشتہ سال کولاژ کے دوشمارے چھ اورسات نمبرایک ساتھ شائع کئے گئے تھے۔جس کے بعد تازہ شمارے کے بروقت آنے سے کولاژ کی اشاعت میں باقاعدگی آگئی ہے۔چارسوصفحات کے شمارے کی قیمت پانچ سوروپئے ہے۔جس میں نظم،نثر،تنقید اور ادب کی دیگراصناف پرتحریریں شامل ہیں۔دوناولوں کے حصے بھی شامل اشاعت ہیں۔غرض ہرقسم کے قاری کی دلچسپی کاسامنا پرچے میں موجود ہے۔کولاژ کی مستقل اورباقاعدہ اشاعت کے لئے دعاگوہیں۔

غزلیں

ابتدا درد ہے انتہا درد ہے
عشق کا درد تو لا دوا درد ہے
یہ نیا پھول ہے اور یہ خوشبو نئی
یہ نئی شام ہے اور نیا درد ہے
زخم کیسا ہے بھرتا نہیں ہے کبھی
درد ہوتا نہیں ہے یہ کیا درد ہے
ایک پل میں کہاں کھو گئی ہے خوشی
اب تو الفت کی بس اک سزا درد ہے
چھوڑ شاہیںؔ وفا کا تو اب تذکرہ
بے وفا ہے خوشی با وفا درد ہے

ثمینہ گل
اک چاند سمندر میں ہے اک چاند سمندر
دامن میں لیے پھرتا ہے بس جان سمندر
کشتی کے اشاروں سے جو گھبرا کے گرا ہے
دیکھا ہے کئی بار وہ بے جان سمندر
سب کچھ تو سمندر سے ہی حاصل یہ ہوا ہے
تہذیب و تمدن کی ہے پہچان سمندر
گہرائی میں جھانکو تو کنارا نہ ملے گا
ساحل پہ اتر آتا ہے نروان سمندر
بے چین کیے رکھتے ہیں یادوں کے جزیرے
بے تاب ہے آنکھوں میں ہر اک آن سمندر

تبسم فاطمہ رضوی
عمر کی اتنی بس کہانی ہے
صبح جانی ہے شام آنی ہے
ظاہری زخم بھر گئے سارے
لہجے کا زخم جاودانی ہے
یہ تلاطم جو ہے سمندر میں
میرے جذبات کی روانی ہے
اکھڑے اکھڑے ہیں آپ کیوں بولیں
صاف کہہ دیں جو بد گمانی ہے
لب پہ بکھرے ہوئے تبسم سے
اُن کی آنکھوں میں خوش گمانی ہے

حصہ