شامی سرحد سے اہلِ شام کا آنکھوں دیکھا حال

300

غزالہ عزیز
مغربی غوطہ کا علاقہ دشمن کے قریب اپوزیشن کا آخری مورچہ ہے۔ یہ علاقہ 2012ء سے حکومت کے باغیوں کے قبضے میں ہے۔ اب صدر بشارالاسد اس علاقے کا قبضہ شدید ترین فوجی کارروائی کے ذریعے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسدی فوج روس کی مدد سے غوطہ پر مسلسل بم باری کررہی ہے۔ وہاں لوگ ایک طرف بم باری سے مر رہے ہیں اور دوسری طرف بچ جانے والوں کو بھوک مار رہی ہے۔
اس سے قبل الرقہ اور حلب پر امریکا، فرانس اور روس کے طیارے پندرہ، پندرہ اور بیس بیس کی ٹکڑیوں کی شکل میں بم باری کرتے رہے، یہاں تک کہ اسکولوں اور اسپتالوں کو بھی نہ چھوڑا… یہ شہر کھنڈر کی صورت میں باقی رہ گئے۔ اب غوطہ میں وہی صورتِ حال ہے۔
سرکاری فوجیں غوطہ پر بم باری کررہی ہیں۔ لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ معصوم بچے اور عورتیں مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی لیکن امدادی اداروں کو متاثرہ علاقوں تک رسائی نہیں دی گئی۔ اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور اور ہنگامی امداد مارک لوکوک نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’’قرارداد منظور ہونے کے بعد شامیوں کو مزید بم باری، مزید لڑائی، مزید ہلاکتوں، مزید تباہی، مزید بھوک اور مزید تکلیف کا سامنا ہے، اور گزشتہ چند روز میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔‘‘
یہ وہ حالات تھے جن میں دنیا کی 55 ممالک کی خواتین نے شامی عورتوں، بچوں اور مہاجرین کے لیے یک جہتی کے اظہار کے طور پر شامی سرحد پر جمع ہونے کا سوچا۔ یہ قافلہ ’’قافلۂ وجدان‘‘ کے نام سے مرتب کیا گیا۔
پاکستان سے قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی نمائندہ محترمہ عائشہ سید صاحبہ نے شرکت کی۔ الخبیب فائونڈیشن اور IHH ٹرسٹ والوں نے پاکستان سے جانے والے وفد کو اسپانسر کیا۔
محترمہ عائشہ سید کہتی ہیں کہ ہمیں 8 مارچ یومِ خواتین کے موقع پر شام کی سرحد پر اظہارِ یک جہتی کے لیے جمع ہونا تھا۔ اس کے لیے پہلے ہم استنبول میں جمع ہوئے، یہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین کا قافلہ تھا۔ ہم استنبول سے کانوائے کی شکل میں پریس کانفرنس کرکے نکلے تھے، جس وقت پریس کانفرنس ہورہی تھی استنبول میں شدید بارش ہورہی تھی، لیکن اس کے باوجود بہت بڑے میدان میں سب جمع تھے۔ 55 ممالک کے لوگ دلوں میں یہ احساس لیے ہوئے تھے کہ یہ غم سب کا غم ہے، ایک کیفیت تھی جس سے سب کے دل آزردہ تھے۔ پھر ہم شام کی سرحد کی طرف جاتے ہوئے مسلسل پریس کانفرنس کرتے جارہے تھے… اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے تھے۔
8 مارچ کو جب ہم وہاں سرحد کے پاس پہنچے تو مہاجر شامی خواتین جو ہمارے ساتھ شامل ہوئیں، انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ کسی کے تین بچے اور شوہر، کسی کے دو بچے اور شوہر شہید ہوچکے ہیں، اور کسی کے پندرہ سولہ سال سے جیلوں میں قید ہیں۔ ان خواتین نے اپنے بچوں اور شوہروں کی تصاویر اپنے گلے میں لٹکائی ہوئی تھیں۔ انتہائی غم زہ نہ صرف وہ تھیں بلکہ وہاں موجود ہر ایک کی حالت انتہائی غم ناک تھی… بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ زمین اور آسمان بھی ہمارے ساتھ رو رہے ہیں۔
وہ خواتین انتہائی درد و الم کا شکار تھیں۔ آنکھوں میں ویرانی تھی۔ اس قافلۂ وجدان میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شامل تھے۔ نیلسن منڈیلا کی فیملی بھی وہاں احتجاج میں شامل تھی۔ اُسی دن ہم آگے بڑھ کر دوپہر ایک بجے ریحانیہ بارڈر پر گئے جو شام اور ترکی کا ایک ایسا سرحدی علاقہ تھا جہاں سے شام نظر آرہا تھا۔ یہ شام سے سوا کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
الخبیب فائونڈیشن وہاں ایک یتیم خانہ چلا رہی ہے جہاں 990 بچے موجود ہیں جن کا کوئی قریبی رشتے دار موجود نہیں ہے۔ وہاں ہم الخدمت کے کیمپوں میں بھی گئے جہاں چھوٹی بچیوں کو فیملی کے ساتھ رکھا گیا ہے، یعنی چھوٹی یتیم بچیوں کو، تاکہ انہیں ان کے ماں باپ کا کسی حد تک نعم البدل مل سکے۔
ہم نے وہاں بچیوں اور بچوں کو ایسے عالم میں دیکھا کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کسی بچی کا ہاتھ نہیں، کسی کا پیر نہیں، کسی کے جسم کا کوئی اور عضو کٹ چکا ہے… یوں سمجھیں سوشل میڈیا پر جو وڈیو دیکھنا مشکل ہے وہاں ہم ان کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔ دل انتہائی افسردہ تھا۔
انتہائی حسین بچے اور بچیاں جو بہادر، حوصلہ مند اور پُرامید تھے، لیکن جس حال میں تھے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ ان کو اس حال میں پہنچانا کیا انسانیت کی تذلیل نہ تھی؟ یقینا یہ انسانیت کے لیے اور انسانیت کے علَم برداروں کے لیے انتہائی شرم ناک بات ہے۔ ایسا سلوک بے گناہ معصوم بچوں کے ساتھ کیا گیا ہے کہ دل اور دماغ شل ہوجاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پہلے کبھی ایسا سلوک بے گناہوں، خاص طور سے بچوں کے ساتھ نہیں کیا گیا ہوگا۔
الخدمت کے شام کے اندر بھی مختلف کیمپ موجود ہیں جن میں لوگوں کو بسایا گیا ہے۔ ہم الخدمت کے ایک اور کیمپ میں گئے جس میں تین سو سے زیادہ لوگوں کو بسایا گیا ہے۔ خاندانوں کو بہت اچھی طرح شام کے اندر بھی جا کر کیمپوں میں الخدمت کے تحت سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ ہم نے شام کی عورتوں سے سرحد پر جاکر ہاتھ ملائے، گلے لگایا، تسلی دی۔ الخبیب فائونڈیشن نے شام کی سرحد پر ایک کارخانہ لگایا ہوا ہے جہاں ایک روز میں ایک لاکھ اسّی ہزار روٹیاں بنائی جاتی ہیں اور مہاجرین کو شام کے اندر کے کیمپوں میں پہنچائی جاتی ہیں۔ ایک یتیم خانہ ہم نے ایسا بھی دیکھا جس میں تقریباً سو بچے تھے جن کی عمریں ایک سے پانچ سال کے درمیان تھیں۔ یہ بچے ایسے تھے کہ پیار کو ترس۳ رہے تھے۔ اپنے خاندانوں کا انتظار اُن کی آنکھوں میں تھا۔ وہ ہم سب سے لپٹ رہے تھے، دائیں بائیں محبت کے ساتھ گالوں کو، ہاتھوں کو چوم رہے تھے۔
وہاں وہ شامی خواتین موجود تھیں جنہوں نے اپنا آدھے سے زیادہ خاندان گنوا دیا ہے۔ کسی کے کچھ پیارے وہاں رہ گئے ہیں، چھوٹ گئے ہیں۔ کیسی ویرانی تھی ان کے چہروں پر، ان کی آنکھوں میں، یہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں گھر ٹوٹ چکے ہیں، بچے چھوٹ چکے ہیں، جسم زخمی ہیں… انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے زندہ ہوں لیکن لاشوں کی صورت میں ہوں… لیکن اس سب کے باوجود کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہوچکا ہے اور ہورہا ہے وہ بہت بہادر ہیں، بہت بے خوف ہوچکے ہیں، وہاں ان کے چہروں پر اور آنکھوں میں انتقام کی آگ ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک ننھا بچہ، ایسی عمر کا بچہ کہ جس کو اپنے ڈیفنس میں کچھ کرنا نہیں آتا لیکن ایک کیمرہ مین پر جس کو وہ غلط سمجھ رہا تھا، ایسا جھپٹا کہ جیسے پتا نہیں کیا کر جائے گا۔ وہاں ترکی کے صدر اردوان کے ساتھ ہماری کئی میٹنگ ہوئیں۔ وہ وہاں اپنے لوگوں کے لیے، شام کے مہاجروں کے لیے امید کا ستارہ ہیں۔ ایک دیانت دار راہ نما، ایک بہادر لیڈر قوم کو اٹھاتا ہے، اور اس وقت اردوان ایک سچے بہادر لیڈر کی طرح قوم کو اٹھا رہے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ شامی مہاجروں کا خیال رکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں، یہ ترکی کے لوگوں کے مہمان ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ الخدمت فائونڈیشن، الخبیب فائونڈیشن، تقی عثمانی کی جماعت… وہاں جگہ جگہ پاکستان کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ پاکستان کے عوام الخدمت اور دوسرے کچھ اداروںکے ذریعے امداد بھیج رہے ہیں۔
میں جس ہوٹل میں ٹھیری تھی وہاں کا مالک بتا رہا تھا کہ اردوان اپنے لوگوں کو اٹھا رہے ہیں کہ شامی مسلمانوں کی امداد کرو۔ اردوان نے ایسا اچھا اور شفاف نظام قائم کیا ہے کہ عوام جس کو امداد دیتے ہیں اُس شامی خاندان کی طرف سے شناختی نمبر کے ساتھ فون میسج پر فوراً شکریہ کا جواب آتا ہے کہ آپ نے ہم کو اتنی امداد دی آپ کا بہت شکریہ… یہاں میں یہ بات بھی کہوں گی کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں بھیجی گئی ہے جو کہ بھیجنا چاہیے۔
یہ اہم بات بھی اردوان نے بتائی کہ ہم ان لاکھوں مہاجرین کو اپنی شہریت دے رہے ہیں۔ حالانکہ اس طرح وہ بہت اوور لوڈڈ ہوں گے، لیکن مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہ اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔
انہوں نے مہاجرین بچوں کے لیے اسکولوں کا انتظام کیا ہے، مہاجروں کے لیے روزگار کا بندوبست کیا ہے، انہیں وہ اچھی طرح سنبھال رہے ہیں۔ لیکن تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہیں سنبھالنے کے لیے پوری مسلمہ امہ کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ میری پاکستانی عوام سے گزارش ہے کہ وہ اس سلسلے میں جو کچھ کرسکتے ہوں، کریں۔ الخدمت فائونڈیشن کے ذریعے شامی مہاجرین کو امداد پہنچائی جارہی ہے۔ اپنے شامی بہن بھائیوں کے لیے، ان کی آسانیوں کے لیے امداد دیں۔ میں پاکستانی حکومت سے بھی پُرزور مطالبہ کرتی ہوں کہ اسے اپنے شامی بھائیوں کے لیے امداد فراہم کرنی چاہیے۔ جس جس شکل میں ان کو ضرورت ہے… خوراک کی شکل میں، دوائوں کی شکل میں، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی شکل میں… حکومت کو وہاں امدد فراہم کرنی چاہیے۔
میری اپنے پاکستانی ہم وطنوں سے خاص طور سے گزارش ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی آفت ٹوٹے آپ قرآن سے جڑ جائیں، اس سے راہنمائی حاصل کریں۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

حصہ