سفر در سفر

285

شاہجہاں رشید
برسوں گزر گئے، پَر آج بھی وہ دن پوری جزیات کے ساتھ میری آنکھوں میں زندہ ہے۔ ہمارا بھرا پرا گھر تھا، پیسے کی فراوانی تھی، اچھا پہننا، اچھا کھانا… میکہ بھی کھاتے پیتے گھرانوں میں شمار ہوتا تھا اور سسرال میں اس سے بھی زیادہ خوش حالی ملی۔ محبت کرنے والی ساس اور سسر، چاہنے والے شوہر اور پیارے پیارے بچے۔ اللہ نے ہر طرح نوازا تھا۔ میں خدا کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی، اور سارا دن گھر کے کاموں میں مصروف رہنے کے باوجود بھی تھکن کا احساس نہ ہوتا۔
میرے میاں کی بڑی مارکیٹ میں کپڑے کی چلتی ہوئی دکان تھی۔ سسر کے بعد میاں نے ہی سارا کاروبار سنبھالا ہوا تھا۔ گھر میں ساس نے گھر کا سارا انتظام میرے حوالے کردیا تھا۔ مگر میں نے کبھی اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہمیشہ ساس کی عزت کی، بچوں کو بھی دادی سے محبت اور احترام سے پیش آنے کا درس دیا۔ جب میاں شام کو تھکے ہارے گھر آتے تو پہلے اماں کے پاس بیٹھتے۔ سب بچے ادب سے سلام کرکے اِدھر اُدھر ہوجاتے۔ میں بھی کھانا لگانے کے لیے آخری تیاری کررہی ہوتی تھی۔
جیسے ہی وہ منہ ہاتھ دھوکر تازہ دم ہوجاتے، میں بچیوں کے ساتھ مل کر دستر خوان لگواتی اور سب مل کھانا کھاتے۔ رات کو سونے سے پہلے میں ساس کو گرم دودھ کا گلاس دینے جاتی تو اُس وقت بھی میرے میاں ماں کے پیر دبا رہے ہوتے تھے۔ مگر میں نے کبھی برا نہیں مانا، بلکہ اپنے ہاتھ سے انہیں دوا کھلا کر دودھ پینے کی تاکید کرکے بچوں کے کمرے میں آتی، انہیں سب کام نمٹا کر جلد سونے کی تاکید کرتی اور آخر میں اپنے کمرے میں آتی۔ کتنی ہی تھکن کیوں نہ ہوتی، ایک آسودہ مسکراہٹ ہمیشہ ہونٹوں پر رہتی، کیونکہ یہ احساس رہتا تھا کہ یہ سب میں اپنوں کے لیے کررہی ہوں، اس میں میری فلاح ہے۔
زندگی اسی طرح رواں دواں تھی۔ زندگی کا ہر سُکھ، ہر خوشی میری جھولی میں تھی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، میاں نے جلدی دکان بند کرکے گھر آنا شروع کردیا۔ چپکے چپکے ماں کے ساتھ باتیں کرتے رہتے۔ میں کمرے میں جاتی تو دونوں خاموش ہوجاتے۔ میاں کے چہرے پر تفکر کے سائے بڑھتے دیکھ کر میں نے انہیں کریدنے کی بہت کوشش کی، مگر انہوں نے مجھے کچھ نہ بتایا۔ ساس کی دعائیں اور وظیفے بھی بڑھنے لگے، مگر میرے لاکھ پوچھنے پر بھی مجھے کچھ بتانے پر راضی نہ ہوئیں۔
کاش اُس وقت مجھے بھی تھوڑی سی آگاہی ہوجاتی تو میں کچھ بندوبست کرلیتی۔ کم از کم زیور، پیسہ، کچھ ضروری چیزیں اس طرح رکھتی کہ فوری طور پر ہاتھ میں اٹھا سکتے۔ لیکن اللہ کو یہی منظور تھا۔
ایک شام جب میں کھانا پکا کر فارغ ہوگئی، بچوں کو نہلا دھلا کر تیار کیا۔ آخر میں ننھے کو نہلانے جارہی تھی کہ میاں کو حواس باختہ گھر میں داخل ہوتے دیکھا۔ ’’جلدی کرو… اماں جلدی اٹھو…بچو جلدی آئو…‘‘ میں ننگے بچے کو سینے سے چمٹائے، ایک بچے کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف دوڑی۔ بڑی بیٹی نے دو چھوٹے بھائیوں کے ہاتھ پکڑے اور میاں اماں کو سہارا دے کر باہر کی طرف لپکے۔ باہر عجیب افراتفری کا سماں تھا۔ سب گھروں سے لوگ اسی طرح خالی ہاتھ، خالی دامن اپنے پیاروں کو سنبھالے جوق در جوق نکل رہے تھے۔ سب کا رخ ایک ہی طرف تھا۔ پیچھے سے دفعتاً شور مچاتا ایک گروہ ہاتھوں میں لاٹھیاں اور جلتی ہوئی مشعلیں لے کر نمودار ہوا۔
سب نے اور تیز دوڑنا شروع کردیا۔ ایسے میں اماں ٹھوکر کھا کر گریں۔ میاں انہیں اٹھانے کو رکے، مگر اماں نے اپنے دودھ کی قسم دے کر انہیں ہم سب کے ساتھ بھاگنے پر مجبور کردیا۔
اماں اور انہی جیسے اور بہت سے بزرگ، بیمار اور کمزور بچے اس افراتفری کی نذر ہوگئے اور کچھ بلوائیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
بھاگتے بھاگتے ہم لہولہان ہوگئے۔ کچھ لوگ گھر سے ننگے پیر بھاگے تھے اور کچھ کی چپلیں ٹوٹ کر راستے میں گریں۔ اُس وقت صرف جان بچانے کی فکر تھی، اور جن کے ساتھ جوان عورتیں اور بچیاں تھیں انہیں اُن کی عزتوں کا خیال تھا۔ بس یہ خوف رکنے نہیں دے رہا تھا۔
بھاگتے بھاگتے ایک بڑا سا پھاٹک کھلا نظر آیا، اور سب جوق در جوق اس میں گھستے چلے گئے۔ سب کے اندر داخل ہونے کے بعد پھاٹک بند کردیا گیا۔ جب ذرا اوسان بحال ہوئے تو احساس ہوا کہ وہ ایک بہت بڑی حویلی ہے، لیکن اُس وقت یہ اطمینان رخصت ہوگیا جب ایک لالہ جی کو سامنے سے آتے دیکھا۔ یااللہ ہندوئوں سے بچ کر پہنچے بھی توکہاں…! ایک ہندو کی حویلی میں… لیکن کسی نے سچ کہا ہے کہ اچھے اور برے ہر مذہب، ہر قوم اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔لالہ جی نے سب کو تسلی دی، اپنے ملازمین کو کھانے کا انتظام کرنے کو کہا اور مختلف جگہوں پر فون کرکے ہم سب کو بحفاظت بندرگاہ پہچنانے کا انتظام کیا، کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ وہ زیادہ دیر ہمیں چھپا نہیں سکتے اور نہ ہی اپنے لوگوں کی مخالفت مول لے سکتے ہیں۔
ہمارے لیے اتنا ہی بہت تھا۔ جب تک ہم کھانے سے فارغ ہوئے، گیٹ پر فوج کے دو ٹرک آکر رکے۔ لالہ جی نے اپنے منشی سے کہہ کر خاندان کے سربراہ کے ساتھ اُس کے اہلِ خانہ کے نام لکھ کر پوری فہرست تیار کی، پھر ہم سب کو ٹرکوں میں سوار کروا کر خود اپنی گاڑی میں ہمارے ساتھ ساتھ چلے۔
بندرگاہ پر ایک بحری جہاز جانے کو تیار کھڑا تھا۔ انہوں نے کپتان سے مل کر وہ فہرست اُس کے حوالے کی اور ہم سب کا خصوصی خیال رکھنے کا وعدہ لیا، اور ایک خطیر رقم اس مد میں جہازراں کمپنی کو ادا کی۔
خدا خدا کرکے ہم نے اس مقدس سرزمین پر قدم رکھا۔ یہاں ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ محفوظ کیمپوں میں پہنچایا گیا۔ علاج معالجہ، کھانا پینا سب کچھ ملا۔
آہستہ آہستہ کچھ لوگوں نے ملازمت حاصل کی، کچھ نے کاروبار کی کوشش کی، اور گورنمنٹ اور مخیر حضرات کے تعاون سے رہائش کا انتظام بھی ہوتا گیا۔
جدوجہد کی ایک لمبی کہانی ہے۔ میرے میاں زیادہ عرصے زندہ نہیں رہ سکے، جن آزمائشوں سے وہ گزرے اور جس طرح اپنی ماں کو بے یارومددگار درندوں کے سامنے چھوڑنے پر مجبور ہوئے اس احساس نے انہیں جینے نہیں دیا۔ بس وہ اس بات پر ہی خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے تھے کہ اللہ نے ان کی بیوی اور بچی کی عزت سلامت رکھی اور سب بچے خیریت سے آگئے۔
ان کے انتقال کے بعد میں نے بڑا کٹھن وقت دیکھا۔ بیٹی کی شادی تو میاں نے اپنے سامنے ہی تیرہ سال کی عمر میں کردی تھی۔ تین بیٹے اور تھے، سب کو ایک دن روتا چھوڑ کر وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
میرے بارہ سال کے بیٹے نے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی جہاں روزمرہ کے استعمال کی اشیاء، بچوں کے کھلونے، ٹافیاں وغیرہ رکھ لیں اور آہستہ آہستہ دکاندار بڑھتی رہی۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا مگر اس کٹھن وقت میں بھی ہم میں سے کسی نے ہمت نہ ہاری۔ آہستہ آہستہ تینوں بیٹے مختلف کاموں سے منسلک ہوگئے۔
اللہ کا شکر ہے کہ بہت اچھی گزری، گو کہ وہ پہلے جیسی فراوانی تو نہ ہوسکی مگر پھر بھی اس مالک کا شکر ہے کہ اس نے بہت سوں سے اچھے حال میں رکھا۔
آج میں ایک نرس ہوں، سرکاری اسپتال میں کئی سال سے کام کررہی ہوں۔ اکثر مریضوں سے حال چال پوچھ لیتی ہوں، مگر اماں جی سے خاص انسیت محسوس ہوتی تھی، اُن کا لہجہ اور انداز بڑا شفقت بھرا تھا، اُن کے پاس زیادہ ملنے والے نہیں آتے تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ کبھی کبھار کوئی بیٹا کھڑے کھڑے آجاتا، یا ایک بیٹی۔ اس لیے میں اپنے فارغ وقت میں سے کچھ وقت اماں جی کے پاس بیٹھ جاتی۔
آج 23 مارچ کی وجہ سے بہت سارے مریضوں کے گھر والے انہیں ایک دن کی چھٹی دلوا کر لے گئے تھے۔ پورا وارڈ خالی تھا، صرف اماں جی رہ گئی تھیں۔ آج کام بھی زیادہ نہیں تھا، اس لیے میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ ان کی اداسی محسوس کرکے میں نے وجہ پوچھی، تو انہوں نے ماضی کا ذکر چھیڑا۔ میرے حساب سے ان کی کہانی مکمل ہوگئی تھی، لیکن جب میں نے یہ پوچھا کہ آپ اپنے گھر کیوں نہیں گئیں؟ تو انہوں نے بڑے دُکھی لہجے میں کہا ’’کیسے جاتی؟ کوئی لینے ہی نہیں آیا۔‘‘
’’تو اماں جی کوئی لینے کیوں نہیں آیا؟‘‘
جواب میں اماں جی کے بہتے آنسوئوں نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اُن سے باقی کہانی بھی سنوں، اور سننے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ اصل کہانی تو یہ ہے:
’’مجھے زندگی کی کٹھنائیوں نے اتنا نہیں توڑا، جتنا اپنوں کے رویوں نے توڑ دیا۔ بڑی چاہت اور ارمانوں سے بہو گھر لائی۔ بہت دن چائو چونچلوں میں گزرے، مگر کب تک؟
بہو کا شروع دن سے یہ رویہ تھا ناشتے کے بعد کمرہ بند کرکے بیٹھے رہنا۔ جب تک ان ہڈیوں میں دم تھا جیسے تیسے کام نمٹا کر کھانا بھی بنا لیتی۔ دوپہر کو کھانا تیار کرکے بڑے پیار سے بہو کو بلاتی۔ کھانا کھاتے ہی وہ پھر اپنے کمرے میں چلی جاتی۔
دبے دبے لفظوں میں بیٹے سے کچھ کہنا چاہا تو وہ الٹا مجھ پر ہی ناراض ہوا۔ جب میں تھک کر بیمار ہوگئی اور کام کرنے کے قابل نہ رہی تو بیٹے نے ایک فل ٹائم ملازمہ رکھ لی جو الٹے سیدھے کام کرتی اور کچا پکا کھانا بناتی۔ بیٹے سے کچھ کہتی تو وہ کہتا آپ ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھ کر اللہ اللہ کریں، آپ کو کھانا مل تو جاتا ہے ناں۔ اُس دن کے بعد میں نے کچھ بھی کہنا چھوڑ دیا۔ ایک کے بعد باقی دونوں بیٹوں کی بھی شادی ہوئی۔ جو بہوئیں اپنے میکے سے بیاہ کر لائی وہ پہلی سے بھی دو ہاتھ آگے نکلیں۔
بہوئوں سے مجھے کوئی شکوہ نہیں، مگر بیٹے تو میرے اپنے ہیں ناں۔ وہ بھی مجھے ایک کونے میں ڈال کر بھول گئے۔ حد تو یہ ہے کہ پوتے، پوتیاں تک میرے پاس نہیں آتے۔ میری بہو کہتی ہے اس کمرے میں جراثیم ہیں، وہاں مت جانا، تم بھی بیمار ہو جائو گے۔
چھوٹے دونوں بیٹے تو پھر بھی کھڑے کھڑے حال احوال پوچھ لیتے ہیں، مگر بڑے بیٹے کو تو کمرے میں آنے کی بھی اجازت نہیں ہے، وہ تو دور سے ہی کبھی مجھے دیکھ لیتا ہے، ورنہ اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔‘‘
اسی رات اماں کی حالت خراب ہوئی۔ میں چھٹی ہونے کے باوجود گھر نہیں گئی اُن کے پاس بیٹھی رہی۔ صبح ہوتے ہی ان کی روح پرواز کر گئی۔ ان کی میت دو دن تک سرد خانے میں رکھی رہی، تیسرے دن ان کا بیٹا آیا تو ان کی میت لے کر گیا۔
ان میں سے کسی کا فون نمبر ہسپتال میں نہیں تھا جو ہم انہیں اطلاع کرتے۔ اور وہ سب دو دن تک اپنے بچوں کے ساتھ چھٹیاں مناتے رہے، اور ان کی ماں کسمپرسی کی حالت میں غیروں کے ہاتھوں میں جان دے کر ساری اذیتوں سے نجات پا گئی۔

آج کا اہم سوال

مریم شہزاد
ہمارے معاشرے کا المیہ کہہ لیں کہ آج یہی سوال اہم ہوکر رہ گئے ہیں کہ آج کیا پکائیں؟ کیا کھائیں؟ یا کہاں کا کھائیں…؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو بہت پہلے ہی بتا دیا تھا کہ رزق کا وعدہ اللہ کا ہے، بھوک سے نہ ڈرو، کیونکہ ہر ذی روح کا رزق اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ مگر آج کھانے کو ایک ایسا مسئلہ بنا لیا گیا ہے کہ ہم بھوک کے خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
ٹی وی اور سوشل میڈیا پر چلنے والے بے تحاشا اشتہارات، جن میں لذیذ و مرغن کھانوں کے ذریعے آپ کی بھوک کو بڑھایا جاتا ہے، گلی گلی کھلنے والے چھوٹے بڑے ریسٹورنٹ ہماری اشتہا کو بڑھاتے ہوئے اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم جس سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر اپنی پسندیدہ غذائوں سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، وہیں وہ غریب بچے بھی موجود ہوتے ہیں جو ان تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کہیں مل کر بیٹھا جائے تو ایک دوسرے سے یہی پوچھا جاتا ہے: فلاں جگہ کا پیزا کھایا؟ فلاں کا برگر ٹرائی کیا؟ وہاں کے کباب کیا زبردست ہیں… ادھر کی کڑھائی نہ کھائی تو سمجھو کچھ نہ کھایا… یہاں کی آئس کریم کی کیا بات ہے… گویا خود بھی کھایا اور دوسروں کو بھی ترغیب دی۔ نتیجہ یہ کہ جگہ جگہ چاہے گندگی کے ڈھیر ہوں، سڑک کے کنارے بیٹھے ہوں، مگر کھانا اب باہر ہی کھانا ہے۔ پوری پوری رات چائے کے ہوٹلوں پر چائے پراٹھوں کے ساتھ گپ شپ میں گزر جاتی ہے۔ بھوکا رہنے کا خوف اور مزے مزے کے کھانوں کا لالچ اس طرح ہم میں سرایت کر گیا ہے کہ جینا مرنا، ہر موقع پر کھانے کی فکر پہلے ہوتی ہے۔
جب کہ اللہ کے حکم کے مطابق گزرے ہوئے کل میں کھانا پورے خاندان کے ساتھ مل جل کر کھایا جاتا تھا، اس میں برکت بھی تھی اور خوشی بھی۔ مہمان داری کو قابلِ فخر سمجھا جاتا تھا، پڑوسیوں اور غریب رشتے داروں کا خیال کیا جاتا تھا… جینے کے لیے کھاتے تھے، کھانے کے لیے نہیں جیتے تھے۔
غور کریں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پیٹ کے ہوکر رہ گئے ہیں… کھانوں اور دوسری لغویات کی طرف اس لیے تو راغب نہیں کیا جارہا کہ جہاد کے لیے نکلنا ہو تو ہم کہیں کہ میں تو خالی پیٹ رہ ہی نہیں سکتی۔ حالات خراب ہوں تو سب سے پہلے آٹا، دال جمع کرنے کی سوچ ہوتی ہے۔ آنے والا کل ہمارے لیے تباہی کا سامان تو نہیں لارہا؟
خدارا جاگیں، آنے والے کل سے ڈریں، یہ نہ ہو کہ ہم آج کی فکر میں کل کو بھول جائیں جو ہماری سوچ اور عمل کے مطابق گلزار بھی ہوسکتا ہے اور ہم کو تباہی کی طرف بھی لے جاسکتا ہے۔

حصہ