ادارۂ نورِ حق میں یادگار شعری نشست

608

شاعری واردات اور کیفیت کے اظہار کا مؤثر ذریعہ ہے ۔زندگی کے نشیب وفراز،حالات و واقعات،کائنات کی جہتیں اور کون کون سے موضوع ہیں جو سخن نہ ہوئے۔ زمانۂ قدیم سے آج تک انسانی دماغ نے کیاکچھ نہیں کہاہے اور کیا کچھ ابھی اس کائنات میں باقی ہے اس کا سراغ لگانے کے لیے ہر سوچنے والا دماغ اپنے اپنے اظہار کے قرینے سے کچھ نہ کچھ دریافت کررہا ہے۔اگر ہم صرف برصغیر کی اردو شاعری کا احاطہ کریں توخدائے سخن میرؔ،غالبؔ،اقبالؔ اور راشد تک ہم دیکھیں تو اظہار کی کئی نایاب نمونے ہیں،کئی انداز ہیں۔عہدِ موجود میں بھی شاعری کے طرزِ اظہار میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔نظم اور شعرآج بھی کہا جارہا ہے اور میرا خیال ہے کہ اگلے کئی برسوں تک کہا جائے گا۔حالانکہ درج بالا اساتذہ تک شعری روایات ختم ہوجاتی ہیں اور راشد کے بعد ہمیں دور دور تک کوئی بڑا آدمی نظر نہیں آتا لیکن راستہ باقی ہوتو امکانات کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟یہ الگ بات کہ عہدِ موجود میں جو انسانی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔اس کے لیے شاعری میں اظہار ممکن نہیں رہالیکن شاعری کی صنف کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا یہ بات طے ہے۔کیوں جذبات اور احساسات انسان کے وجود کے اندر سے کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور یہ عناصر موجود ہیں تو شاعری زندہ رہے گی۔
مشاعرے برصغیرپاک و ہند میں اردو زبان وتہذیب کی ایک خوبصورت روایت ہیں ۔اس کی مثال دنیا کے دوسری زبانوں کے ادب و تہذیب میں بہ مشکل ہی مل سکتی ہے۔مشاعرہ شاعر اور سامع دونوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ مشاعرے سے ہمیں اپنی زبان، تہذیب ، روایت ،دریافت اورانسانی خیالات کا پتا چلتا ہے۔ انسانی دماغ کیا کیا سوچتا ہے اور اسے شعر یا نظم کے قالب میں کیسے ڈھالتا ہے ۔پہلے کے مشاعروں میں ادب کے ساتھ ساتھ زبان وبیان اور خیال کے معاملات پر بہت توجہ دی جاتی تھی جبکہ آج کے مشاعرے اسٹیج پرفارمنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔جس نے جتنا اچھا پرفارم کیا وہ اتنا ہی اچھا اداکار(معاف کیجیے گا)اتنا ہی اچھا شاعر کہلایا۔بہرحال ’مشاعرہ ‘ایک اہم موضوع ہے ،پہلے کے اور آج کے مشاعروں میں فرق کے موضوع پر پھر کبھی بات ہوسکتی ہے اورہونی بھی چاہیے۔
آج کی ڈائری ایک ایسے مشاعرے کی روداد ہے جو پچھلے ہی دنوںپبلک ایڈ جماعت اسلامی کراچی کے شعبہ ادب کے زیر اہتمام امریکا سے تشریف لائے ہوئے ڈاکٹر آفاق اختر کے اعزاز میںپبلک ایڈ سیکریٹیریٹ(ادارۂ نورِحق) میں شعری نشست منعقد کی گئی۔جس کی صدارت معروف اردو شاعر جناب اجمل سراج نے کی۔ مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر اسامہ رضی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی تھے۔ مہمانان اعزازی جناب ڈاکٹر آفاق اخترتھے۔جناب ڈاکٹر ظفر اقبال جبکہ جناب ڈاکٹر واسع شاکر نائب امیر جماعت اسلامی کراچی، جناب زاہد عسکری سیکریٹری اطلاعات جماعت اسلامی کراچی اور منصور رضا نے خصوصی شرکت فرمائی۔نظامت کے فرائض جناب شکیل خان نے انجام دئیے۔شعرائے کرام میں جناب اجمل سراج صدر مجلس، جناب خلیل اللہ فاروقی،جناب علاالدین خانزادہ ہمدم،ڈاکٹر آفاق اختر ،نجیب ایوبی، خاکسار،نعیم سمیر،سلمان ثروت،احمد جہانگیر،خالد میر،سانی سید،زاہد عباس، اسامہ امیر شیخ،ارشد شاد،ڈاکٹر اورنگزیب رہبراورنعیم الدین نعیم نے اپنا کلام پیش کیا۔تقریب سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اسامہ رضی نے منتظمین مشاعرہ کا شکریہ ادا کر تے ہوئے کہا کہ اس تقریب کی خاص بات جو محسوس کی گئی وہ ہے کہ حیرت انگیز طور پر کراچی کے نوجوان شعرا نے جس طرح سماج کے موضوعات کو اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے اس نے حبیب جالب کی یاد دلا دی۔ضرورت اسی بات کی ہے کہ ہمارے دیگر شعرا آگے بڑھیں اور سماج میں موجود ظلم، جبر، لوٹ مار اور غریب عوام کے استحصال کو اپنا موضوع بنائیں۔انہوں نے نوجوان شعرا کے کلام کو سراہا۔
مشاعرے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں موجود تقریباً تمام شعرا کرام کا تعلق نوجوان نسل سے تھا۔کوئی نوجوان ایسا نہیں تھا کہ جس کے کلام پر حاضرین ِ محفل نے دل کھول کر داد نہ دی ہو۔تمام نوجوان شعرانے بھرپور کلام پیش کیا،نعیم سمیر اور سلمان ثروت کی نظموں کو خوب سراہا گیا۔ تقریب کے اختتام پر جنرل سکریٹری پبلک ایڈ نے تمام مہمانان گرامی اور شعرا وشرکا کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پبلک ایڈ کراچی نہ صرف شہری و بلدیاتی مسائل کے حل کے حوالے سے مصروف عمل ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ شعری و ادبی ذوق کے حامل افراد کو بھی ایک اچھا پلیٹ فارم دینے کے لئے کوشاں ہے۔اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جس طرح سے ہماری دیگر سیاسی جماعتیں آنے والے انتخابات کے لیے سیاسی جوڑ توڑ،پیسا بٹور میں مصروف ِ عمل ہے اس کے برعکس جماعت اسلامی بلاتفریق شہریوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔بعد از نشست حاضرین محفل کیلئے عشائیہ کا اہتمام کیا گیا ،یوں رات گئے تک یہ خوبصورت محفل جاری رہی ۔
مشاعرے میں شریک شعرأ کے کلام سے منتخب اشعار
ارشد شاد:

ہر شخص چاہتا تھا بدلنا نظام کو
اپنے معاملات بدلتا نہ تھا کوئی
اسامہ امیر شیخ:
تم کو کیا معلوم کہ کتنی مشکل سے
تھوڑی سی آسانی پیدا کرتا ہوں
زاہدعباس:
تیری خواہش ہے آئنہ بن جاؤں
آئنہ بن کے ٹوٹ جاؤں کیا ؟
احمد جہانگیر :
شیراز کی مئے، مرو کے یاقوت سنبھالے
میں کوہ دما وندسے آ پہنچا ہمالے
سلمان ثروت :
گماں کی حد سے بھی آگے پڑاؤ ڈالا ہے
بہت رکا تو فقط شب بِتانے والا ہوں

ثانی سید:

میں ثروت کو پڑھنے والا، کون مجھے چونکا ئے گا
اور تُو اپنے شعر سنا کر مجھ سے حیرت مانگتا ہے
نعیم سمیر:
اب پاؤں نہیں راہ میں دل تھکنے لگا ہے
لیکن ہمیں چلنا تو ہے انجامِ سفر تک
نجیب ایوبی:
کون مانے گا مری بات مگر دیکھا ہے
میں نے زنجیر کو جھنکار میں کرتے ہوئے رقص
علاؤالدین خانزادہ ہمدم:
یہ میرا شہر مری نسل لوٹنے والو
پتا ہے کس طرح بیٹا جوان ہوتا ہے

خلیل اللہ فاروقی:

کبھی لطف و کرم کے سلسلے ہیں
کبھی یکسر کنارا کر رہی ہے
ہمیں آباد یا برباد کر دے
محبت استخارہ کر رہی ہے
صدر محفل جناب اجمل سراج:
معلوم ہے سب کچھ یہی معلوم تھا ہم کو
کچھ اس سے زیادہ ہمیں معلوم نہیں تھا
رنگین بھی ہوگا تو ہمارے ہی لہوسے
یہ منظرِ سادہ ہمیں معلوم نہیں تھا

غزلیں

قمر رضا شہزادؔ

میں اس لیے ہوتا نہیں غم ناک مرے دوست
ہر شخص نے ہونا ہے یہاں خاک مرے دوست
رہتا ہے مرے تن پہ محبت کا لبادہ
سجتی ہے مجھے ایک ہی پوشاک مرے دوست
ہر چیز یہاں دوسرے منظر سے بندھی ہے
ہو جائے گا اک دن تمہیں ادراک مرے دوست
تو جن کو اٹھائے ہوئے پھرتا ہے ہوا میں
ٹوٹیں گے ترے سر پہ یہ افلاک مرے دوست
یہ اپنی تباہی پہ بھی روتا نہیں شہزادؔ
اس دل سے بڑا کون ہے سفاک مرے دوست

سعود عثمانی

گزرتی عمر ہے اور انتظار خواب کا ہے
عجیب فاصلہ آنکھوں کے پار خواب کا ہے
غروب ہوتے ہوئے چاند کو مبارک ہو
کوئی تو ہے کہ جسے اختیار خواب کا ہے
کبھی کبھی ترا چہرہ چھپا نہیں پاتا
وہ بھید بھی جو کسی راز دار خواب کا ہے
طلائی خاک‘ دمکتا فلک‘ سنہرے شجر
عجیب رنگ ترے زر نگار خواب کا ہے
خود اپنے آپ میں یوں منعکس ہیں آئینے
کہ جیسے خواب پہ دار و مدار خواب کا ہے

افشاں سحر

حالِ دل تجھ سے چھپاتے ہوئے مر جائیں گے
عہد ہم اپنا نبھاتے ہوئے مر جائیں گے
تیری قسمت کا الگ ہے مری قسمت کا الگ
اِن ستاروں کو ملاتے ہوئے مر جائیں گے
کم قیامت سے نہیں تجھ سے بچھڑ کر جینا
ہم گلے تجھ کو لگاتے ہوئے مر جائیں گے
نا مرادی کے سوا کچھ نہیں پایا پھر بھی
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جائیں گے
تو نے وہ ہجر دیا ہے کہ ملا بھی جو کبھی
ہم نگاہوں کو ملاتے ہوئے مر جائیں گے

حصہ