عدم برداشت کی سیاست خطرے کی علامت

465

سید اقبال چشتی
’’ایک نوجوان غصے اور نفرت بھرے جذبات لے کر لاہور کے ایک مکان 5 اے ذیلدار پارک میں داخل ہوتا ہے، جہاں روزانہ سید ابوالاعلیٰ مودودی عصر کی نماز کے بعد ملنے کے لیے آنے والے شرکاء سے گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ جس وقت وہ نوجوان گھر میں داخل ہوا مولانا مودودی اپنی گفتگو شروع کرچکے تھے، اس لیے وہ نوجوان ایک کونے میں بیٹھ گیا اور مولانا مودودی کی گفتگو اور ہونے والے سوال وجواب کو بغور سننے لگا۔ کچھ دیر بعد نفرت بھرے جذبات لے کر آنے والا نوجوان اُٹھا اور مولانا مودودی کے پاس جاکر کہنے لگا ’’میں آج آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا تھا، اور یہ رہا وہ خنجر‘‘۔ اُس نے اپنی آستین سے خنجر نکال کر مولانا کے سامنے رکھ دیا ہے اور کہا ’’مجھے جو بتایا گیا تھا آپ اس کے بالکل اُلٹ ہیں، مگر میں اب آپ کا ہوچکا ہوں، بتایئے مجھے آپ کی جماعت میں آنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔‘‘
یہ نوجوان ستّر سال سے زائد عمر پانے کے بعد انتقال کرتا ہے اور مجھے اس نوجوان سے، جو بڑھاپے کی دہلیز بھی پار کرچکا تھا کئی بار ملاقات کا شرف حاصل رہا۔‘‘
یہ قصہ ایک کتاب میں درج ہے مگر مجھے ایک بزرگ ساتھی نے سنایا، اور اُن بزرگ رکن جماعت کو خود اُس فرد نے بتایا تھا کہ مولانا مودودی کو قتل کے ارادے سے جانے والا نوجوان میں تھا۔ قائد کے کردار، اخلاق اور زبان سے ادا ہونے والے الفاظ نے اپنے قتل کے ارادے سے آئے ہوئے فرد کو ایساگرویدہ بنالیا کہ وہ ساری زندگی اسی جماعت سے وابستہ رہا۔
جذباتیت یا تو اپنا نقصان کرتی ہے یا پھر کسی دوسرے کا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھو۔ جذبات کو قابو میں رکھنے کی وجہ سے وہ نوجوان غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈے کی نذر نہیں ہوا بلکہ اصلاح کا راستہ اختیار کرلیا۔ لیکن آج کے نفسانفسی کے اس دور میں جہاں عدم برداشت بہت زیادہ پائی جاتی ہے وہیں سیاست کے میدان میں اپنے مخالف کو برداشت نہ کرنے کا رجحان بھی زور پکڑ گیا ہے، خاص طور پر پاکستان کی نووارد سیاسی جماعتوں نے ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ شاید اس کی وجہ کسی پارٹی کا کوئی نظریہ نہ ہونا ہو، کیونکہ اب جو نئی سیاسی یا مذہبی جماعتیں پاکستان میں قائم ہورہی ہیں ان میں سے اکثر کوئی نظریہ نہیں رکھتیں بلکہ وہ شخصیت یا پھر کسی نعرے کی بنیاد پر قائم ہیں۔ اسی لیے سیاسی کارکنان کی تربیت کا فقدان پایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پارٹی کارکنان مخالف کو اپنا بدترین دشمن تصور کرتے ہیں۔ سیاست میں برداشت اور رواداری ختم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر الزامات کے ساتھ لڑائی جھگڑا تو پہلے ہی سے تھا، لیکن اب پارٹی لیڈران کو جوتا مارنا یا پھر منہ پر کالک مَلنے کے لیے سیاہی یا کسی اور سیّال مادے کا استعمال اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہماری سیاست سے برداشت ختم ہوگئی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ دنوں لاہور میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف مفتی سرفراز نعیمی کے عرس کے موقع پر بطور مہمانِ خصوصی جب جامعہ نعیمیہ تشریف لے گئے تو وہاں اُن پر نوجوان عبدالغفور نے جوتا پھینک کر اپنی نفرت کا اظہار کیا اور ساتھ ہی لبیک کا نعرہ لگایا، جس سے فوری تاثر یہی پیدا ہوا کہ یہ نوجوان تحریک لبیک کا کارکن ہے۔ یہ حرکت اس تنظیم کی طرف سے ہی کرائی گئی ہوگی، لیکن تحریک لبیک کے قائدین نے جوتا مارنے والے کارکن سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس نوجوان نے یہ اقدام کیوں کیا، جبکہ اس کے قائدین جو اب نوجوان سے لاتعلقی ظاہر کررہے ہیں انہی قائدین نے اس نوجوان کے جذبات کو اُبھارا ہے، اس لیے کہ گزشتہ کئی برسوں سے سیاست میں گالم گلوچ، ابے تبے کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ مخالف سیاسی قائدین کو برے الفاظ سے یاد کرنا اور ان کے سچے، جھوٹے لطیفے سنانا اب سیاسی کلچر بن چکا ہے… چاہے وہ عمران خان ہوں، خادم حسین رضوی ہوں یا پھر الطاف حسین… مخالفین کے لیے گندی زبان استعمال کرنا سیاسی دکان چمکانے کے لیے لازم و ملزوم سمجھ لیا گیا ہے۔ الطاف حسین جب بھی تقریر شروع کرتے تھے ایک گندا لطیفہ جماعت اسلامی کے حوالے سے ضرور سناتے تھے، کیونکہ اُن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ جماعت اسلامی ہی تھی۔ اسی طرح خادم حسین رضوی جو اپنے آپ کو مذہبی جماعت کا لیڈر کہتے ہیں، کسی شرم و حیا کے بغیر اپنی تقریر میں گالیاں دینا لازمی سمجھتے ہیں، جس سے پارٹی کے کارکنان سمجھتے ہیں کہ سیاسی مخالف کو گالی دینا، مارنا، یا قتل کردینا بھی کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ جو پارٹیاں سیاست میں عدم برداشت کی قائل ہیں یا تھیں، آج انہیں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہورہا ہے۔ ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے، کچھ اسی طرح کا حال دوسری پارٹیوں کا بھی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ نوازشریف کو جوتا مارنے والا نوجوان مذہبی رجحان کا حامل بلکہ مدرسے کا طالب علم رہا ہے، اور اس نے یہ حرکت کسی سیاسی جلسے میں نہیں بلکہ مدرسے کے اندر کی ہے، جس سے سیکولر اور لبرل عناصر کو مذہب کو بدنام کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ آگیا ہے۔ حالانکہ دینِ اسلام جنگ کے اُصول بتاتا ہے تو اپنے دشمن سے بھی پیار اور اخلاق کے ساتھ دلائل کے ذریعے بات کرنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ اگر کسی لیڈر پر جوتا پھینک کر، یا پھر کسی لیڈر کے منہ پر سیاہی ڈال کر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اُس فرد کی تذلیل کردی گئی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی کچرا پھینکا گیا، سجدے کی حالت میں اوجڑی سر پر ڈال دی گئی، تو کیا نعوذ بااللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوگئی؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ لیکن مخالفین نے جو بھی آپ ؐ کے ساتھ سلوک روا رکھا، آپؐ نے کبھی کسی بات کا برا نہیں منایا بلکہ اپنے اچھے اخلاق سے مخالفین کے دل جیت لیے۔ یہی وجہ تھی کہ ابوسفیان ؓ بھی ایمان لائے اور آج کے دور میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے سیاسی نام ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں، اور ان سیاسی رہنمائوں اور کارکنان کو سب خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی پوری سیاسی قیادت نے سیاہی پھینکنے اور جوتا مارنے کے فعل کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے جو ایک خوش آئند امر ہے۔ لیکن اس کے برعکس میڈیا پر سیاسی قیادت کے ساتھ ہونے والے ان واقعات کو مذاق اور تذلیل بناکر پیش کیا گیا جو کسی طور بھی صحیح نہیں ہے۔
اسلام جہاں تحمل و برداشت کا درس دیتا ہے وہیں کسی دوسرے کو برے القاب سے یاد کرنے یا نام رکھنے سے بھی منع کرتا ہے۔ یہی تربیت اگر سیاسی پارٹیوں کے قائدین اپنے کارکنان کے لیے لازمی کردیں کہ مخالفت کا جواب مخالفت سے نہیں بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دینا ہے، تو سیاسی ماحول کی گرمی خالی کم ہوسکتی ہے، کیونکہ آج کا مخالف کل ہمارا ساتھی ہوسکتا ہے جیسے سینیٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مشترکہ امیدار کھڑا کیا۔ لیکن ایک دو کے سوا بدقسمتی سے ہماری تمام سیاسی پارٹیوں کے اندر کوئی تربیتی نظام نہیں پایا جاتا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب تک پا کستان میں سیاسی شعور نہ ہی سیاسی کارکنان میں اُجاگر ہوا ہے اور نہ ہی عوام میں بیدار ہوا ہے۔ ستّر برسوں سے پاکستانی عوام اُن سیاسی مداریوں کے پیچھے چل رہے ہیں جو نہ مذہب سے مخلص ہیں اور نہ ہی پاکستان سے۔
پورے ملک کے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں، بے شمار بلدیاتی مسائل ہر شہر اور گائوں میں ہیں، لیکن عوام کبھی باہر نہیں نکلے اور نہ کبھی وعدے پورے نہ کرنے والوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے شکست دے کر اُن کو جوتا مارا کہ ہم اب تمہارے جال میں پھنسنے والے نہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار کی بازگشت بھٹو کے وقت سے پاکستانی عوام سن رہے ہیں، لیکن ہر بار کرپٹ ٹولہ ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ کس کی وجہ سے؟ عوام کی وجہ سے۔ اگر عوام واقعی بے حس حکمرانوں اور کرپٹ سیاسی پارٹیوں سے نفرت کرتے ہیں تو کسی نے صحیح کہا ہے کہ جوتے اور سیاہی کا استعمال اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت اور ووٹ ڈالتے ہوئے کریں، اور آپ کے جو بھی جذبات ہوں اس کے لیے بھی سیاسی میدان ہی استعمال کریں۔ اپنے ووٹ کی طاقت سے کرپٹ اور عدم برداشت کی سیاست کرنے والوں کو مسترد کردیں… یہی بہترین بدلہ ہے۔

حصہ