اسٹیفن ہاکنگ ستاروں سے آگے جہانوں کا متلاشی

287

بنتِ حق
ایک معمولی سی خبر ہے کہ برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ 76 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ سائنسدانوں سے ہمیں لینا دینا بھی کیا اور سائنسدان بھی دھریہ۔ جو خدا کے وجود کا منکر ہو ہمارا پارسا ذہن اس کے بارے میں سوچنے کو بھی گناہ سمجھتا ہے۔ مٹی پائو ایسی عقلیت پر جو خدا کی معرفت عطا نہ کرے۔ ویسے بھی اللہ معاف فرمائے ایجادات، سائنس اور فلسفہ وغیرہ سے ہمارا تعلق بھی کیا۔ جو اسلام کی تاریخ کی ابتدائی تین صدیاں ہمارے کارناموں سے روشن ہیں، ہمیں تو ان پر فخر ہے۔ بقیہ ہزار برس ہم نے اسی احساس برتری میں گزار دیے کہ علم سائنس اور فلسفہ تو پیدا ہی مسلمانوں کی کوکھ سے ہوا تھا۔ اقبال دُھائی دیتے رہ گئے کہ ؎

تھے توآبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

دنیا اس وقت اسٹیفن ہاکنگ کی خدمات پر بات کررہی ہے، ہم اس کے مذہبی نظریات پر بات کرکے ایک کام اور مشرک کا بوجھ زمین پر کم ہوجانے پر سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ آنجہانی روتھ فائو تو ہماری خدمت کرتے ہوئے دنیا سے چلی گئیں۔ نہ خدا کی رضا ان کا مقصد تھا نہ کسی جنت الفردوس کے داخلے کی وہ متمنی تھیں۔ پھر بھی ایسے مریضوں کے درمیان جوانی گزار گئیں جن کے مرض سے گھن کھا کر خود قریبی عزیز ان کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔ ہم نے خراج تحسین پیش تو کردیا روتھ فائو کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کرکے اب اور کیا کریں؟ ان کی موت سے ہم میں سے کتنوں نے یہ سبق لیا کہ انسانیت کی خدمت کا یہ جذبہ زندگی کی معراج ہے۔ کیا ایک لاکھ میں سے کسی ایک فرد نے بھی سوچا کہ ہم بھی دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے خود کو روتھ فائو کی طرح وقف کرتے ہیں۔ کم از کم جذام کے خلاف ان کے مشن کے لیے کچھ پیشرفت کرسکتے ہیں۔ ایک جذام ہی کیا پاکستان میں مہلک ترین بیماریوں میں لاکھوں لوگ علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب نہ ہونے کے باعث دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ ہم جو جنت کے طلب گار ہیں ہمیں تو انسانیت سے اس سے زیادہ پیار کرنا چاہیے جتنا غیر مسلم کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری چپل سے لے کر سوئی تک اور جاء نماز سے لے کر ہوائی جہازوں تک سب کچھ مشرک، دھریے اور جہنمی تیار کرتے ہیں جن کے لیے ہم نمازوں میں بددعا کرتے ہیں خانہ کعبہ کا غلاف ہو یا حرم شریف کا سائونڈ سسٹم کون سی مشین مسلمانوں نے ایجاد کی ہے؟ آب زم زم بھی ہم تک انہی کی بنائی ہوئی مشینوں سے پہنچتا ہے۔
علم ان کا، تحقیق ان کی، ایجادیں ان کی اور تن آسانی ہماری۔ ہم مسلمان شیعہ سنی میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خون کے دریا بہارہے ہیں، ہتھیار وہ فراہم کررہے ہیں جن کی ہتھیاروں کی منڈیاں ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ نہ مرتا تو ہم اب بھی اسے نہ جانتے۔ ہماری نسلیں تو رٹو طوطے بن رہی ہیں، تعلیمی اداروں میں علم سے ہمیں لینا دینا بھی کیا۔ یہ تو یورپ ہے جس پر ہم لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ اسٹیفن کا مقالہ ان کی ویب سائٹ پر ڈائون لوڈ ہونے والا ہے تو انٹرنیٹ صارفین کے رش کی وجہ سے وہ ویب سائٹ کریش ہوگئی۔ اللہ نے تو کہہ دیا قرآن میں کہ ’’جاننے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہیں۔‘‘ جو جاننے والے ہیں اللہ اپنی دنیا کا انتظام چلانے کے لیے ان لائق اور قابل افراد کا انتخاب ان ہی میں سے کرے گا۔ جب تک مسلمان پورے اترے اس معیار پر دنیا کی امامت ان کے پاس رہی۔
ہم کائنات میں بلیک ہولز اور نظریہ اضافیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کوئی بات نہیں ہمیں ان کی کتاب ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ کے بارے میں کچھ نہیں پتا جو ایک کروڑ کی تعداد میں فروخت ہو کر ورلڈ ریکارڈ قائم کرگئی۔ ہمیں یہ نہیں پتا کہ باوجود معذوری کے وہ ناسا کی مدد سے جو خلائی سفر کیا کرتے تھے اس میں انہوں نے کائنات کو مزید دریافت کرنے کے لیے کس جوش و جذبے کا اظہار کیا۔ ہم ہاکنگ ریڈیشنز کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر ہم اسٹیفن ہاکنگ کی موت پر اتنا بھی نہ جانیں کہ 1963ء میں 22 برس کی عمر میں جب انہیں ’’موٹر نیورون‘‘ کا مرض لاحق ہوا تو ڈاکٹروں نے ان کی زندگی کے بارے میں مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے مریض دو یا تین برس ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کا جسم ناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے اور حد سے زیادہ بھی دس برس ہی کوئی زندہ رہا ہے اس مرض میں۔
22 برس عین نوجوانی میں جو وہیل چیئر کو پیارا ہوجائے تو تمام عمر وہ محتاج سماج کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھتا رہتا ہے۔ اسٹیفن نے ساری دنیا کو پیغام دیا کہ جسم ساتھ بھی چھوڑ جائے تو زندہ دماغ کائنات کی وسعتوں کا کھوج لگانے پر قادر ہے۔ جسمانی معذوری کو ذہنی نہ سمجھا جائے۔ وہیل چیئر پر بیٹھ کر بھی قطرے کی وسعتوں میں سمندر تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
تھیوریٹیکل فزکس میں آئن اسٹائن کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا سائنسدان جو وہیل چیئر پر بیٹھا 30 برس سے کیمبرج یونیورسٹی میں علم الریاضی کا پروفیسر تھا اور 2009ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد تھیورٹیکل کا سمولوجی سینٹر کے ریسرچ ڈائریکٹر جیسے اعلیٰ عہدے پر تعینات ہونے والا اسٹیفن کوئی لفظ زبان سے کہنے پر قادر نہ تھا۔ پچھلے کئی عشروں سے وہ بے جان جسم کے ساتھ کائنات کے راز ٹٹولتے رہے ان کے جسم میں سیدھا گال معمولی سی حرکت کرتا تھا۔ ماہرین نے ان کے چشمے پر ایک سینسر نصب کردیا تھا جو ان کے گال کی حرکت کو محسوس کرکے کمپیوٹر اسکرین پر مطلوبہ حرف ٹائپ کردیتا تھا۔ انہیں اس طرح ایک جملہ ترتیب دینے میں 10 منٹ لگتے تھے۔ پچھلے پچاس برس سے وہ خلا کی وسعتوں میں ان جسمانی مشقتوں کے ساتھ محو پرواز رہے۔ جسم کے پٹھوں اور اعصاب پر سے ان کا کنٹرول کئی عشرے پہلے ختم ہوچکا تھا۔ وہ اپنی انگلیوں حتیٰ کہ آنکھوں کو بھی حرکت دینے پر قادر نہیں تھے۔ اتنی خطرناک بیماری اور معذوری میں مبتلا ہونے کے باوجود انہوں نے کوسمولوجی جیسے مضمون کا انتخاب کیا کہ کائنات کے رازوں کو جاننے کا تجسس انہیں بے کل کیے رکھتا تھا۔ وہ جو 1974ء کے بعد خود کھانے پینے اور اُٹھنے بیٹھنے کے بھی قابل نہ تھے اور 85ء کے بعد ان کی آواز مستقل طور پر بند ہوگئی مگر وہ اس عالم رنگ بو سے بے نیاز ستاروں سے آگے جہانوں کی تلاش کے سفر پر جو نکلے تو واپس ہی نہ پلٹے۔ وہ انگلیاں ہلانے کے بھی قابل نہ رہے تھے تو انفرایڈبیم کے ذریعے پیغام رسانی شروع کردی۔ وہ صرف آنکھوں کو جھپک سکتے تھے۔ کمپیوٹر کے ذریعے ساری زندگی رابطہ کاری کی بیشتر حواس خمسہ سے جدائی کے سبب۔
ان کے انتقال پر بھی ایک سبق دیا ان کے معاشرے نے دنیا کو ان کے انتقال کی خبر نشر ہوئی تو ان کے مشن کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی ویب سائٹ پر عطیات دینے والوں کا اتنا رش لگ گیا کہ ویب سائٹ کریش ہوگئی۔ ویسے عبدالستار ایدھی کو خراج تحسین پیش کرنے کا بھی یہ طریقہ ہوسکتا تھا۔
اسٹیفن ہاکنگ اپنے ناکارہ جسم کا بوجھ وہیل چیئر پر ڈالے کمپیوٹر کو حواس خمسہ کی جگہ استعمال کرکے تھیوریٹیکل فزکس اور کاسمولوجی میں جو بھی خدمات انجام دے گئے مگر ہم مسلمانوں کو ضرور یہ پیغام دے کر گئے ہیں کہ تسخیر کائنات کے لیے تو ہمیں بھیجا گیا تھا۔ تم نے قرآن کی تسخیر کائنات کی دعوت بھلا دی تو تم مسخر ہوگئے اقوام غیر کے ہاتھوں۔

حصہ