آپ کے مخالف آپ کو زندہ رکھتے ہیں، ذکیہ غزل

1293

جسارت میگزین: آپ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیں۔
ذکیہ غزل: میں ایک مشرقی روایات کے علم بردار خانوادے کی فرد ہوں۔ میرا پیدائشی نام ذکیہ سلطانہ ہے جب میں نے اشعار کہنے شروع کیے تو میرے والد نے میرے نام میں غزل کا اضافہ کردیا اس طرح میں ایک عرصے تک ذکیہ سلطانہ غزل کے نام سے ادبی حلقوں میں جانی پہچانی جاتی تھی پھر یہ ہوا کہ دھیرے دھیرے میرے نام سے سلطانہ حذف ہوتا چلا گیا اور میں ذکیہ غزل کہلانے لگی۔ میرے والد بہت اچھے خوش الحان نعت خوان تھے میں نے ان سے ترنم سیکھا اور محفلِ میلاد میں نعتیں پڑھیں میں نے ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کے لیے اپوا گرلز کالج جوائن کیا جہاں 1978ء میں مجھے گرلز یونین کا صدر منتخب کیا گیا‘ ہمارے کالج میں نصابی عمل کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں بھی ہوتی تھیں میں جن مقابلوں میں حصہ لیتی تھی ان میں بیت بازی‘ شعر گوئی کا مقابلہ‘ مقابلۂ نعت خوانی اور تقریری مقابلے شامل ہیں۔ ان مقابلوں میں مجھے جو میڈلز‘ اسناد اور ٹرافیاں ملیں وہ آج بھی میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میں نے جامعہ کراچی سے نفسیات میں ایم اے کی سند حاصل کی۔
میرے خاندان کا شمار بھی ان میں ہوتا ہے جو ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ میرے والد صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کے سرگرم کارکن تھے۔ جب پاکستان بن گیا تو ہمارے خاندان پر ہندوستان کی زمین تنگ کر دی گئی جس کے باعث میرے والدین چھپتے چھپاتے بامشکل تمام پاکستان آئے اور ایک انشورنس کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ میرے والد علیم اللہ قادری کیماڑی کی مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ جب میری شادی ہوئی تھی اس وقت میرے پاس پانچ گولڈ میڈلز تھے میں نے ریڈیو پاکستان ورلڈ سروس میں بطور انائونسر چھ سال ملازمت کی ہے میں بزمِ طلباء پروگرام میں خطوط کے جوابات دیا کرتی تھی۔ میں ریڈیو میگزین بھی کیا کرتی تھی‘ ریڈیو پر میری تربیت کرنے والوں میں یاور مہدی بھی شامل ہیں کہ جنہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے دوران میں نے صادق الاسلام‘ رضی اختر شوق‘ خواجہ بیگم اور انعام صدیقی سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ وضاحت نسیم ریڈیو پاکستان میں مجھ سے سینئر تھیں‘ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ ڈیوٹی آف کرتی تھیں اور میں ان کی جگہ ڈیوٹی جوائن کرتی تھی وہ بہت سینئر شاعرہ ہیں۔ میں نے پی ٹی وی کے ادبی پروگراموں کی نظامت بھی کی ہے اور کوئنز مقابلوں‘ محفل میلاد کی بھی‘ غالباً وہ 1979ء یا 1980 کا زمانہ تھا کہ جب میں نے اپوا گرلز کالج یونین کے صدر کی حیثیت سے بہ طور شاعرہ مہتاب راشدی کے پروگرام ’’فروزاں‘‘ میں انٹرویو دیا اس موقع پر حمایت علی شاعر بھی موجود تھے وہاں میں نے ایک نظم سنائی تھی یہ وڈیو اوج کمال کے پاس اب بھی موجود ہے اس کے علاوہ میں نے بحیثیت طالبہ مینا بازار‘ آزمائش اور نیلام گھر جیسے اہم پروگراموں میں حصہ لیا ہے۔ بہت سے طرحی مشاعروں میں بھی شرکت کی ہے ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں طرحی مشاعروں کا رواج تھا اب نہ جانے کیوں یہ روایت ختم ہوتی جارہی ہے شاید لوگ سہل پسند ہوگئے ہیں جب کہ کینیڈا میں اس وقت بھی طرحی مشاعرے ہو رہے ہیں۔ طرحی مشاعرہ کرانے والے ایک ماہ پہلے مصرع طرح دے دیتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم تقریباً سب ہی شاعر طرحی مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں دوسرے یہ کہ وہاں ادبی پروگراموں میں بھی نما کا وقفہ ہوتا ہے‘ باجماعت نماز ہوتی ہے نماز ختم ہونے کے بعد پروگرام آگے بڑھتا ہے جب کہ کراچی میں ایسا نہیں ہورہا۔ ہمیں اسلامی تعلیمات کی پاسداری کرنی چاہیے۔
جسارت میگزین: آپ نے شاعری کب شروع کی‘ آپ شاعری میں کس کی شاگرد ہیں؟
ذکیہ غزل: میں نے کسی کے سامنے زانو تلمذ تہہ نہیں کیا یعنی شاعری کے حوالے سے میں کسی کی شاگرد نہیں ہوں البتہ جب میں جامعہ کراچی میں زیر تعلیم تھی تو وہاں ہونے والے شعر گوئی کے مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے جو کلام لکھتی تھی وہ پہلے پروفیسر سحر انصاری یا پروفیسر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی کو دکھایا کرتی تھی تاکہ کسی غلطی کی گنجائش نہ رہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شاعری کب شروع کی تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں نویں جماعت کی طالبہ تھی تو میں نے ’’سونی دھرتی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی تھی ویسے میں 1978ء سے اخبارات و رسائل میں چھپ رہی ہوں‘ میرا کلام روزنامہ جنگ‘ آغاز اور دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوتا رہا ہے۔ 1982ء میں محمود شام کے ادبی رسالے ’’معیار‘‘ کے لیے نزہت شیریں صاحبہ نے میرا انٹرویو شائع کیا تھا۔ جامعہ کراچی کے میگزین ’’الجامعہ‘‘ میں بھی میرا انٹرویو شائع ہو چکا ہے جو کہ سلیم مغل صاحب نے لیا تھا۔ 1978ء میں ہونے والے ایک شعری مقابلے میں غزل پہلی انعام کی حق دار قرار پائی یہ غزل 1979ء میں ڈائو میڈیکل کالج کے میگزین میں شائع ہوئی۔ یہ تمام تحریری Evidence میری سنیارٹی کا تعین کرتے ہیں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ جو لوگ زمانۂ طالب علمی سے لکھ رہے ہیں ان کا یہ پیریڈ بھی Count کیا جائے ہمارے بہت سے شعرا ایسے ہیں جو طالب علمی کے زمانے سے اشعار کہہ رہے ہیں اور چھپ بھی رہے ہیں۔
جسارت میگزین: شاعرات کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ کسی سے اشعار لے کر پڑھتی ہیں آپ اپنے بارے میں کیا کہتی ہیں؟
ذکیہ غزل: جہاں تک متشاعر‘ خواتین و حضرات کی بات ہے تو یہ ایک ایسا المیہ ہے جو صرف ہمارے دور میں ہی نہیں بلکہ غالبؔ اور میرؔ کے زمانے میں بھی تھا‘ متشاعر وقتی طور پر کامیاب ہو جاتے ہیں مگر کبھی نہ کبھی ان کا پردہ فاش ہو جاتا ہے۔ بہت سے متشاعر و متشاعرات اپنے استاد کے مرنے کے بعد ادبی منظر نامے سے گم ہو گئے آج انہیں کوئی نہیں جانتا۔ متشاعر پیدا کرنے والوں میں کئی استادانِ فن کے اسمائے گرامی ہمارے سامنے ہیں۔ نثار بھائی! خود آپ کے استاد راغب مراد آبادی سادہ کاغذ پر بھی اصلاح دیا کرتے تھے‘ بابا اسماعیل‘ حکیم انجم فوقی‘ بابا رفیق عزیزی‘ سیماب اکبر آبادی‘ استاد قمر جلالوجی‘ فہیم ردیلوی کے علاوہ بھی بہت سے استاد ہیں جو کہ اس حوالے سے شہرت رکھتے ہیں‘ آج بھی کچھ شعرا اپنے شاگردوں کو کلام دے رہے ہیں۔ دیکھیے میرے بھائی! شاعری عطیہ خداوندی ہے یعنی God gifted ہوتی ہے کوئی اپنی مرضی سے شاعر نہیں بن سکتا‘ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی شاعرہ جیسے ہی ذرا سی مشہور ہوئی اس پر طرح طرح کے الزامات لگنے شروع ہوگئے جس میں ایک بات یہ بھی شامل ہوتی ہے کہ وہ کسی استاد شاعر سے لکھوا رہی ہے۔ پروین شاکر کے بارے میں کہاگیا کہ وہ احمد ندیم قاسمی سے کلام لے رہی ہیں لیکن اللہ نے انہیں بڑی عزت و شہرت دی انہوں نے بہت مشاعرے پڑھے ان کے بعد میں واحد شاعرہ ہوں کہ جس نے پاکستان اور بیرون پاکستان مشاعروں میں سب سے زیادہ شرکت کی ہے اور پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ جہاں جہاں اردو بستیاں قائم ہیں وہاں وہاں ذکیہ غزل کا نام زندہ ہے میں نے بیساکھیوں کے ذریعے اپنے قدوقامت میں اضافہ نہیں کیا‘ میں اپنے ہنر سے آگے بڑھ رہی ہوں۔ میں نے بڑی محنت و ریاضت کی ہے آپ مجھے ابھی مصرع دیجیے میں ابھی اس پر شعر کہہ دوں گی‘ میں نے فی البدیہ شعر گوئی کے مقابلوں میں حصہ لیا ہے اگر آپ کو یہ دیکھنا ہو کہ کون شاعر ہے اور کون متشاعر ہے تو آپ فی البدیہ مشاعرے کا اہتمام کیجیے‘ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن کسی کو بدنام کرنا اچھی بات نہیں ہے میرے ساتھ تو یہ ہوا کہ جب میں نے کراچی میں مشاعرے پڑھنے شروع کیے تو میرے حاسد پیدا ہوگئے انہوں نے طرح طرح کی باتیں شروع کردیں لوگوں نے میرے گھر پر نازیبا کلمات لکھ کر خط بھیجے‘ مجھے دھمکی آمیز فون کالز آئیں لیکن میں نے کسی کو جواب نہیں دیا میں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا کیونکہ وہ سب سے بہترین انصاف کرنے والا ہے‘ آپ دیکھ لیجیے کہ میں آج بھی ادبی منظر نامے کا حصہ ہوں لیکن وہ لوگ اپنی موت آپ مر گئے۔
جسارت میگزین: آپ نے پاکستان کے باہر کس طرح مشاعرے پڑھے؟
ذکیہ غزل: شاہدالوری صاحب نے مجھے انڈیا میں متعارف کرایا میں نے ان کے توسط سے انبالہ اور پانی پت کے علاوہ بھی کئی اہم شہروں میں مشاعرے پڑھے۔ وہ بہت نیک انسان تھے انہوں نے بہت سے پاکستانی شعرا کو بھارت میں مشاعرے پڑھوائے۔ انہوں نے جب مجھے انڈیا جانے کی بات کی تو میں نے کہا کہ شاہد بھائی میں اپنے شوہر کے بغیر بھارت نہیں جاسکتی انہوں نے میرے شوہر کا بھی ویزا منگوایا۔ وہ محبتوں کے سفیر تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے مجھے ان کی موت کا بہت دکھ ہے۔
مجھے شبنم رومانی صاحب نے امریکا میں مشاعرہ پڑھوایا‘ اوج کمال صاحب نے پہلی بار دبئی کا مشاعرہ پڑھوایا‘ میں احسان فراموش نہیں ہوں‘ میں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہوں‘ میں یہاں جمیل الدین عالی صاحب کی محبتوں کا تذکرہ بھی کرنا چاہوں گی (میری ان سے اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب میں شاعری کے میدان میں مشہور ہوچکی تھی) انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم دوہے بھی لکھتی ہو لیکن مشاعروں میں نہیں پڑھتی ہو‘ اس کی کیا وجہ ہے میں نے ان سے عرض کی کہ مجھے آپ کا ترنم بہت پسند ہے اس کے علاوہ کوئی اندازِ ترنم مجھے اچھا نہیں لگتا۔ انہوں نے فرمایا کہ میری طرف سے تمہیں اجازت ہے کہ تم میرے ترنم کو follow کرو‘ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں عالی جی کے انداز میں دوہے پڑھ رہی ہوں اور خوب داد سمیٹ رہی ہوں۔
جسارت میگزین: آپ کراچی سے کینیڈا کیوں چلی گئیں؟
ذکیہ غزل: میرے بچوں کو پڑھنے کا بہت شوق ہے‘ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے پاکستان سے باہر جانا چاہتے تھے لیکن میں انہیں اکیلا نہیں بھیج سکتی تھی میں ان مائوں میں سے ہوں کہ جو اپنی اولاد کے لیے قربانیاں دیتی ہیں‘ جب یہ طے ہو گیا کہ میرے بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا جائیں گے تو ہم وہاں شفٹ ہوگئے۔ میرے شوہر یوبی ایل میں آئی ٹی شعبے کے ہیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ وائس پریزیڈنٹ بھی تھے‘ آئی ٹی میں مہارت کی بنیاد پر وہ کینیڈا میں بھی برسر روزگار ہیں۔
جسارت میگزین: جب آپ کراچی میں تھیں اُس وقت کے ادبی منظر نامے میں اور آج کی ادبی سرگرمیوں میں کیا فرق محسوس کرتی ہیں؟
ذکیہ غزل: ایک زمانہ تھا کہ کراچی کا ادبی ماحول قابل ستائش تھا۔ پاکستان میں کراچی اور لاہور‘ ادب کے اہم دبستان ہیں۔ اس وقت کراچی کی ادبی صورت حال یہ ہے کہ دو دو‘ چارچار شاعر و شاعرات نے اپنا اپنا گروپ بنا لیا ہے اور انجمن ستائش باہمی کی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے علاوہ کوئی قابل ذکر ادبی کام نہیں ہو رہا یہ ایک لمحہ فکر ہے۔ میں نے 25 سال تک کراچی میں مشاعرے پڑھے ہیں اس وقت لوگوں میں خلوص و محبت پایا جاتا تھا ہر مشاعرے میں ایک جیسی سنیارٹی کے حامل کئی شعرا ہوا کرتے تھے نظامت کار کے لیے یہ مسئلہ ہوتا تھا کہ وہ کس کو پہلے پڑھوائے اور کس کو بعد میں۔ ہم عصر شعرا ایک دوسرے کی صدارت میں مشاعرہ پڑھ لیا کرتے تھے اب یہ صورت حال ہے کہ آپ کسی کو مشاعرے کی دعوت دیں تو وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ مشاعرے کا صدر کون ہوگا؟ جب آپ نام بتاتے ہیں تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ سے کہا جاتا ہے کہ میں فلاں سے سینئر ہوں میں اس کی صدارت میں مشاعرہ نہیں پڑھ سکتا۔ ادبی گروہ بندیوں سے اردو زبان و ادب کا تقدس پامال ہو رہا ہے‘ بہت سے جینوئن شعرا نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ خدا کے لیے اختلافات و تعصبات کے حصار سے باہر نکلیے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جایئے‘ یہ قومی ضرورت ہے‘ اس کے بغیر ہماری ترقی ممکن نہیں۔ آپ ایک دوسرے کو تسلیم کیجیے‘ لوگوں کی عزت کیجیے‘ آپ خلوصِ نیت سے ادب کی خدمت کیجیے۔آپ دیکھیے گا کہ آپ کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
ذکیہ غزل: شاعری انسانی جذبات کی ترجمانی کرتی ہے‘ نثر کے مقابلے میں یہ زیادہ مؤثر ذرائع ابلاغ ہے۔ ادب برائے زندگی ہے‘ ایک شاعرہ یا شاعر اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اسے شاعری بنا کر پیش کر دیتا ہے جو شاعر زمینی حقائق نظر انداز کرتا ہی اس کی شاعری مر جاتی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر زمانے کے تقاضے جدا جدا ہوتے ہیں اس لیے ہر عہد کا ادبی منظر نامہ مختلف ہوتا ہے‘ ہر زمانے کی لفظیات تبدیل ہو جاتی ہیں‘ ہر معاشرے کے مسائل الگ ہوتے ہیں لیکن ہر زمانے میں ظالم و مظلوم طبقہ موجود ہوتا ہے‘ ہر شاعر کی ذمے داری ہے کہ وہ استحصالی قوتوں کی نشاندہی کرے ان کے مظالم بیان کرے‘ ہر شاعر میں سچ بولنے کی جرأت ہونی چاہیے کیونکہ اربابِ سخن وہ طبقہ ہے جو قوموں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک میں شعرا نے بھی مسلمانانِ ہند کو بیدار کیا‘ شعرا نے قومی اور ملّی نغمات لکھ کر پاکستانیت کو فروغ دیا‘ لوگوں کو متحد ہونے کی ترغیب دی۔ شعرائے کرام کو چاہیے کہ وہ مادر پدر آزاد شاعری سے گریز کریں کیونکہ اس طرح ہمارا قومی تشخص مجروح ہوتا ہے‘ شاعرات کا قلم بھی باحیا ہونا چاہیے۔ قلم کاروں پر واجب ہے کہ وہ معاشرے کو آنے والے حالات و مصائب سے آگاہ کریں اب وہ زمانہ نہیں کہ آپ گل و بلبل کے افسانے لکھیں اب لوگوں میں شعور بیدار ہو چکا ہے‘ وہ معاشی اور سیاسی مسائل سمجھتے ہیں لہٰذا شعرائے کرام زندگی کے تمام مسائل و معاملات ڈسکس کریں‘ زندگی کے رویوں پر قلم اٹھائیں‘ ویسے بھی ہر شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ وہ اپنا عہد لکھ رہا ہوتا ہے‘ ہمیں آشوبِ شہر لکھنا چاہیے‘ برائیوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے‘ امن وامان کا پیغام دینا چاہیے آپ غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے واقعات و حادثات بھی لکھیے آپ اپنے قلم کو اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کیجیے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک شاعری میں علم عروض کی کیا اہمیت ہے؟
ذکیہ غزل: شاعری کے علم کو علمِ عروض کہتے ہیں اس کے سیکھنے کے بے شمار فوائد ہیں‘ نقصان کوئی نہیں۔ شاعری میں ایک ایک لفظ کا وزن مقرر ہے‘ بے وزن اشعار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ہر زمانے میں ایسے اربابِ سخن موجود ہوتے ہیں کہ جنہیں علم عروض نہیں آتا لیکن ان کے اشعار بے وزن یا بے بحر نہیں ہوتے کیونکہ شاعری ودیعت ہوتی ہے اس لیے علمِ عروض سیکھے بغیر بھی شاعری کی جاسکتی ہے۔ علمِ عروضی کی مروجہ 19 بحریں میں بہت سے ماہرانِ عروض کمی و بیشی کرکے نئے اوزان تربیت دے لیتے ہیں یہ ایک ماہرانہ کام ہے ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ ویسے آج کل علمِ عروض جاننے والے اساتذہ کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ مجھے علم عروض پر مکمل دسترس نہیں ہے تاہم بہت سی بحروں پر عبور حاصل ہے۔ آپ میرے اشعار میں کوئی عروضی خامی نہیں پائیں گے۔ میرے کلام میں ’’آمد‘‘ کے مصرعے بہت ہیں خدا کا شکر ہے کہ شاعری مجھ پر وارد ہوتی ہے۔
جسارت میگزین: آپ نے اپنی ادبی تنظیم ’’اظہار‘‘ کے ذریعے کیا خدمات انجام دی ہیں؟
ذکیہ غزل: اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں جو غیر سرکاری ادبی ادارے مصروف عمل ہیں ان میں ’’اظہار‘‘ بھی شامل ہے۔ کراچی میں ہم نے اس ادارے کے تحت صاحبِ فراش اور ضرورت مند شعرا کے لیے اعزازیہ جاری کیا ہم محدود وسائل کے باعث ہر ماہ چار شعرا کی مالی اعانت کیا کرتے تھے اس کے علاوہ بھی ہم ان کی بہت سی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اس کے ساتھ ساتھ ہم ’’اظہار‘‘ کے پلیٹ فارم سے ادبی پروگرام بھی ترتیب دیتے تھے جن میں مذاکرے‘ مشاعرے اور تنقیدی نشستیں بھی شامل ہیں اب کینیڈا میں ’’اظہار‘‘ آب و تاب کے ساتھ ادبی منظر نامے میں جگمگا رہا ہے۔ بہت سے اہم لوگ اس ادارے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ہماری ایک کمیٹی ہے جو کہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم کس ملک سے کون کون سے شعرا و شاعرات کو کینیڈا میں مشاعرے کے لیے دعوت دیں۔ ہم نے اس ادارے کے بینر تلے اردو کے کئی اہم شعرا کا جشن منایا ہے‘ اس کے علاوہ عالمی مشاعرے بھی ترتیب دیے ہیں۔ ہماری ادبی تنظیم ’’اظہار‘‘ مشاعرے کے ٹکٹ فروخت نہیں کرتی جیسا کہ دوسری تنظیمیں فنڈنگ کے لیے مشاعرے کے ٹکٹ بیچتی ہیں‘ خدا کا شکر ہے کہ ہمیں اسپانسر مل جاتے ہیں لیکن ہم کسی مشاعرے کے نام پر کوئی رقم نہیں لیتے بلکہ ہم کسی سے کہتی ہیں کہ آپ مشاعرہ ہال بک کرا دیجیے‘ کسی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ شاعروں کے قیام و طعام کے اخراجات اپنے ذمے لے لیں‘ کسی سے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ وہ کیش ایوارڈز کا انتظام کر دیں کیونکہ ہم اظہار کے پلیٹ فارم سے مہمان شعرا اور مقامی شعرا کی خدمت میں کیش ایوارڈز پیش کرتے ہیں۔ ہماری نیت صاف ہے اس لیے ہمارے پروگرام نہایت کامیابی سے جاری ہیں۔ مشاعرہ میرا ذریعہ معاش نہیں ہے۔
جسارت میگزین: تنقیدی نشستوں کے بارے میں آپ کے کیا تاثرات ہیں؟
ذکیہ غزل: محفل نقد و نظر کے حوالے سے نقاش کاظمی ایک اہم شخصیت ہیں کہ جنہوں نے طویل عرصے تک آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں تنقیدی نشستوں کا اہتمام کیا اس کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ جو کلام تنقیدی نشست میں پیش کیا جاتا تھا اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپی تنقیدی نشست میں موجود ہر شخص کو فراہم کردی جاتی تھی۔ کلام پر گفتگو ہوتی تھی‘ عیب و ہنر بیان کیے جاتے تھے اس طرح صحت مندانہ تنقید سے بہت سے مفید پہلو سامنے آتے تھے۔ اشعار میں موجود خرابیاں بھی دور ہوجاتی تھیں‘ تنقید کرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جاتا تھا کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو‘ کراچی میں نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ اب کسی کے شعر کی خامی یا خوبی بھی ڈسکس نہیں کرتے کہ کہیں وہ شاعر زیر بحث نہ آئے۔ تنقیدی نشستیں شاعری کے نکھار میں مددگار و معاون ہوتی ہیں اسی لیے کسی نہ کسی شکل میں یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔
جسارت میگزین: موجودہ زمانے کی تنقیدی روّیوں کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں؟
ذکیہ غزل: تنقید کا مادہ نقد سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں جانچنا‘ پرکھنا۔ شاعری میں کسی فن پارے کی خوبیاں اور خامیاں بیان کرنے کا نام تنقید ہے۔ ہر شخص نقادِ سخن نہیں بن سکتا کیونکہ اس کام کے لیے بہت حوصلہ چاہیے‘ آپ جس فن پارے پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں آپ کو اس صنفِ سخن کے بارے میں معلومات ہونی چاہئیں۔ آج کل معیاری تنقید کا فقدان ہے‘ اب شعرا ہوں‘ ادیب ہوں یا ناقدینِ فن سب لوگ ایک دوسرے کی Good Book میں رہنا چاہتے ہیں‘ ہمارے یہاں تو یہ حال ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی خاطر دشمنیاں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے دوستیاں کرتے ہیں۔
جسارت میگزین: نعت نگاری کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟
ذکیہ غزل: نعت نگاری میں سیرت رسولؐ اور شمائل رسولؐ بیان کیے جاتے ہیں۔ نعت کا لفظ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے ہم بحیثیت مسلمان نعت کہہ رہے ہیں جبکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ غیر مسلم شعرا نے بھی نعتیں لکھی ہیں کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محسن انسانیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپؐ کی تعریف و توصیف بیان کی ہے لہٰذا نعت کہنا باعث ثواب‘ نعت سننا باعثِ ثواب اور نعتیہ محفلوں کا انعقاد بھی باعثِ ثواب ہے۔ نعت کہنے کے لیے سیرت رسول کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ نعت گو کے لیے لازمی ہے کہ وہ قدیم و جدید نعتیہ شعری رجحانات سے واقف ہو‘ نعت نگاری میں جھوٹ اور غلو کی گنجائش نہیں ہے‘ نعت اور حمد کے مضامین ایک دوسروں میں شامل مت کیجیے‘ عبد و معبود کا فرق نمایاں ہونا چاہیے‘ نعتیہ اشعار کہتے وقت جوش کے بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے کیونکہ ذرا سی غلطی سے آپ گناہ گار ہو جائیں گے۔ حب رسول کے بغیر نعت نہیں کہی جاسکتی۔ نعت نگاری کو مرکزی خیال بناتے ہوئے اب مسلمانوں کے سیاسی و معاشی حالات بھی نعتیہ ادب کا حصہ بن رہے ہیں ہمارا ایمان ہے کہ سیرت رسولؐ کی پیروی میں ہماری نجات ہے۔

غزلیں

ذکیہ غزل

دشت نے نوائی میں فخر کج کلاہی کیا
موت کی فصیلوں پر زعم بادشاہی کیا
درد کی صلیبوں پر لاش ہو چکے نالے
بے ضمیر حاکم سے عدل کی گواہی کیا
وہ اسیرِ وحشت بھی رات کے مسافر تھے
ایسے شب گزیدوں پر نیند کے سپاہی کیا
عدل کے ورق پھاڑے مکتب سیاست نے
پھر گناہ کیا تیرا‘ میری بے گناہی کیا
احتسابِ دل کا جب ہر حساب چکتا ہے
تیری کم نگاہی کیا‘ میری خوش نگاہی کیا
ہم امیدِ فردا کے رہروانِ منزل ہیں
صبح کے اجالوں کو رات کی سیاہی کیا
بے کفن امیدوں کی سر بریدہ لاشوں کو
دفن کر کے لوٹ آئے راستی کے راہی کیا
اے غزلؔ ترا لہجہ شب زدہ ہے راتوں کا
رتجگوں کے موسم میں خوابِ صبح گاہی کیا
٭
سفر میں خاک ہوئے کارواں بناتے ہوئے
زمین جلنے لگی آسماں بناتے ہوئے
کوئی بھی حرفِ دعا رائیگاں نہیں جاتا
میں اس یقین پہ پہنچی گماں بناتے ہوئے
تحفظ در و دیوار کارِ مشکل ہے
جھلس گیا ہے بدن سائباں بناتے ہوئے
عجیب لوگ تھے نفرت میں پائمال ہوئے
محبتوں کی زمیں بے نشاں بناتے ہوئے
لہو لہان جو رستے ہوئے محبت کے
ہم آسماں پہ چلے کہکشاں بناتے ہوئے
یہ کون روزنِ زنداں سے جھانکتا ہے غزلؔ
یہ کون قید ہوا بیڑیاں بناتے ہوئے
٭
خود سے جدا ہوئے تو کہیں کے نہیں رہے
یوں در بدر ہوئے کہ زمیں کے نہیں رہے
رشتے رفاقتوں کے رقابت میں ڈھل گئے
دیوار و در بھی اپنے مکیں کے نہیں رہے
ہجرت زدہ لباس میں پھرتے ہیں در بہ در
رہنا تھا جس نگر میں وہیں کے نہیں رہے
یہ کوزہ گر یہ چاک یہ مٹی یہ آگ سب
زعمِ ہنر میں دیکھ کہیں کے نہیں رہے
دہشت کو بانٹتے رہے لے کر خدا کا نام
خود ساختہ جہاد میں دیں کے نہیں رہے
پائے طلب کے نقش بھی معددم ہو گئے
سجدے بھی میرے‘ میری جبیں کے نہیں رہے
ایسی چلی ہے بادِ مخالف کہ دور تک
نقشِ قدم بھی خاک نشیں کے نہیں رہے
خوابوں کے زخم آنکھ سے رسنے لگے غزلؔ
یہ دردِ جاں بھی قلبِ حزیں کے نہیں رہے

حصہ