بات یہ ہے

263

عبدالرحمٰن مومن
سینما لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ فلم شروع ہونے میں کچھ ہی دیرباقی تھی۔
چوتھی قطار میں بیٹھے تین لڑکے کسی چوتھے کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ اُن کا گروپ ممبر احمد ابھی تک نہیں آیا تھا۔
معین نے کہا: ’’تم سے کہا بھی تھا احمد نے کہ میرا ٹکٹ نہیں لینا، میرے ابو منع کرتے ہیں۔‘‘
ارسلان نے جواب میں کہا: ’’یار ابو تو میرے بھی منع کر رہے تھے لیکن میں تو آگیا۔ابو کون سا ہمیں ہر وقت دیکھتے ہیں۔‘‘
’’تمھارے ابو ہو سکتا ہے نہ دیکھتے ہوں۔ احمد کے ابو ہر وقت اس پر نظر رکھتے ہیں۔‘‘
معین نے بتایا تو شفیع نے بھی اس کی تائید کی اور کہا:’’ٹھیک کہہ رہے ہوتم۔ احمد تو خود بھی نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ فلم دیکھے۔احمد بھی وہی چاہتا ہے جو اس کے ابوچاہتے ہیں۔‘‘
’’ احمد کے ابو کی نظر ہی ہے جس کی وجہ سے احمد ان کی خوشی میںخوش رہتا ہے۔‘‘معین نے کہا اور علامہ اقبال کا شعر سنایا:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ ٗ کو آدابِ فرزندی

یومِ پاکستان، یومِ عزم

حذیفہ عبداللہ
ذیشان چھٹی جماعت کا ایک ذہین طالب علم تھا وہ اپنی کلاس میں ہمیشہ اول آتا اس میں جستجو کا جذبہ تھا وہ ہر چیز کے بارے میں سوچتا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے اور کیا ہورہاہے اس کا یہ عمل اس کے علم میں اضافے کا باعث تھا آج جب وہ اسکول سے آیا تو کسی گہری سوچ میں تھا اور اپنے بڑے بھائی کا انتظار کررہا تھا جو کہ کالج کے طالب علم تھے اور اس کے سوالات کا جواب وہ دیا کرتے اور مطمئن کرتے۔
عرفان بھائی جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے ذیشان کو دیکھتے ہی کہا کہ آج پھر کوئی مسئلہ زیرغور ہے جو حل نہیں ہورہا ہے ذیشان نے کہا جی ایک سوال ہے جس کا جواب درکار ہے عرفان بھائی نے کہا کہ ذرا فریش ہوجائوں پھر آپ سے بات کرتے ہیں عرفان بھائی نے تازہ دم ہوکر ذیشان کو اپنے کمرے میں بلایا اور پوچھا اب بتائو مسئلہ کیا ہے ذیشان نے کہا کہ بھائی جان بات یہ ہے کہ آئندہ ہفتے ہمارے اسکول میں یوم پاکستان کے حوالے سے تقریبات کا اعلان ہوا ہے‘ عرفان بھائی بولے تو اس میں سوچنے اور فکرکی کیا بات ہے ذیشان نے کہا کہ بات یہ ہے کہ اگست میں یوم آزادی منایا گیا تھا اب یوم پاکستان آخریوم پاکستان اور یوم آزادی میں فرق کیا ہے۔ عرفان بھائی مسکرائے اور بولے دیکھو دونوں میں فرق صرف اتناہے کہ ایک حصول پاکستان کی تحریک کا نقطہ آغاز ہے اور دوسرا انجام۔ ذیشان نے سوالیہ انداز میں اپنے بڑے بھائی کی طرف دیکھا تو انہوںنے کہا کہ آئو تمہیں تفصیل سے بتاتا ہوں دراصل 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور جہاں آج مینار پاکستان ہے مسلم لیگ کا ایک بہت بڑا جلسہ ہوا جس میں ہند پاک سے مسلمان جمع ہوئے اور قرارداد پاکستان منظور کرلی گئی جس کا مقصد ایک ایسا خطۂ زمین حاصل کرنے کا عزم کیاگیا جہاں اسلامی دستور کا نفاذ ہو یعنی مسلمانوں کے پہلے ایک الگ وطن جہاں مسلمان مذہبی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں اور اسلامی قوانین رائج ہوں اور یوم آزادی وہ دن ہے جب قائداعظمؒ کی قیادت میں ایک ملک حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی جیسا کہ آپ کو علم ہے ہم 14 اگست 1947 ء کو آزاد ہوئے۔
ذیشان ایسا ہی جلسہ جیسا کہ آج کل جلسے ہوتے ہیں او ریہ ہی مسلم لیگ تھی جس کے جلسے آج بھی ہورہے ہیں عرفان بھائی نے کہا کہ میرے پیارے بھائی آج کل جلسے تو الزامات لگانے اور ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے ہوتے ہیں وہ جلسہ ایک بڑے مقصد کے لیے حصول پاکستان کے لیے تھا اور رہی مسلم لیگ کی بات تو اس وقت کی مسلم لیگ ایک بڑی نمائندہ قوت تھی ہندوستان کے مسلمانوں کی آج تو درجن بھر مسلم لیگ ہیں وہ تعلق تو اسی قائداعظم کی مسلم لیگ سے جوڑتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتاتو پھر پاکستان ایسانہیں ہوتا جیسا اس وقت ہے۔
ذیشان نے سوال کیا تو پھر کیسا ہوتا۔ عرفان بھائی نے مسکراتے ہوئے ذیشان کو شاباش دی اور کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان کو کیسا ہونا چاہیے تھا پاکستان اسلام کے نام حاصل کیا گیا تھا قائداعظم کو زیادہ وقت نہ مل سکا اور اس کے بعد ہمارے حکمرانوں نے اس کی فکر اور نظریے پر عمل کرنے کے بجائے اس کے برخلاف کام کیے اور ایک مسلم قوم تقسیم ہوگی ہم زبان و نسل کی بنیاد پر تقسیم ہوئے۔ فرقوں میں تقسیم ہوئے ایک دوسرے سے لڑنے لگے ملک بھی دو ٹکڑے ہوا مگر پھر بھی ہوش نہیں آیا۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں پر بڑی بڑی باتیں اور بڑے بڑے مسائل پر عدم توجہ۔
ذیشان نے کہا اس کا حل کیا ہے عرفان بھائی نے کہا کہ اس کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیاگیا وہ کام کیا جائے اسلامی قوانین رائج کیے جائیں سب کو حقوق مل جائیں گے۔ ناانصافی کا خاتمہ ہوگا ملک ایک خوشحال ریاست بن جائے‘ صرف ایام منانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ اس مقصد کے لیے کچھ کرنے کا عزم کرنا ہوگا۔
ذیشان نے فضا میں ایک مکا لہراتے ہوئے کہا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایک فلاحی ملک بنائوں گا اور خود ایک اچھا پاکستانی بنوں گا۔

پھلوں کا اجلاس

مشعل مصطفیٰ
ایک پھل فروش کے چھوٹے سے ٹھیلے پر سجے ہوئے مختلف اقسام کے پھل ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے گویاان کا اجلاس جاری تھا وہ باتیں کیا کررہے تھے بلکہ صر ف اپنی اپنی تعریفیں کررہے تھے اپنی خوبیان بیان کررہے تھے انار نے کہا کہ میرا ایک ایک دانہ رس سے بھرا ہوتا ہے اس میں صحت ہی صحت ہے اور تمام دانوں کو قدرت نے ایک مضبوط چھلکے کے ذریعے یکجا اور محفوظ کیا ہوا ہے میری رنگت ہر شخص کو لبھاتی ہے ۔ امرود بول پڑا میری خوشبو دو رتک جاتی ہے اور جسے سونگھ کر ہر ایک اک دل للچتا ہے میرے استعمال سے نظام ہاضمہ بہتر ہوتا ہے۔ سیب کیسے خاموش رہتا میری رنگت اور خوشبو سب کی توجہ کامرکز ہے صحت کے لیے ضروری ہے جو روزانہ ایک سیب کھائے ڈاکٹر سے دور رہے یعنی بیماری سے دور اور صحت مند چیکو کیوں خاموش رہتا بول پڑا میری رنگت پر مت جائو کھانے میں اتنا میٹھا کہ جیسے چینی کھا رہے ہو اتنی مٹھاس اگر انسانی زندگی میں گول دی جائے تو تمام تلخیاں مانند پڑجائیں چیکو کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ کیلے میاں بول پڑے میں ایک سستا پھل ہوں مجھ پر اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت غلاف چڑھایا ہوا ہے ہر امیر غریب کو باآسانی دستیاب ہوں۔ خربوزے نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پہلے میری ایک فصل ہوا کرتی تھی اب تو سال میں دو مرتبہ آتا ہوں میرے غلاف کے کئی رنگ ہیں اور اس پر مختلف نقش و نگار ہیں اگرچہ ایک سے زیادہ خربوزے اوپر سے ایک ہی رنگ کے ہوں لیکن اندر سے مختلف رنگ نکلتے ہیں جس کو انسان رنگ بدلنا کہتا ہے اگر کسی کے رویے میں تبدیلی آئے تو کہتا ہے کہ کیا خربوزے کی طرح رنگ بدل رہے ہو میں پھلوں کی دنیا کا سب سے مظلوم پھل ہوں چھری مجھ پر گرے یا میں چھری پر ہمیشہ نقصان میرا ہی ہوتا ہے خربوزہ اپنی مظلومیت کی داستان بیان کرہی رہا تھا کہ ایک دم خاموشی چھاگئی پھلوں کے بادشاہ سلامت آم تشریف لارہے تھے آم نے کہا کہ ہر خاص و عام میرا انتظار کرتا ہے جس کا سبب میری خوشبو اور ذائقہ ہے میری مختلف اقسام ہیں مجھے پھلوں کا بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے بادشاہ ہونے کے باوجود ہر امیر‘ غریب کی دسترس میں ہوتا ہوں میرے آنے سے پھلوں کی دنیا میں ایک بہار آجاتی ہے دوسرے پھلوں کی حیثیت مانند پڑجاتی ہیں سب کی نظریں میری طرف ہی اٹھتی ہیں میرا موسم چند ماہ کا ہوتا ہے لیکن اس عرصے میں میرے سامنے کوئی پھل نہیں ٹکتا صرف میری طلب ہوتی ہے ہر طرف میں ہی میں ہوتا ہوں گویا میرا راج ہوتا ہے تمام پھلوں کی زبان بند ہوگئی ایک خاموشی چھا گئی آخر بادشاہ کی آمد کے بعد کسی کی کیا مجال تھی۔

گڈو کی بلی

ریاں امجد
گڈو نے ایک بلی پالی
نیل نیلی آنکھوں والی
بڑے بڑے بال اس کے
سر بھورا دم ہے کالی
جب چلے تو دم ہلائے
چال اس کی ہے نرالی
دودھ دیکھائو تو للچائے
ایک منٹ میں پیالی کردے خالی
کہتے ہیں سب شیر کی خالہ
لگتی ہے یہ رشتہ داری جالی

حصہ