آج مقابلہ ہے سخت

266

راشد عزیز
کامران اکمل کی غیرمعمولی بیٹنگ نے کراچی کنگز کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا اور دفاعی چیمپئن پشاور زلمی نے پہلے ایلی منیٹر میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دینے کے بعد دوسرے ایلی منیٹر میں بھی کامیابی حاصل کرلی اور آج وہ تیسری پاکستان سپر لیگ کے فائنل میں پہلی پی ایس ایل کے فاتح اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف اپنے اعزاز کا دفاع کرے گا۔
بہتر تو یہ ہوتا کہ کراچی کے شائقین 9 برس بعد اپنے شہر میں کرکٹ کے کسی بڑے ایونٹ میں اپنی ٹیم کراچی کنگز کی حمایت میں نعرے لگاتے اور خوشیاں مناتے جس کی تیاریاں انہوں نے بڑے زور و شور سے کی تھیں لیکن کرکٹ نام ہی ہے غیر متوقع واقعات کا اسی لیے کہتے ہیں ’’کرکٹ بائی چانس‘‘
یوں تیسری پی ایس ایل میں مجموعی طور پر بڑے سنسنی خیز مقابلے ہوئے لیکن آخری دو ایلی منٹیرز شائقین کو بہت اچھی کرکٹ دیکھنے کو ملی اور پہلے ایلی منیٹر میں اگرچہ پشاور زلمی نے کوئٹہ کو آخری گیند پر شکست دے دی لیکن اسے پشاور زلمی کی خوش قسمتی یا کوئٹہ کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے۔
دوسری ایلی میٹر میں حالات شروع ہی سے کراچی کنگز کے خلاف گئے اگر بارش جاری رہتی تو بہتر رن ریٹ پر کراچی بغیرکھیلے کوالیفائی کرجاتی شاہد آفریدی اور عماد وسیم ان فٹ ہونے کے سبب ٹیم سے باہر تھے۔ قیادت کی ذمہ داری فاسٹ بولر محمد عامرکو سونپی گئی جو میرے خیال میں درست نہیں تھا اس کے بجائے اگر یہ ذمہ داری روی بوبارا کو دی جاتی تو شاید بہتر فیصلے ہوتے۔ عامرنے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا جو اتنے اہم میچ میں درست فیصلہ نہیں تھا کیونکہ اگرپہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم بڑا اسکو رکرلے تو دوسری ٹیم نفسیاتی دبائومیں آجاتی ہے اور اس میچ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ عامر نے اپنے اس فیصلے کی توجیہہ یہ پیش کی کہ کیونکہ بارش کے سبب آئوٹ فیلڈ گیلی ہے لہٰذا پہلے بولنگ کرکے فاسٹ بولرز کو زیادہ سوئنگ مل سکتی ہے لیکن عملاً اس کے برعکس ہوا اور خود شاہد آفریدی نے کہا کہ اگرائونڈ گیلا ہونے کی وجہ سے گیند گیلی ہورہی ہے لہٰذا بولرز کو اس کا نقصان ہورہا ہے اور ان ہی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پشاور کے بیٹسمنوں نے 16 اوورز کے میچ میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 170 رنز بنالیے جس میں کامران اکمل کے صرف 27 گیندوں پر 77 شاندار رنز شامل تھے جو اس نے 6 زوردار چھکوں کی مدد سے بنائے۔ پہاڑ جیسے ہدف کا تعاقب نفسیاتی طورپر دشوار تھا جو ڈین لی اور بابر اعظم نے نصف سینچریاں تو بنالیں اور وکٹیں بھی بچالیں لیکن انہوں نے ابتدا ہی سے تیز اسکورنگ کی کوشش نہیں کی لگتا تھا کہ وہ ٹیم کو جتوانے خے بجائے اپنے انفرادی کھیل کو ترجیح دے رہے ہیں اور کراچی کنگز بالاخر یہ میچ 13 رنز سے ہار گئی اور اس کا اپنے ہی شہرمیں فائنل کھیلنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
آج کراچی میں دفاعی چیمپئن پشاور ایک بار پھر اسلام آباد کے خلاف اپنے اعزاز کا دفاع کرے گا او رمجھے لگتا ہے کہ بہترین ٹیم ورک جوش و جذبہ اور بہترین قیادت کی بدولت اس بار بھی فتح کا سہرا پشاور زلمی ہی کے سر پہ سجے گا۔
سپر لیگ کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی۔ شائقین کرکٹ کو اچھا کھیل دیکھنے کو ملا کرکٹرز اور خاص طو رپر پاکستانی کرکٹرز کو مالی طور پر فائدہ ہوا اس کے ساتھ ساتھ سابق کرکٹرز اور کرکٹ کے کھیل سے وابستہ دیگر منتظمین کے روزگار کا بھی بندوبست ہوا لیکن اصل تجزیہ اس بات کا ہونا ہے کہ پاکستان کی کرکٹر کو جو ایک طویل عرصہ سے بحران کا شکار ہے او رنہ صر ف یہ کہ دہشت گردی کی وجہ سے یہاں بین الاقوامی میچ نہیں ہورہے بلکہ ڈومیسٹک کرکٹ بھی زبوں حالی کا شکار ہے اسے اس ٹورنامنٹ کے انعقاد سے کیا فائدہ پہنچا اور آئندہ ملک میں ایک بار پھر اس کھیل کی بحالی اور ترقی و ترویج کے کیا امکانات ہیں اگر پی ایس ایل کے انعقاد کا مقصد صرف میلہ لگانے اور ہلے گلے تک رہے تویہ کوئی سود مند بات نہ ہوگی اس کا فائدہ چند کھلاڑیوں آرگنائزر اور کچھ کمرشل اداروں کو تو ہوتا ہے پاکستان کی کرکٹ اس کے ثمرات سے محروم رہے گی۔ اس ٹورنامنٹ کے انعقاد سے پاکستان کی کرکٹ کو وہی فائدہ پہنچنا چاہیے جو انڈین پریمیر لیگ سے بھارت کو ہوا ہے اور وہاں چند برسوں کے دوران اتنی بڑی تعداد میں کرکٹرز ابھر کر آئے ہیں کہ بھارت بین الاقوامی معیار کی کئی ٹیمیں بیک وقت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔ پاکستان میں بھی کرکٹ کے ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن اس ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف پی ایس ایل کے تمام میچ پاکستان میں منعقد کرائے جائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایک بار پھر بین الاقوامی میچوں کے انعقاد کی کوشش کی جائے۔ یہ بات مناسب نہیں کہ غیرملکی کھلاڑی بڑے بڑے معاوضے لے کر صرف دبئی اور شارجہ میں کھیل کر بائی بائی کر جائیں۔ پاکستان ایسے غیرملکی کھلاڑیوں کے نام ڈرافٹنگ میں کیوں ڈالتا ہے اور فرنچائز ان کو کیوں خریدتے ہیں جو پاکستان آنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔
کرکٹ بلاشبہ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے جتنے تماشائی اس کھیل کو دیکھنے اسٹیڈیم آتے ہیں کسی اور کھیل کو نہیں اس طرح ملک میں ٹیلنٹ کی بھی کمی نہیں لیکن عدم توجہی ناقص اور غیر مناسب انتظامات اور سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ کھیل طویل عرصہ تک صرف کراچی اور لاہور تک محدود رہا۔ یہ کھیل زیادہ تر ان ہی دو شہروں میں کھیلا جاتا تھا اور پاکستان کی قومی ٹیم میں ان ہی دو شہروں کی نمائندگی ہوتی تھی۔ پروفیشنل گیم ہونے کے باوجود کرکٹرز کے روزگار کا معقول بندوبست نہیں تھا ملک میں صرف چند ادارے ایسے تھے جن کی اپنی ٹیمیں تھیں یا وہ کرکٹرز کو روزگار فراہم کرتے تھے ان میں پاک پی ڈبلیو ڈی‘ ریلویز‘ نیشنل بینک‘ پی آئی اے سرفہرست تھے۔ بعد میں بینکوں اور دیگر سرکاری اداروں کی نیشنلائزیشن کے بعد ایک حکومتی فیصلے کے تحت کھلاڑیوں کی سرپرستی کا فیصلہ ہوا تو پھر یونائیٹڈ بینک ‘ حبیب بینک‘ مسلم کمرشل بینک ‘ کے ای ایس سی‘ واپڈا اور دیگر اداروں کی ٹیمیں تشکیل پائیں تو پھر اس کھیل کا دائرہ وسیع ہوا کرکٹرز کو روزگار فراہم ہوا تو نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی بہت بڑی تعدا دمیں کرکٹڑز ابھر کر سامنے آنے لگے لیکن پھر پاکستان کی کرکٹ شہروں کی کرٹ کے بجائے اداروں کی کرکٹ ہوکر رہ گئی جس کے کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں ایک تو دہشت گردی کی وجہ سے تمام کھیلوں اور خصوصاً کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا خاص طور پر سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان کی بین الاقوامی کرکٹ ختم ہوکر رہ گئی اس کے ساتھ ساتھ بہت سے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں نے اپنی ٹیمیں ختم کردیں اور کھلاڑیوں کے لیے روزگار کے مواقع ختم ہوگئے۔
کسی بھی ملک میں کسی کھیل کی مقبولیت اور معیار کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کو اس کھیل سے معاوضہ کتنا ملتا ہے۔ کرکٹ دنیا کے ان چند ممالک میں کھیلا جاتا ہے جو برطانیہ کی کالونی رہے ان میں برطانیہ کے علاوہ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی افریقہ‘ ویسٹ انڈیز‘ بھارت‘ سری لنکا اور پاکستان قابل ذکر ہیں۔ برطانیہ ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی افریقہ میں کرکٹرز کو اس کھیل کے ذریعہ ہمیشہ اچھا معاوضہ ملتا رہا ہے لیکن باقی ممالک میں حالات زیادہ سازگار نہیںاسی وجہ سے ان ممالک کے کرکٹرز روزی کمانے کے لیے انگلستان جاکر کائونٹی اور لیگ کرکٹ میں حصہ لیتے رہے ہیں لیکن بھارت میں پریمیر لیگ کے بعد بھارت کرکٹرز کے معاشی حالات بہتر ہوئے او رصرف بھارت ہی نہیں دوسرے ممالک کے کرکٹرز بھی کمائی کرنے کے لیے وہاں جانے لگے پی ایس ایل کے انعقاد کے بعد پاکستانی کرکٹرز کے حالات بہتر ہونے کے امکانات ہونے کے ساتھ ساتھ غیرملکی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے لیکن پی سی بی کو اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیے کہ غیرملکی اپنی شرائط پر کام کریں بلکہ جس طرح وہ آپ کو اپنی شرائط پر کام دیتے ہیں آپ بھی وہی رویہ اختیار کریں۔

پاکستان سپر لیگ2018 ءپوائنٹس ٹیبل

ٹیم میچ جیتے ہارے بے نتیجہ پوائنٹس
اسلام آباد 10 7 2 صفر 14
کراچی 10 5 4 1 11
پشاور 10 5 5 صفر 10
کوئٹہ 10 5 5 صفر 10
ملتان 10 4 3 1 9
لاہور 10 3 7 صفر 6

سپر لیگ رائونڈ میچز کامیاب ترین بیٹسمین

بیٹسمین ٹیم رنزلیوک رونکی اسلام آباد 383
کامران اکمل پشاور 347 (ٹورنامنٹ کا واحد سنچری میکر)
بابر اعظم کراچی 339
شین واٹسن کوئٹہ 319
فخر زمان لاہور 277

سپر لیگ رائونڈ میچز کامیاب ترین بولرز

بولر ٹیم وکٹیں
فہم اشرف اسلام آباد 17
وہاب ریاض پشاور 16
عثمان خان کراچی 15
راحت علی کوئٹہ 15
شاہد آفریدی کراچی 3

کامیاب ترین وکٹ کیپرز

وکٹ کیپر ٹیم شکار
کمارسنگاکارا ملتان 10
سرفراز احمد کوئٹہ 9

کامیاب ترین فیلڈرز

کھلاڑی ٹیم کیچ
احمد شہزاد ملتان 7
جے پی ڈومینی اسلام آباد 7

حصہ