بچوں کے بدتمیز ہونے کی وجوہات

560

امبرین جاوید
آج کل ہمارے معاشرے میں بہت سننے میں آتا ہے کہ ہماری اولاد بہت بدتمیز ہوگئی ہے بڑوںکی عزت نہیں کرتی عجیب پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین بچوں کو سب کچھ دیتے ہیں مگر انہیں یہی بات ہی نہیں سیکھاتے۔ والدین اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، ہر خواہش پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کو ذرا بھی تکلیف ہو تو خود تکلیف میں آجاتے ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بے حد خیال رکھتے ان کے پیچھے خود کو فراموش کردیتے ہیں مگرانہیں عزت کرنا اور عزت سے پیش آنا سیکھاتے ہی نہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ والدین اپنے بچوں کو سمجھاتے نہیں ، سمجھاتے بہت کچھ ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے فعل سے انجانے میں بچوں کو عزت و احترام نہ کرنا سیکھا رہے ہوتے ہیں۔
بچوں کو محبت دی جائے، انہیں خلوص دیا سب کچھ دیا جائے مگر انہیں عزت نہ دی جائے تو پھر بچے بدتمیز ہی بنتے ہیں۔ بچوں کو محبت سے زیادہ عزت کی ضرورت ہوتی۔ جبکہ انہیں اکثر بہن بھائیوں یا پھر پڑوسیوں کے بچوں سے موازنہ کرکے ڈی گریڈ کیا جاتا ہے۔ سب کے سامنے یا تو ڈانٹا جاتا ہے یا پھر انہیں شرمندہ کیا جاتا ہے۔ کیا عجیب بات ہے کہ جب بچوں کو اپنے گھر والے، والدین ، بہن بھائی ہی عزت و احترام نہیں دیں گے تو بچے کیسے سیکھیں گے کہ یہ سب۔ پھر یوں کہا جائے کہ یہ سب بچوں کے لیے گویا ایک اجنبی سی چیز ہے۔
بعض اوقات بچوں میں چڑچڑاپن اور بدتمیزی کی ایک بڑی وجہ والدین کا آپسی لڑائیاں بھی ہوتی ہیں۔ والدین کی آپس میں کشیدگی کا نشانہ بچے بنتے ہیں۔ کسی اور کا غصہ کسی اور پر نکال دیا جاتا ہے۔ بیوی شوہر کا یا پھر شوہر بیوی کا غصہ بچوں پر نکالتا ہے۔ بچے کچھ چاہ رہتے ہیں مگر والدین کا بچوں سے بات کرنے کا انداز غیر ضروری حدتک تلخ ہوتا ہے۔ اس کا سیدھا اثر بچے کے کمزور دماغ پر پڑتا ہے۔
بچوں کے سامنے غیر ضروری اور غیر شائستہ گفتگو کرنے سے گریز نہ کرنا بھی بچوں کی تربیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بچوں کے سامنے ہر طرح کی باتیں کرتے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بچوں پر ان کا کیا اثر پڑ رہا ہے۔ بچے جو کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہی کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ والد بچے کو کہتا ہے کہ ’’بیٹا! اگر کوئی تھپڑ مارے تو تم بھی دو لگا دینا‘‘۔ یہ بات بچہ سیکھتا ہے اور پھر جب اس کا چھوٹا بھائی اسے مارتا ہے تو وہ سب کے سامنے اپنے بھائی کو دو جڑ دیتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر سب اسے ڈانٹتے ہیں اور والد صاحب اٹھ اپنے بیٹے کو تھپڑ جڑ دیتا ہے۔ ’’یہ سب کس نے تمہیں سیکھایا، بدتمیز بن گئے ہو‘‘، وغیرہ وغیر۔۔ اب اس میں اس بچے کا کیا قصور ہے۔ اس میں کس کا قصور ہے۔ خود ہی سیکھایا اور پھر خود ہی کہا کہ یہ سب کس نے سیکھایا۔ یہ سب جو کچھ ہم فراہم کر ر ہے ہیں وہ تو صرف ہمیں فالو کررہا ہوتا ہے۔ بچوں سے ہم کیا امید رکھ سکتے ہیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’مسلمان کی مثال ایک شید کی مکھی کی طرح ہے۔ اچھا نگلتی ہے اچھا اگلتی ہے‘‘۔
صبر و تحمل سے بھی ہم اپنے بچوں کو بدتمیز بنانے سے بچا سکتے ہیں۔ بعض اوقات کھانے میں یا کچھ غلط ہوجانے پر ہم چیخ و پکار کرتے ہیں ۔ حالانکہ ہماری ذمے داری بنتی ہے کہ ایسے میں ہم صبر و تحمل سے کام لیں اور یہی بات ہم اپنے بچوںکو سیکھائیں۔ اس سے بہت حد تک بچے اچھے بن جاتے ہیں۔ اکثر بدتمیزی کی نوعیت ایسی جگہ پیش آتی ہے کہ جب بچے چھوٹی چھوٹی بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔
ایسی کی دیگر باتیں بھی ہیں جن کی اشد ضرورت ہے۔ بچو سے دو گھڑی اچھی باتیں کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ بچوں کو جتنی عزت ملے گی وہ اس سے زیادہ دیں گے۔ اگر بچے غصہ کرتے ہیں تو سمجھائیں ۔بچوں کو خود سے قریب کریں ان کو اپنا دوست بنائیں اور خود ایک اچھے دوست بنیں۔ اچھی باتیں شیئر کریں۔ بچوں کی تعریف کریں ان کی صلاحیتوں کو بڑھائیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ جب کسی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو وہ اس سے بھی اچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوشی ملتی ہے اور وہ انہیں یاد بھی رکھتے ہیں۔
ہمارے پڑوس میں ایک بچی کو بچپن سے ہی ڈرائنگ کا شوق تھا ، ایک بار اس بچی نے ڈرائنگ بنائی ، وہ زیادہ اچھی نہیں تھی مگر ٹیچر نے پوری کلاس میں دکھا کر حوصلہ افزائی کی ۔ جس سے اس بچی نے اگلی بار اس سے بہتر کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح بچوں کی حوصلہ افزائی کریں ، ان سے تہذیب و تمیز سے بات کریں۔ تھوڑا وقت نکال کر کسی اچھے موضوع پر بات چیت کریں۔ کہانی کے انداز میں باتیں سیکھائیں۔ زبان درازی سے گریز کریں۔ یہ سب کچھ بچوں کے دلوں کو خود با خود وہ سب کرنے پر مجبور کرتا ہے جو کچھ وہ دیکھتے ہیں۔ جب ہم خود کو اچھا بنا لیں گے تو بچے بھی بدتمیزی کے بجائے اچھائی کی طرف بڑھیں گے۔ انشا اللہ ہم معاشرے کو اچھا اور تعمیری مستقبل دے جائیں گے۔
یاد رکھیں ! یہ معصوم سے بچے جن پر آج ہمیں محنت کرنا ہے، یہ ہمارا مستقبل ہیں۔ یہ ہمارا کل ہیں۔ تو ابھی سے اپنے کل کو سنوارنے کے لیے خوب محنت کریں، اپنے آپ کو اچھا کریں۔ بچے خود اچھے ہوجائیںگے۔

دوستی کا حق

مناھل
علی گزشتہ چند دنوں سے ایک عیب پریشانی میں مبتلا تھا یہ پریشانی تھی کہ بڑھتی ہی چلی جارہی تھی بات یہ تھی کہ ریاض پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا بلکہ کلاس سے غائب ہونا اس کا معمول بن چکا تھا ششماہی امتحانات میں صرف ایک ماہ رہ گیا تھا علی نے وجہ پوچھی تو ریاض بات کو نظرانداز کرگیا علی اور ریاض بہت گہرے دوست تھے او رکلاس میں تعلیمی لحاظ سے ایک مقام رکھتے تھے ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوتے اور انعام کے حقدار قرار پاتے ایک دن علی نے ریاض کو ایسے لڑکوں میں بیٹھا دیکھا جو کہ اسکول کے اچھے لڑکے نہ تھے یہ لڑکوں کا گروپ تعلیم سے دور صرف کھیل کود‘ تفریح اور آوارہ گردی میں مشہور تھے ان سے ریاض کی بڑھتی دوستی نے علی کو اور پریشان کردیا وہ نہیں چاہتا تھا کہ ریاض غلط صحبت میں بیٹھے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاقی معاملات کو خراب کرے اس نے دو تین مرتبہ سمجھایا مگر ریاض نے اس عمل کو اچھا نہ سمجھا اور اس بات سے برا مناتے ہوئے ناراض ہوا اب وہ علی سے دور ہوتا جارہا تھا ملنا جلنا بھی چھوڑ چکا تھا علی نے اپنے کلاس ٹیچر کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کی کلاس ٹیچر نے ریاض کو اسٹاف روم میں بلا کر سمجھایا دوستی سے اچھے اور برے پہلو سے آگاہ کیاکہ اچھوں کی دوستی سے زندگی میں اچھائی آتی ہے اوربرے لوگوں سے دوستی سے زندگیاں برباد ہوتی ہے وقت بڑا قیمتی ہے اسے بے کار مشاغل میں ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ گزرا وقت پھر واپس نہیں آتا اور انسان صرف افسوس ہی کرتا رہتا ہے۔ ریاض نے ٹیچر کے سمجھانے کو اچھے انداز میں لینے کے بجائے اسے علی کی شکایت جانا وہ علی سے ناراض ہوا لڑنے کو آمادہ ہوگیا علی نے پھر سمجھایاتو ریاض نے کہا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو میں اپنا اچھا برا خوب سمجھتا ہوں ایک کا ماہ عرصہ یوں ہی گزر گیا ششماہی امتحانات ہوئے علی اچھے نمبروں سے پاس ہوا جبکہ ریاض کئی مضامین میں فیصل۔نتیجہ اس کے ہاتھوں میں تھا علی نے اس موقع پر کوئی طنز کرنے کے بجائے ریاض کو سمجھایا ریاض شرمندہ شرمندہ سا دیکھائی دے رہا تھا اسے بھی اب اپنے وقت کو ضائع کرنے اور پڑھائی سے دور ہونے کا نتیجہ مل گیا تھا اسے اس کا بھی خیال آرہا تھا کہ گھر پر کیا جواب دوں گا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ میں پڑھائی میں پیچھے رہ گیا ہوں سالانہ امتحانات میں کیا ہوگا علی اسے تسلی دی اور وعدہ کیا کہ وہ اسے سالانہ امتحانات کی بھرپور تیاری کرائے گا مگر ایک شرط ہے کہ وہ وقت ضائع نہیں کرے گا اور غلط لڑکوں کی دوستی سے دور رہے گا اپنی ساری توجہ صرف اور صرف پڑھائی پر دے گا ریاض نے وعدہ کی ادونوں دوستوں نے اس عزم کے ساتھ ہاتھ ملایا کہ وہ بہتر زندگی کے ُیے مل کر محنت کریں گے اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

صرف میں ہی کیوں

مریم شہزاد
آج ایمن کو اسکول کا بہت سارا ہوم ورک ملا تھا وہ کافی دیر سے کر رہی تھی لیکن ابھی بھی بہت سا کام باقی تھا۔
دروازے کی گھنٹی بجی ،امی بھی مصروف تھیں اسنے اٹھ کر دروازہ کھولا آپی یونیورسٹی سے آئی تھی اندر آتے ہی انہوں نے ایمن سے کہا جلدی سے پانی پلاؤ بہت گرمی ہے ، ایمن نے ان کو پانی پلایا اور واپس ہوم ورک لے کے بیٹھ گئی ۔
تھوڑی دیر بعد ابو آگے امی نے ایمن کو آواز دی “ایمن ابو کو پانی پلاؤ”اس نے پین بند کیا او ابو کو سلام کیا اور پانی پلایا، ابو نے کہا “جیتی رہو”۔
اب اس کا میتھ maths کا کام رہ گیا تھا ایک سوال کسی طرح حل ہی نہیں ہو رہا تھا اچانک ہی اس کے سمجھ آگیا اس نے جلدی جلدی کرنا شروع کیا کہ بھیا آگے انہوں نے آتے ہی آواز دی “ایمن گڑیا پانی”۔
“اُف، میں ہی کیوں ،” اس نے دل میں سوچا مگر کچھ کہا نہیں بھیا نے اتنے پیار سے جو کہا تھا، اس نے بھیا کو پانی پلایا او اپنا کام مکمل کیا کیونکہ اب کھانے کا ٹائم ہو گیا تھا دوسرے دن اسکول میں یسریٰ سے باتوں باتوں میں ذکر آیا کہ سب پتا نہیں مجھ سے ہی کیوں پانی پلانے کو کہتے ہیں ۔
اس پر ی یسریٰ نے کہا “یہ تو اچھی بات ہے نا کہ تم سب کو پانی پلاتی ہو، میری دادی کہتی ہیں کہ پانی پلانے سے بہت ثواب ملتا ہے اور نیکیاں بھی ملتی ہیں ،”
“مگر میں بھی تو کام کر رہی ہوتی ہوں، “ایمن نے کہا ۔
کوئی بات نہیں ، پانی پلانے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، اور پھر ماں، باپ کا کام کرنے والے کو تو دعائیں بھی ملتی ہیں ،یسری بولی ۔
“اچھا اس کا مطلب پانی پلانے پر نیکیاں +ثواب+دعائیں اتنا سارا فائدہ، اب تو میں سب کے کام بھی کروں گی اور پانی بھی پلاوںگی “ایمن نے کہا ۔
بچوں آپ بھی یاد رکھیں گرمیاں آنے والی ہیں سب گھر والوں کا اور پرندوں کا اور کوئی اسکول میں بھی آپ سے پانی مانگے تو سب کا خیال رکھیں اور سب کو پانی پلائیں ،یہ نہ سوچیں کہ “میں ہی کیوں “

ایک کہانی بڑی پرانی

اسماء تحسین
بشیر نامی شخص ایک گاؤں میں رہتا تھا،ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس گاؤں میں رہا تو غربت ہی رہے گی کیوں باہر جا کر مزدوری کروں؟ بہت دولت کما کر لاؤں گا اس کی بیوی نے کہا کہ ہم روکھی سوکھی کھا لیں گے لیکن یہی رہیں گے اس نے کی بات نہ مانی اور چلا گیا۔
جانے کے کچھ ماہ بعد اللہ نے اس کے گھر ایک بیٹا عطاکیا،ادھر بشیر کام کے سلسلے میں مارا مارا پھرتا رہا۔
اٹھارہ سال گزر گئے اور وہ واپس نہ آیا،بیٹا اب جوان ہو چکاتھامحنت مزدوری کرتاتھا،ان کے دن اچھے ہو گئے، دوسری طرف اس کے شوہر اٹھارہ برسوں میں صرف تین سو روپے کمائے۔
وہ تین سو روپے لے کرگھر واپس آرہا تھا کہ راستے میں اسے ایک بزرگ ملا۔ بشیر نے بوڑھے آدمی سے پوچھا کہاں جا رہے ہیں؟گاؤں جا رہا ہوں لیکن تم کون ہو! اور کہاں جا رہے ہو بوڑھے آدمی نے بشیر سے پوچھا بشیر نے اپنی ساری کہانی سنائی بزرگ نے کہا کہ بیٹا کہیں تمہیں حکمت کی تین باتیں بتاتا ہوں لیکن ایک بات کا ایک سو روپیہ لوں گا بشیر مان گیا، بوڑھے نے کہا کہ پہلی بات جب دس آدمی ایک ہی کام کا کہیں تو اسے کر لینا چاہیے۔لاؤ ایک سو روپیہ بشیر نے دے دیا دوسری بات عورت کی کبھی بھی تعریف نہ کرنا، لاؤ پیسے! اب دوسرا سو بھی گیا، تیسری بات دشمن پر سوتے ہوئے وار نہ کرنا،تیسرا سو بھی گیا یہ کہنا تھا کہ بابا نے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں یہ کہہ کر وہ چلا گیا لیکن واپس نہ آیا۔
بشیر تھوڑی دور گیا تھا کہ اس نے دیکھا کہ کنویں کے پاس کچھ لوگ کھڑے ہیں اس نے قریب جا کے پوچھا تو پتہ چلا کہ ایک لڑکی کنویں میں گر گئی ہے اس سے لوگ کہنے لگے کہ تم کنویں میں چھلانگ لگا دو دس آدمیوں نے کہہ دیا اس نے کنویں میں چھلانگ لگا دی پانی کے اندر جانے کے بعد اس نے دیکھا کہ جن نے لڑکی کو قید کر لیا ہے لڑکی نے بشیر کو دیکھا تو کہا کہ جن نے تم کو دیکھ لیا تو تمہیں مار دے گا اس نے کہا کہ یہاں کیسے آئی۔
لڑکی نے کہامیں پانی لینے آئی تھی اس نے مجھے قید کرلیا۔یہ خوفناک جن ہے اس کی جان ایک طوطے میں ہے اور اس کو اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے اتنے میں جن آگیا، اس نے آدمی کو دیکھا تو کہا کہ میں تمہیں مار دوں گا بشیر کو بابا کی دوسری بات یاد آئی اس نے جن کی تعریف شروع کر دی یہ سننا تھا کہ جن مست ہونے لگا اور اتنے میں اس نے جھٹ کر طوطے کی گردن مروڑ دی اور وہاں سے ڈھیروں ہیرے جواہرات لے کر خوشی خوشی اپنے گھر چلا گیا۔
جب وہ گھر پہنچا تو رات تھی اس نے دیکھا کہ گھرمیں ایک لڑکا سویا ہوا تھا اسے غصہ آیا اور مارنے لگا تو اسے بابا کی تیسری بات یاد آئی اس نے لڑکے کو جگایااتنے میں بیوی بھی جاگ گئی بیوی نے بتایا کہ یہ ہمارا بیٹا ہے۔ اس نے دل میں بابا کو دعائیں دیں اور اپنی زندگی کی ساری داستان گھر والوں کو سنائی سب خوشی خوشی رہنے لگے کیونکہ اب وہ بہت امیر ہو گئے تھے۔

حصہ