سرگرم سوشل میڈیا

300

ویسے تو مارچ کے مہینے کا آغاز عالمی یوم خواتین کی سرگرمیوں سے ہوتا ہے ،جس میں خواتین کے حقوق اور اُسے بااختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے۔اس ہفتے ہی بھارت کے دو تین شہروں میں مسلمان خواتین نے بڑی تعداد میں بھارت میں حالیہ منظور ہونے والے تین طلاق کے بل کے خلاف احتجاج کیا ،اِسی تناظر میں سوشل میڈیا پر اس ہفتے مجھے بھارتی مسلمان خواتین سوشل میڈیا کو اپنے موقف کے ابلاغ کے لیے بھرپوراستعمال کرتی نظر آئیں ۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ بھارت میں بیک وقت تین طلاقوںکو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے طلاق ماننے سے قانونی طور پر کالعدم قراردے دیاگیا ہے اوراس سلسلے میں شوہر کو جیل میں بھی بھیجا جا سکتا ہے ساتھ ہی جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔تین ماہ قبل دسمبر 2017میں مسلم خواتین بل ( برائے حقوق تحفظ نکاح)بھارتی پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا میں منظوری کے لیے پیش کیا گیا، جس میں بیک وقت (ایک نشست) میں تین طلاقیں دینے کوقابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے ۔یہ بل وہاں کی سپریم کورٹ میں اسی نوعیت کے ایک کیس کے فیصلے کی روشنی میں بنایا گیا تھا۔اس معاملے پر پہلے بھی خاصا شور مچایا جاتا رہا ، مگر اب احتجاجی مظاہروں سے دوبارہ سوشل میڈیا پر یہ موضوع زیر بحث نظر آیا، جس میں اس قانون کو ۹ کروڑ کے قریب بھارتی مسلمان عورتوں کے حقوق کا سب سے بڑامحافظ قرار دیا گیا تو دوسری جانب اس قانون پر سخت تنقید اور خواتین کو ہراساں کرنے والا قانون قرار دیا گیا، کہیں بی جے پی کی حکومت کی واہ واہ کی جاتی رہی تو کہیں بھارتی آئین و قانون کے متصادم قرار دیا جاتا رہا۔بہر حال بھارتی وزیر قانون نے اسے سیاست نہیں انسانیت کہلوا کر بل منظور کروا ہی لیا۔اس بل اور اس کے اثرات کے حوالے سے ایک تفصیلی و منفرد تجزیہ سے کچھ انتخاب پیش خدمت ہے۔
’’اس بل کے اندرون خانہ مقاصد کو کھرچ کر دیکھیں تو اس کا مقصد بھی مسلمان مردوںکے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہوئے اُنہیںبدروح جیسا قرار دینا ہے کہ یا تو وہ جہادی ( دہشت گرد)ہیں یا پھر love jihadi، گائے کا گوشت کھانے والے، اینٹی نیشنل جیسے نعرے مودی حکومت کے لیے اہم سیاسی پلیٹ فارم رہے ہیں۔تین طلاقوں والے معاملے میں مسلمان مردوں کو جیلوں میں بھرنا اس ماسٹر پلان کا ایک جامع حصہ ہے ۔‘‘یہ اُس طویل تجزیہ کا ایک مختصر حصہ ہے جو فلاویا اگنس صاحبہ نے ’’دی وائر ‘‘پر کیا، موصوفہ بھارتی خاتون وکیل ہیں جو کہ خاندانی مسائل پر مبنی مقدمات لڑنے میں مہارت رکھتی ہیں۔بہر حال ہمارا موضوع سوشل میڈیا کے مباحث ہیں اس لیے ہم کسی بحث میں جائے بغیر شاہنواز فاروقی کی فیس بک وال سے اُن کی بھارت کے حوالے سے ایک اہم یاد دہانی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیںکہ’’ایک طرف ہندو گائے کو ’’گائو ماتا‘‘ قرار دیتے ہیں، اور گائے کا گوشت رکھنے یا کھانے کے شبہ میں کئی مسلمانوں کو قتل کرچکے ہیں، مگر دوسری جانب یہ صورت حال ہے کہ بھارت دنیا میں گائے کے گوشت کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت نے بھارت کے مسلمانوں کو صرف فسادات میں نہیں مارا، انہوں نے مسلمانوں کے معاشی، سماجی اور سیاسی قتل کی بھی راہ ہموار کی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو معاشی اور سماجی اعتبار سے بھارت کے نئے شودر کہا جارہا ہے۔ بھارت کی ہندو قیادت کی نظر میں مسلمانوں کا کیا مرتبہ ہے اِس کا اندازہ نریندر مودی کے اْس انٹرویو سے کیا جاسکتا ہے جس میں اْن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے قتل پر افسوس نہیں ہوتا؟ تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ کی کار کے نیچے کتے کا پِلاّ آجائے تو آپ کو افسوس تو ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی کے نزدیک بھارت کے مسلمان کتے کے پلے ہیں۔‘‘
اب ذرا لوکل ایشوز پر چلتے ہیں تو ہمارے ملک میں تو پی ایس ایل کا بخار تا حال جاری ہے جو آج فائنل کے بعد ہی ختم ہو سکے گا، کراچی کنگز سے لگائی گئی امیدیں امسال بھی دم توڑ گئیں جب دو مواقع ملنے پر بھی اُسے فائنل تک رسائی نہیں مل سکی۔اس حوالے سے عوام نے سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار جاری رکھا۔ہمارے ایک دوست نے کراچی کنگز کے مالک اے آر وائی گروپ کے سلمان اقبال سے گذارش کی کہ ’’ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے البتہ ملازمین کی تنخواہوں پر اثرات نہیں پڑنے چاہیے ‘‘، اسی طرح ’’ بابا رحمتے، ہسپتالوں کے بعد کرکٹ گراؤنڈ میں بھی ۔بابا رحمتے کی موجودگی میں زلمی اور کنگز کا فکس میچ ‘‘،’’ آخر کار ARY اور سلمان اقبال کے گناہوں کی سزا کراچی کنگز کو مل گئی بہت دکھ ہوا کراچی کی ہار کا ۔ لیکن ARY والوں کے لٹکے ہوئے منہ دیکھ کر دل گارڈن گارڈن ہو گیا۔‘‘
اسی ہفتہ سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی نامزد کردہ شیری رحمن سینیٹ میں پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر کے منتخب ہونے پر پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا جیالوں نے خوب شور مچایا، ویسے تو ٹوئٹر پر ’’زرداری کے دور میں‘‘ کے عنوان سے ایک ہیش ٹیگ ٹرینڈ لسٹ میں پہلے سے جاری تھا جس پر عوام دل کھول کر تبصرے و تجزیہ کر نے میں لگی ہوئی تھی ۔ اس اعلان کے بعد شیری رحمٰن کو مبارکباد اور اُن کے پرانے کلپس نکال کر وائرل کیے جاتے رہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا سیاسی وزن بہر حال سینیٹ الیکشن میں منوا لیا ،مگر سوشل میڈیا پر مسلم لیگ( ن)، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے جیالے اپنے اپنے موقف کی حمایت اور دوسرے کی خرابیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مصالحہ جات کے ساتھ لگاتے رہے۔زرداری کے دور میں کہ تناظر مں چند دلچسپ ٹوئیٹ پیش ہیں:’’ایک بار میں بہت بڑے ہری بھری وادی میں جا پہنچا، ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں تھیں، درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے، نہر کنارے سات خوبصورت حوریں تھیں تو میں حیران رہ گیا اور پوچھا کہ یہ کونسی جگہ ہے؟ ایک حور نے کہا خانصاحب، یہ زرداری کا دور چل رہا ہے ۔‘‘’’کراچی میں اتنا امن تھا کہ خوشی منانے کے لیے لوگ اپنی گاڑیوں کو آگ لگا لیتے تھے‘‘۔’’ایان علی یو اے ای میں قومی خزانے کو امانت سمجھ کر بحفاظت پہنچاتی رہی ‘‘، ’’میں وفاقی وزیر مملکت اور ایم این اے قیوم جتوئی نے کرپشن ختم کرنے کے لیے بہترین تجویز پیش کی کہ کرپشن میں بھی مساوات ہونی چاہیے۔‘‘
سماجی میڈیا پر رؤ انوار بھی خاصا بحث کا حصہ بنے رہے ، خصوصاً اُن کی عدالت میں پیشی اور پیشی کا طریقہ کار بہت کچھ بتا رہا تھا۔فیض اللہ خان ، اپنے تجربہ کی روشنی میں راؤ انوار کیس کا ممکنہ نتیجہ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ’’پہلے مرحلے میں مقدمے کو طول دیکر اس حوالے سے حساسیت کو کم کیا جائے تاکہ عوامی دباؤ کو دوسری سمت دی جاسکے ، تیس روزہ طویل جسمانی ریمانڈ مثال ہے بظاہر اسکی وجہ سیکیورٹی خدشات بتائے گئے ہیں۔اس دوران نقیب اللہ کے ورثاء کو دیت پہ راضی کرنے کی بھرپور کوشش ہوگی جس کے بعد مقدمے کے گواہ اپنے بیانات سے مْکر جائیں گے ، شاہ رخ و شاہ زیب یا ریمنڈ ڈیوس کیس اسکی بہترین یا بدترین مثال ہیں لیکن فرق بس یہ ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات کے پیش نظر کوشش ہوگی کہ وقت مقررہ کے اندر معاملات طے کر لئیے جائیں ناکہ فیصلے کا انتظارکیا جائے۔اگر نقیب کے ورثاء صلح نہیں کرتے تو مقدمہ التواء میں پڑ جائے گا اور گواہان پہ دباؤ ہوگا کہ بیانات تبدیل کریں یہ ہندی فلموں جیسا سین ہوگا۔عدالتی حکم پہ بننے والی نئی جے آئی ٹی ممکنہ طور پہ تحقیق و تفتیش کے بعد راؤ انوار کو نقیب اللہ کے قتل سے بری قرار دے گی کہ وہ موقع پہ موجود نہیں تھا لیکن سنگین غفلت کے الزام میں عدالتی یا ادارہ جاتی کارروائی کی سفارش ہوگی جبکہ وہ اہلکار جو مقابلے میں براہ راست ملوث تھے انہیں طویل سزاؤں کا سامنا کرنے پڑے گا۔آخری بات یا تجویز ۔نقیب کے ورثاء اگر یہ مقدمہ لڑنا اور جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے وکلاء کا ساتھ درکار ہوگا کیونکہ معاملہ اہم ہے جسے درمیانے درجے کے وکلاء پہ چھوڑنا زیادتی ہوگی اور وکیل ایسے ہوں جو دَباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔‘‘اسی طرح راؤ انوار کی سپریم کورٹ آمد پر بھی ایک معروف ٹوئیٹ یہ بھی رہی کہ ’’راؤ انوار سپریم کورٹ میں اچانک پیش ہوئے۔ ان کی گاڑی کے لیے سپریم کورٹ کا صدر دروازہ کھولا گیا اور گاڑی وہاں تک آئی جہاں تک اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی پیدل چل کرآنا پڑتا ہے۔ سیکڑوں قتل کے ملزم کے لیے پروٹوکول سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی آمد منصوبہ بندی کے تحت تھی۔‘‘طارق حبیب اسلام آباد سے لکھتے ہیںکہ ’’سپریم کورٹ نے جب جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہوں کو مارنے پر ازخود نوٹس لیا تو ملزم پولیس افسر راؤ انوار غائب ہوگیا۔سندھ پولیس کا سربراہ عدالت کے سامنے پیش ہوتا رہا اورملزم کی تلاش میں ناکامی سے آگاہ کرتا رہا۔ سپریم کورٹ کے تین جج پہلے تو پولیس حکام پر زور دیتے رہے مگر جب خفیہ ایجنسیوں نے بھی جواب دے دیا تو ایک طرح سے مایوسی پھیلنے لگی۔ راؤ انوار کے خطوط نے بہت سے لوگوں کی طرح عدالت میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو بھی اس ’ٹھکانے‘ کا پتہ بتادیا تھا جہاں مفرور پولیس افسر کو پناہ فراہم کی گئی تھی۔عدالت کو پہلا بریک تھرو اس وقت ملا جب کراچی ائرپورٹ کی ویڈیو فوٹیج لانے کے لیے کہا گیا۔اس حکم کی سندھ پولیس کے سربراہ کی جانب سے تعمیل نہ کی گئی۔ عدالت نے وجہ پوچھی تو آئی جی اے ڈی خواجہ نے بتایا تھا کہ حساس معاملہ ہے چیمبر میں بریفنگ دینا چاہیں گے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ اگلی سماعت پر کراچی میں ویڈیو فوٹیج لاکر بریفنگ دی جائے اور سول ایوی ایشن اور ائرپورٹ سیکورٹی فورس کے سربراہوں کو حاضر کیا جائے۔بالآخر کراچی ائرپورٹ پر راؤ انوار کو بورڈنگ پاس جاری کرنے والے افسران کا پتہ پہلے ہی چل چکا تھا۔اسلام آباد ائرپورٹ پر جس خفیہ ایجنسی کے پروٹوکول افسر نے راؤ انوار کو بورڈنگ پاس جاری کرایا اور پھر امارات ائر لائن کے جہاز تک کلیئر کرایا اس کی شناخت بھی ہوگئی تھی کیونکہ فوٹیج واضح تھی۔ طاقتور ’اعلیٰ حکام‘ مگر ماننے کو تیار نہ تھے جس کے بعد اسی شام ایک اور سیشن رکھا گیا۔ اس بار فوٹیج میں موجود افراد کی شناخت کے لیے نادرا کو کہا گیا، قومی شناخت کارڈ بنانے والے ادارے نے ایسی ’تباہ کن‘ رپورٹ دی کہ دوسروں کی شناخت کرانے والوں کی اپنی شناخت کھل کر سامنے آگئی۔اس کے بعد جب ’اعلیٰ حکام‘ کو ملزم پیش کرنے کے لیے کہا گیا تو ایک بار پھر جواب وہی تھا کہ معلوم نہیں کہاں گیا۔ انیس مارچ کو ہی اس بات پر ’اصولی اتفاق‘ کر لیا گیا تھا کہ راؤ انوار اکیس مارچ کو پیش ہوگا مگر آخری وقت تک کوئی بھی دوسرے پر ماضی کے تجربے کی روشنی میں اعتبار کرنے کو تیار نہ تھا۔اکیس مارچ کو عدالت کی راہداریوں میں اچانک عدالت کے باہر پارکنگ میں ایک سفید کار لائی گئی اور اس میں الرجی سے بچنے والا ماسک لگائے کالی شلوار قمیض میں ملبوس مفرور ملزم موجود تھا۔ کار سے ایک ’سادہ وردی‘ والا اترا، اس کے بعد عدالت کے احاطے کا وہ دروازہ کھولا گیا جو برسوں تک وہاںآنے جانے والوں نے بھی نہ دیکھاتھا۔ یہ دروازہ عدالت کے پچھواڑے لوہے کی گرل میں بنایا گیا ہے۔ عدالت کے اندر تک گاڑی کو رسائی دینے کا معاملہ پہلے ہی طے کیا جا چکا تھا۔قانونی ماہرین اس معاملے پر آن دی ریکارڈ بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ماہرین اور لکھاری جو انسانی حقوق کے مسائل پر لکھتے اور سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہیں صرف اس بات پر ہی خوش ہونے کی تلقین کرتے ہیں کہ آخر کار بہت ہی پیچیدہ صورتحال میں عدالت کی کامیابی ہوئی ہے۔ بعض وکیلوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایسی صورتحال میں جب سہولت کاروں نے ہی ملزم کو پیش کرنے کے سارے انتظامات کرائے ہوں تو ان کے خلاف ملزم کو چھپانے کی کارروائی کیسے کی جائے اور کون کرے؟‘‘

حصہ